• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہاولپور میں اُس دن درجہ حرارت 44 سینٹی گریڈ تھا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں خصوصی اہتمام کے طور پر دو اے سی چل رہے تھے۔ لیکن اُنکے باوجود دم گھٹتا محسوس ہو رہا تھا‘ کچھ ہی دیر بعد چوہدری شجاعت حسین اپنے ارکان پنجاب اسمبلی کے ہمراہ پہنچ گئے جبکہ راولپنڈی سے رکن پنجاب اسمبلی چوہدری تنویر پہلے سے وہاں موجود تھے۔ چوہدری شجاعت حسین کو دیکھتے ہی جیل انتظامیہ کے ارکان نے آپس میں آنکھوں سے پیغام رسانی کی اور پانچ منٹ بعد شیخ رشید اپنے ملاقاتیوں سے ملنے کیلئے وہاں پہنچ گئے۔ قمیص پسینے سے تر، ٹھوڑی کے نیچے گردن کا گوشت لٹکا ہوا‘ سرخ سپید فرزند راولپنڈی اپنا رنگ و روپ کھو بیٹھا تھا، پسینہ سکھانے کیلئے قمیض کا گلہ پیچھے کیا تو شانوں کی ہڈیاں نمایاں ہو گئیں۔ آنکھوں کے گرد حلقے اتنے گہرے ہو چکے تھے جیسے چوٹ کے بعد رنگت سیاہی مائل ہو جاتی ہے۔ وزن خاصا کم ہو چکا تھا۔ شیخ رشید کو اس حال میں دیکھ کر چوہدری شجاعت سمیت کوئی بھی اُن سے فوری مخاطب نہ ہوسکا۔ شاید شیخ رشید کی یہ کیفیات سب کیلئے ہی غیر متوقع تھیں۔ چوہدری تنویر نے اپنے ہمراہ لائے ہوئے اُن کے پسندیدہ کیوبن سگار کا تحفہ پیش کیا تو شیخ صاحب نے انتہائی سرعت سے ایک سگار نکالا اور اضطرابی کیفیت میں اسے جلانے لگے اور اس کوشش میں اُن کے ہاتھوں میں خفیف سی لرزش بھی صاف دیکھتی جا سکتی تھی۔سگار کا کش لے کر اُنہوں نے سب کے احوال دریافت کرنے شروع کئے لیکن حیرت انگیز طور پر اُن کا لب و لہجہ اُن کی ظاہری کیفیات کے بالکل برعکس تھا۔ وہ بلند آواز اور بلند حوصلے سے انتہائی پراعتماد لہجے میں جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں بیٹھ کر اُس وقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور اُن کے شوہر آصف علی زداری پر انتہائی سخت الفاظ میں تنقید کررہے تھے۔اپنے موجودہ مصائب اور مشکلات کا ذمہ دار انہیں قرار دیکر ان سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ بھی کر رہے تھے۔ اُن کے لہجے میں سمجھوتے یا پچھتاوے کا دور دور تک کوئی شائبہ بھی موجود نہیں تھا۔ بلکہ اس اندیشے سے کہ کہیں شیخ رشید کی یہ گفتگو ٹیپ نہ ہو رہی ہو، ’’بعض ملاقاتی‘‘ متفکر نظر آرہے تھے اور شاید اس باعث ملاقات کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی ملاقات ختم ہوگئی۔
شیخ صاحب جو ایک بن لائسنس کلاشنکوف کی برآمدگی کے الزام میں بہاولپور جیل میں پانچ سال کی سزا کاٹ رہے تھے‘ ان دنوں اپنے تئیں فرزند راولپنڈی سے ’’فرزند پاکستان‘‘ بن چکے تھے اور اسی نام سے کتاب تحریر کر رہے تھے۔ اُن سے ملاقات طے تھی یہ بھی کمال شیخ صاحب کو ہی حاصل ہے کہ وہ جب جیل میں جاتے ہیں اعلیٰ حکام کیلئے مسلسل پریشانی اور نچلے اسٹاف کے پسندیدہ قیدی بن جاتے ہیں‘ یہی وجہ تھی کہ ہمیں اُنکی کوٹھڑی تک رسائی بھی حاصل ہو گئی۔
دن میں بھی قدرے تاریک انتہائی مختصر کوٹھڑی سے ایک کونے میں رفع حاجت کیلئے جگہ مختص تھی اور دوسرے کونے میں ایک چھوٹا سا چولہا رکھا تھا کچھ کتابیں‘ کاغذ اور بال پوائنٹ۔ کوٹھڑی کے باہر ایک تازہ تازہ دیوار اُٹھا دی گئی تھی‘ استفسار پر شیخ صاحب نے بتایا کہ یہ دیوار چند روز پہلے بنائی گئی ہے۔ اس سے میری کوٹھڑی کے باہر کا منظر بالکل بلاک ہو گیاہے۔ جیل کے اندرمیرے لئے ایک جیل بنا دی گئی ہے اورمیں ایک اندھیری چاردیواری میں بند ہو گیا ہوں۔ پہلے مجھے اپنی کوٹھڑی سے باہرکا منظردکھائی دیتا تھا‘ میری کوٹھڑی میں پرندے اور گلہریاں آ جایا کرتی تھیں جنہیں میں نے بڑی محنت سے مانوس کیا تھا اورمیں گھنٹوں اُنکے ساتھ باتیں کیا کرتا تھا جب چڑیاں چہچہاتیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے وہ مجھ سے باتیں کر رہی ہیں‘ میری باتوں کا جواب دے رہی ہیں۔ گلہریاں میری کوٹھڑی کے باہر پھدکتیں تو لگتا جیسے وہ میرے ساتھ کھیل رہی ہیں۔ لیکن اب اس دیوار کی تعمیر سے میں ٹوٹ گیا ہوں میرے سارے منظر مجھ سے چھین لئے گئے ہیں اُن کی آوازمیں اب وہ اعتماد اورطنطنہ نہیں تھا جو کچھ دیر پہلے جیل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں محسوس کیا جا رہا تھا‘ وہ واقعی ایک کمزورٹوٹے ہوئے شیخ رشید نظرآرہے تھے لیکن اگلے ہی لمحے اُنہوں نے خود کو سمیٹا اور بولے یہ سب کچھ آصف علی زرداری کی ہدایت پر ہو رہا ہے جس نے نصیر اللہ بابر (اُس وقت کے وزیر داخلہ) کو خصوصی طورپرحکم دے رکھا ہے کہ شیخ رشید کو زیادہ سے زیادہ ٹارچرکیا جائے اورجیل میں کوئی سہولت نہیں ملنی چاہئے۔
بہاولپور جیل سے میرے بارے میں خصوصی طور پر ڈیلی رپورٹ منگائی جاتی ہے اور مجھے تنگ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ میری کوٹھڑی کے باہر یہ دیوارکھڑی کرنے کی ہدایت بھی اسلام آباد سے آئی تھی۔ شیخ رشید حقیقتاً بہاولپور جیل میں ایک مشکل اور سخت ترین اسیری کے شب و روز گزار رہے تھے‘ رخصت ہونے لگے تواُنہوں نے ٹھہرے ہوئے معنی خیزانداز میں ایک جملہ کہا ’’لکھ لو‘ یہ میری آخری جیل ہے‘ اسکے بعد شیخ رشید کبھی جیل میں نہیں آئیگا‘‘۔۔۔!!
اس سارے واقعہ کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے اورابھی تک اُن کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی اور اُن کا طرز سیاست آج بھی اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ شاید آئندہ بھی یہ بات صحیح ہی ثابت ہو گی۔ شیخ رشید کو بہاولپور جیل میں ایک اذیتناک قید کیوں کاٹنی پڑی اور اگراس کی ذمہ داری بقول اُن کے آصف علی زرداری پرعائد ہوتی ہے تو پھر اُنہیں اسکی وجوہات کا بھی علم ہونا چاہئے۔
مسلم لیگ کی حکومت میں بحیثیت وزیر بھی اور اپوزیشن میں رُکن اسمبلی کی حیثیت سے بھی قومی اسمبلی کے ایوان میں اپنے مخالفین پر پھبتی کسنا، فقرے بازی کرنا اور تمسخر اُڑانا اُن کے مزاج کا حصہ رہا ہے اور محترمہ بینظیر بھٹو بطور خاص اُن کا ہدف ہوا کرتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں یہ منظر اکثر دیکھنے میں آتے کہ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ایوان میں موجود بینظیر بھٹو شیخ رشید کی تقریر کے آغاز پر ہی ایوان سے چلی جاتیں۔ وہ ایوان میں محترمہ بینظیر بھٹو کیلئے پیپسی‘ یلوکیب‘ پنکی‘ راج کماری‘ بیگم نصرت بھٹو کیلئے مادر ملکہ‘ حاکم علی زرداری کیلئے گاڈ فادر اور آصف علی زرداری کیلئے میلا انگریز اور مسٹر ٹین پرسنٹ کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے۔ (یہ تمام الفاظ قومی اسمبلی کے ریکارڈ پر آج بھی موجود ہیں‘ جو الفاظ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کارروائی سے حذف کر دیئے اُنہیں شامل نہیں کیا)۔ اس کے علاوہ بھی مختلف مواقعوں پر شیخ صاحب وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ راولپنڈی کی سینٹرل جیل جہاں پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی‘ محترمہ بینظیر بھٹو نے وہاں اپنے والد کی یادگار تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا اور اُن کی حکومت میں اس مقصد کیلئے تیزی سے کام بھی شروع کر دیا گیا تھا.... لیکن اپوزیشن میں رہتے ہوئے شیخ رشید نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’’جب تک میں زندہ ہوں یہاں بھٹو کی یادگار نہیں بننے دونگا‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ پھانسی گھاٹ پر ایک وسیع و عریض پارک قائم ہے جہاں ایک سینما ہائوس اور فاسٹ فوڈ بن گیا ہے۔ یہاں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے لوگوں کو یاد ہی نہیں کہ اسی مقام پر پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر چڑھایا گیاتھا۔
اگر شیخ صاحب کو یاد ہو تو اُنہوں نے اس تاثر کی بڑی شدت سے تصدیق کی تھی کہ آصف علی زرداری دوستوں کے دوست بھی ہیں اور ایک منتقم مزاج شخص بھی ہیں اور بدلہ لینے کیلئے موقعہ کی تلاش اور انتظار میں رہتے ہیں‘ تو پھر ایسا ہی ہوا۔ بعد میں بہاولپور جیل کے حکام نے اعتراف کیا تھا کہ شیخ رشید کے بارے میں بعض تفصیلات اور اُن کے ملاقاتیوں کے بارے میں ہر ہفتے تفصیلی رپورٹ اسلام آباد بھیجی جاتی تھی اور کئی مرتبہ خود وزیر داخلہ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر بھی براہ راست فون کر کے بعض واقعات کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے تھے اور شیخ رشید کو زِچ کرنے سے متعلق جو ہدایات دی جاتی تھیں اُن پر عملدرآمد کے بارے میں بھی استفسار کرتے تھے۔
’’آپ اُس سے محبت نہیں کرتے تو پھر اُس سے نفرت ضرور کرتے ہوں گے‘ لیکن اُس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے‘‘.... کچھ ایسی صورتحال شیخ رشید کے حوالے سے ہے‘ آپ اُن سے متفق نہیں تو اختلاف کر سکتے ہیں‘ لیکن پھر بھی اُنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیوار کے پیچھے دیکھنے کا دعویٰ کرنے والے شیخ رشید راولپنڈی میں رہتے ہیں اور پنڈی والوں سے اپنا تعلق اور وابستگی ظاہر کرنے میں عار نہیں بلکہ فخر سمجھتے ہیں اور بعض سیاسی حلقے اُن کی سیاسی پیشگوئیوں کو ’’اُسی تعلق‘‘ کا سبب گردانتے ہیں۔ اپنے اقتدار کے دوسرے دور کے آخری دنوں میں وزیراعظم نواز شریف نے وزارتوں کا ڈھانچہ یکسر تبدیل کرنے کا سوچ لیا تھا اور وہ اُس پر عمل کرنے کیلئے موزوں وقت کا انتظار کر رہے تھے (شاید اِن دنوں بھی ایسا ہی ہے) تمام حالات و انتظامات کی روشنی میں 13اکتوبر کو حلف برداری کی تقریب ہونا قرار پائی۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی نے جن لوگوں کو فون کرکے حلف اُٹھانے کی اطلاع دی اُن میں شیخ رشید بھی شامل تھے.... لیکن شیخ رشید نے برجستہ جواب دیا یہ 13اکتوبر نہیں آئے گی…پھر کچھ دنوں بعد جب وزارتوں کا ریکارڈ قبضے میں لیا گیا تو..... شیخ رشید کے آفس میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا‘ کیونکہ اطلاعات یا حالات کے پیش نظر اُنہوں نے سارا ریکارڈ پہلے ہی وہاں سے نکال لیا تھا جبکہ دوسرے وزراء سے نہ صرف اہم دفتری بلکہ ’’نجی‘‘ ریکارڈ بھی برآمد ہوا.... یہ محض ایک مثال ہے جو اُن کی پیشگی معلومات اور ’’اطلاعات تک رسائی‘‘ کا پتہ دیتی ہے۔
کاش شیخ صاحب یہ بھی بتا دیں کہ آصف علی زرداری جو ان دنوں پنجاب میں مورچہ لگانے کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں اور انتہائی رازداری سے بعض لوگوں کے سیاسی راستوں میں ’’بارودی سرنگیں‘‘ بچھانے میں مصروف ہیں‘ ماضی کے چلے ہوئے سیاسی کارتوسوں میں نیا بارود بھر رہے ہیں۔ ان سرگرمیوں کے پیچھے اُن کے اصل مقاصد کیا ہیں؟ کیا وہ ہچکیاں لیتی ہوئی اپنی جماعت میں سیاسی جان ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں‘ تاکہ آنے والے دنوں میں وہ پنجاب میں سیاسی اور پارلیمانی طاقت حاصل کر سکے.... یا پھر وہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر عملدرآمد کرتے ہوئے پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو مضبوط کرنے کیلئے سیاسی ہوم ورک کر رہے ہیں اور یہ کہ وقت آنے پر وہ جمہوریت کو بچائینگے یا وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو.....یا بوقت ضرورت وہ میاں نواز شریف کے ساتھ ’’دوستی‘‘ بنائیں گے یا پھر اُن سے ماضی کا حساب کتاب چکائیں گے۔دیکھنے میں تو یہی آیا ہے کہ دوسروں کے بارے میں پیشگوئیاں کرنے والے نجومیوں اور حساب کتاب لگانے والے جوتشیوں کو اپنے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا کہ اُن کا مستقبل کیا ہے؟ اور مستقبل قریب میں خود اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
اگر اُنہیں اس علم و ہنر پر دسترس حاصل ہو جائے تو وہ کم از کم اُن حالات و واقعات کا سدباب ضرور کر لیں جو اُنکے ساتھ پیش آنے والے ہیں۔ آنے والے دنوں میں شیخ صاحب اگر چاہیں تو اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں کسی ’’دوسرے جوتشی‘‘ سے اپنا زائچہ بنوا لیں تو شاید یہ اُن کے حق میں بہتر ہوگا…!!
تازہ ترین