• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے پر متحد ہونے اور الطاف حسین کی تقریر کیخلاف ایکا کرنے والی قوم سے صرف اتنی سی درخواست کہ جب وہ اگلی بار اکٹھی ہوتو ذرا پہلے بتا دے تا کہ ہم جیسے بھی اس ’’ تاریخی ایکے‘‘ کا نظارہ کر سکیں ۔
6نومبر 2004کی دوپہر،دہلی کا فائیو اسٹار ہوٹل، بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ سمیت 5سو سے زائد شرکاء ہمہ تن گوش، لندن سے 3دن پہلے 15روزہ دورے پر بھارت پہنچے الطاف حسین کی تقریر جاری ’’ دلی ائیرپورٹ پر اتر کر جب میں نے دائیں بائیں اور اوپر نیچے دیکھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میں اپنے گھر آگیا ہوں(تالیاں بجیں ) ‘‘بھارت کی تعریف اور خطے کی صورتحال بیان کرنے کے بعد دو چار لمحوں کیلئے خاموش ہو کر الطاف حسین پھر ڈرامائی انداز میں بولے ’’برصغیر کی تقسیم کوہ ہمالیہ جتنی غلطی تھی اور پاکستان بنتے ہی نظریہ پاکستان دم توڑ گیا تھا (پھر تالیاں بجیں اور دیر تک بجیں)‘‘ تقریر آگے بڑھی،اپنے اور مہاجرین کے ساتھ پاکستان میں ہوتی بدسلوکی اور زیادتیوں کی بات کر کے اچانک الطاف حسین نے جذباتی لہجے میں سامعین سے پوچھا ’’ دلی والو! اگر ضرورت پڑی تو کیا ہمیں پناہ دو گے ‘‘لیکن 3بار یہ سوال دہرانے کے بعد بھی جب سامعین میں سے کوئی نہ بولا تو زیرِ لب مسکراتے الطاف حسین خود ہی کہنے لگے ’’ لگتا ہے کہ میں نے مشکل سوال پوچھ لیا‘‘ ۔ گو کہ الطاف حسین نے اُس دن اور بھی بہت ساری باتیں کیں لیکن آپ یہیں رک کر تقریر کے صرف اسی حصے کو ذہن میں رکھ کر سوچئے کہ کوئی بھارتی رہنما اسلام آباد آکر بھارت کیخلاف تقریر کرے، پاکستانیوں سے پناہ مانگے تو کیا پھر بھی وہ بھارت میں سیاست کر سکے گا، ذرا سوچئے کہ کوئی بھارتی لیڈر بھارت کو ناسور کہہ کر، بھارت پر امریکہ اور اسرائیل کو چڑھائی کی دعوت دے کر اوربھارتی فوج کو برا بھلا کہہ کربھی ہر بھارتی حکو مت کے اقتدار کا پارٹنر بن سکتا ہے اور لیڈر بھی وہ کہ جس پر اپنے ملک میں 100سے زیادہ مقدمے،جس کیخلاف برطانیہ میں قتل،منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اکاؤنٹس کی تفتیش ہوتی ہورہی ہو،اور وہ بھی اُس برطانیہ میں کہ جہاں قانون اتنا بے رحم کہ اگر کوئی ماں اپنے سگے بیٹے کو تھپڑ ماردے تو بیٹا ماں کو اندر کرواسکے اور جہاں بال کی کھال یوں اتاری جائے کہ ابھی چند دن پہلے برطانوی پولیس نے 3مسلم بہن بھائیوں کو صرف اس لئے جہاز سے اتروا لیا کہ انہوں نے موبائل میسجز میں داعش کی تعریف کی تھی، لیکن میں اس لئے جل کڑھ نہیں رہا کہ یہ سب ہونے کے بعد بھی بچانے والے الطاف حسین کو بچائے بیٹھے،میں تو اس لئے جل کڑھ رہا کہ سب کچھ کر کے بھی 30سالوں سے ایم کیو ایم اور الطاف حسین پاکستان میں راج کرتے ہوئے، لیکن وہ راج کیوں نہ کریں،پتا ہے دہلی میں پاکستان مخالف تقریر کے بعد ہماری حکومت کا ردِّ عمل کیا تھا، ردِّعمل یہ تھا کہ مشرف حکومت بھارت میں اپنے ہائی کمشنر عزیز احمد کو ہدایت کرے کہ وہ الطاف حسین کے اعزاز میں عشائیہ دیں اورمزے کی بات یہ کہ بڑے عزت واحترام سے الطاف حسین کو عشائیہ دیا بھی گیا، مگر اکیلی مشرف حکومت کا کیا قصور،الطاف حسین کے حوالے سے تو ہماری ہر حکومت ہی بڑی مہربان اور فیاض نکلی،یقین جانیے اگر 11جون 1978کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بننے کے بعد کراچی یونیورسٹی میں بیسیوں پرتشدد واقعات پر ایکشن لے لیا جاتا، اگر 1979میں پرچم جلانے پر کچھ کرلیا جاتا،اگر 1984میں شہرِ قائد میں لسانی فسادات کے کرداروں کو انجام تک پہنچا دیا جاتا،اگر 92ء میں آپریشن کرنے والوں کو چن چن کر مارنے والوں کو کیفر ِکردار تک پہنچا لیا ہوتا،اگر 15ہزار سیاسی کارکنوں اور 2ہزار پولیس افسروں کے قاتلوں کو ڈھونڈ کر لٹکا دیا جاتا، اگر جماعت اسلامی کا زور توڑنے کیلئے بنائی گئی ایم کیو ایم کی ہرجائز ناجائز نہ مانی جاتی،اگر اپنے مفادات کیلئے پی پی اور لیگی لیڈر شپ آئے روز نائن زیرو پر ماتھا نہ ٹیکتی اور اگر جناح پور والے مسئلے کو ہی Endتک پہنچا دیا جاتا،مطلب کسی موقع پرہی کچھ ہو جاتا تو 28ستمبر 2014کو الطاف حسین کبھی گالیاں نہ دے پاتے، 14جولائی 2015کووہ یہ نہ کہہ سکتے کہ ’’ سب یاد رکھیں کہ 92میں ہمیں مارنے والے کیسے مرے ‘‘، یکم جون 2016کو وہ ’’را ‘‘ سے مدد نہ مانگ سکتے، 12جولائی 2016کو وہ پاکستانیوں کو جانوروں سے تشبیہ نہ دے سکتے، 22اگست 2016کو انہیں پاکستان کو ناسور کہنے کی جرأت نہ ہوتی،وہ امریکہ،اسرائیل اور بھارت سے مددمانگنے اور پاکستان کے خلاف نعرے مارنے کی ہمت نہ کر پاتے، یہاں ایک اہم بات اور بھی کہ اکثر کہا جائے کہ ایم کیو ایم عوامی خدمتیں کرتی اور’’ اسٹیٹس کو ‘‘ توڑنے والی جماعت، ایسا کہنے والوں سے یہی کہنا کہ لمحہ بھر کیلئے صرف اُس کراچی کو دیکھ لیں کہ جہاں ایم کیو ایم گزشتہ 3دہائیوں سے سیاہ وسفید کی مالک،کیا قتل وغارت، گینگ وارز، نوگو ایریاز، اغوا، بھتے، دھماکے، ناکے، فاقے، ٹوٹی سڑکیں اور ابلتے گٹر عوامی خدمت ہے، کیا ایسے ہی ’’اسٹیٹس کو‘‘ توڑا جاتا ہے، یقین جانیے آج کے کراچی سے تو تیس35سال پہلے کا کراچی کہیں بہتر تھا، باقی رہ گئے کراچی کے عوام تو ان کی حالت تو نہ بدلی ہاں البتہ حالت بدلی تو پارٹی دفتر میں جھاڑو دینے والے اس شخص کی کہ جس کی جائیدادیں اب ہیوسٹن تک، حالت بدلی تو اس کلرک کی جواب چارٹرڈ فلائٹوں پر اور حالت بدلی تو ہوٹل کے اس ویٹر کی جو ارب پتی ہوگیا، مگر بات پھر وہی کہ اگر ہماری لیڈر شپ ملکی مفاد پر ذاتی مفاد قربان کردیتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی،کیونکہ یہ لیڈر شپ ہی جو ملک وقوم کی قسمت سنوار یا بگاڑ دے، آپ سری لنکا کی مثال لے لیں، جب تامل ٹائیگرز شہریوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں سپاہی اور فوجی مارچکے،جب سنہالی قبیلے کے گاؤں کے گاؤں تہ تیغ ہوگئے،جب عورتیں، بچے اور بوڑھے تک بھی محفوظ نہ رہے اور جب آدھے سری لنکا پر تامل ٹائیگرز کا قبضہ ہو گیا تو پھر بکھری سری لنکن قیادت کو ہوش آیا، وہ ہر اختلاف بھلا کر ایک چھت تلے اکٹھی ہوئی، ملکر لڑنے اور ملک بچانے کا فیصلہ ہوا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چند ماہ میں ہی تامل ٹائیگررہنما پر بھاکرن کو بیوی بچوں سمیت مار کر دہشت گردوں کا صفایا کر دیاگیا، آپ لائبیریا کی بات کر لیں، افریقہ کا وہ چھوٹا سا ملک کہ جس کے ہیرے کی کانیں ہی جب اس کے گلے کا پھندہ بن گئیں تو گروہوں میں بٹے لائبیریا کے لیڈروں نے اکٹھے ہو کر پہلے اقوام متحدہ کے ذریعے ملک کو اسلحے سے پاک کیا پھر عالمی لٹیروں کو ملک سے بھگایا اور آخر میں گروہ بندیاں ختم کرکے ملک کو ترقی کی ایسی راہ پر ڈالا کہ آج لائبیریا امیر افریقی ملکوں میں، آپ مفاداتی گروہوں،خونی فسادات اور دہشت گردی میں گھرے کینیا کی بات کر لیں، یہاں عوام اور پرخلوص لیڈر شپ نے دیکھتے ہی دیکھتے کینیا کو پرامن اور مضبوط معیشت والا ملک بنادیا، اسی طرح چین، جاپان، کوریا، ترکی اور ملائشیا سب کے سامنے کہ جنہیں پرخلوص لیڈر شپ نے کہاں سے کہاں پہنچادیا،مگر کیا فائدہ وہاں یہ سب بتانے کا کہ جہاں لیڈر شپ کا وژن یہ کہ 50ہزار ہم وطن مروا کر بھی وہ اچھے اور بُر ے طالبان کی بحث سے نہ نکل سکی،جس کی گورننس ایسی کہ سی پیک اور گوادر فوج کے حوالے، خارجہ اور داخلہ پالیسیاں فوج کی مرہونِ منت، جو 18سال سے اس لئے مردم شماری نہ کروا سکی کہ فوج کے پاس وقت نہیں، جس کا لا اینڈ آرڈر ایسا کہ جب تک عام چور اور رسہ گیر چھوٹو گینگ کا روپ نہ دھار ے تب تک قانون ٹس سے مس نہ ہو اور اگر قانون ٹس سے مس ہوجائے تو پھر بھی خیبر سے کراچی تک ہر چھوٹوسے فوج کو ہی نبٹنا پڑے،باقی رہ گئی اپنی قوم تو جو قوم یہ سمجھ لے کہ اب واقعی الطاف حسین کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں اور اب سب فیصلے ’’فاروق ستار اینڈکمپنی‘‘ ہی کرے گی، اس بھولی قوم سے کہنا یہی کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے پر متحد ہونے اور الطاف حسین کی تقریر کیخلاف ایکا کرنے کے بعدجب اگلی بار وہ اکٹھی ہوتو ذرا ایڈوانس میں بتادے تاکہ ہم جیسے بھی اس ’’تاریخی ایکے‘‘ کا نظارہ کر سکیں ۔


.
تازہ ترین