• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
راجہ پرویز اشرف :’’عوام پیپلزپارٹی کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ کہ کہیں یہ پھر سے تو نہیں آ رہی اور سب نے اپنی جیبوں پر ہاتھ رکھ لئے ہیں۔ ایک سابقہ کرپشن زدہ وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے لیڈر گزشتہ کچھ روز سے یہ یقین کرچکے ہیں کہ لوگ بھول گئے ہیں، اب ’’کھڈ‘‘ سے نکل کر رنگ لگا کر اپنا نام شہیدوں میں لکھوا لینا چاہئے۔ مگر عوام کو جملہ اقسام کے حکمرانوں نے ایسے ’’بادام‘‘  چبوائے ہیں کہ ان کا حافظہ بحال ہو گیاہے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عوام اگر کسی کو بھی ووٹ کے قابل نہ سمجھیں تو سرے سے ووٹ ہی کاسٹ نہ کریں۔ شاید اس طرح کسی حقیقی عوامی نجات دہندہ کی آمد تک وقت زیادہ اچھی طرح کٹے۔ جمہوریت، مذہب، عوامی خدمت کی آڑ میں اپنی تجوریاں بھرنے والوں کا صفایا ہونا جمہوریت کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس ملک میں پولیو زدہ سسٹم کاخاتمہ جب تک نہیں ہوتا اور غریب نواز نظام نہیں آتا کوئی خیر کی خبر نہیں آسکتی۔ اگر کبھی لوگ ذرا ساغور کرکے دیکھیں تو ملک طالع آزمائوں کے پنجے میں ہے، حکومتیں رسمی ہیں، پروٹوکولی ہیں اور یہ ایک دوسرے کےمخالف دراصل ایک ہیں۔ غریب عوام کو کوئی اہل دیانتدار غریب لیڈر ہی یہ ظلم و محرومی کا دریا پارکرائے گا۔ اس کے سوا اور کوئی حل نہیں۔ اس لئے ملک کے کروڑوں غریبو! اب اپنے وجود کا مزید استحصال مت ہونے دینا۔ یہاں قسمت آزما لیڈرز اپنی قسمت کی دکان چمکاتے رہیں گے، آنکھیں دکھاتے رہیںگے، بہانے بناتے رہیں گے، آپ کے کام نہیں آتے رہیں گے اور یہ باور کراتے رہیں گے کہ آپ ان کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ ان کی یہ غلط فہمی دور کرنا آپ کا کام ہے۔ برا نہ منانا اپنی یہ بری حالت بنانے والے آپ ہم سب خود ہیں۔ یہ میڈیا سے تو ڈرتے ہیں خدا سے نہیں ڈرتے۔
٭٭٭٭٭
اعلانِ پنڈی اور عوامی سمندر
عمران خان : ’’3ستمبر لاہور میں عوامی سمندر ہوگا‘‘
طاہر القادری:’’راولپنڈی میں فیصلہ کن اعلان کریں گے۔‘‘ عوامی سمندر اور فیصلہ کن اعلان عوام کے پاکستان میں بقول لیڈران کئی سمندر ہیں۔ ایک سمندر کی سونامی ابھی تک یہاں نہیں پہنچی باقی سمندر حیران ہیں کہ ہم تو ایک سمندر ہیں ہمیں دھڑوں میں تقسیم کرنا غیرفطری ہے۔ خان صاحب اور قادری صاحب کے کنٹینر سے تھوڑی تھوڑی دیر بعد آواز بلند ہوتی ہے کہ ہم موجود ہیں کیونکہ عوام موجود ہیں الغرض عوام کے سمندر پر سیاسی کشتیاں مچھلیاں پکڑ رہی ہیں مگر ان کے جال تا حال خالی ہیں۔ اس ملک میں عوام کا نام جتنا استعمال ہوتا ہے اتنا لُون مرچ ادرک استعمال نہیں ہوتا۔ جیسے بھکاری اللہ کے نام پر بھیک مانگتا ہے اسی طرح سیاستدان حکمران عوام کے نام پر اقتدار مانگتے ہیں۔ لیکن اب عوام کو بھی اتنی سمجھ آگئی ہے کہ یہ گداگر انڈسٹری ہے۔ اس لئے وہ پیشہ ور بھکاریوں کو یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں اللہ بہت دے، یعنی ہم اب مزید کچھ نہیں دے سکتے۔ عمران خان قادری کنٹینر جب سے ناکام ہوا ہے دونوں نےاپنی اپنی صدا بدل لی ہے۔ لاہور کاسمندر اور پنڈی کااعلان صرف اپنے لوگوں کو طفل تسلی کا سامان ہے کہ کہیں اپنے نام لیوا بھی کسی اور کی بیعت نہ کرلیں۔ حکمران کے چاروں گھی اور سر کڑاہی میں ہے کہ عوام اب کسی کا اعتبار ہی نہیں کرتے۔ خان صاحب کی کوشش ہے کہ کسی طرح عوام حکومت سے خلع لے لیں۔ مگر لگتا ہے 2018 میں خودبخود طلاق مغلظہ واقع ہو جائے گی۔ خدا کی شان دیکھیں کہ 70 سالہ عوامی خدمت کے دعوئوں کے باوجود عوام جہاں تھے اس سے بہت نیچے آگئے ہیں۔البتہ سیاسی قوال اور ہمنوائوں نے خوب ترقی کی۔ اپنے اثاثے کئی گنا بڑھا لئے۔ اب اگروہ سیاست سے آئوٹ بھی کردیئے جائیں تو ان کوکوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جونہی عوام کی حالت بہتر ہونا شروع ہوگی تو سمجھ لینا کہ کوئی عوام کا سچا خیرخواہ آگیا ہے۔
٭٭٭٭٭
انا پرستی یا خدا پرستی!
اگر خداپرستی ہوتی تو اناپرستی نہ ہوتی۔ ہم مجموعی طورپر کسی نہ کسی انداز میں اپنی ذات کی پرستش میں جُتے ہوئے ہیں۔ ذات  ِباری تعالیٰ کے ساتھ اکثریت کا تعلق ریاکاری کا ہے۔ خداپرستی، غربت، محرومی، عدم مساوات، جبر، ناانصافی باقی نہیں رہنے دیتی جبکہ ہمارے معاشرے میں ان تمام برائیوں کی کثرت ہی نہیں حکمرانی بھی ہے۔ ہم غریب ہیں یا امیر اپنی انا کے بت کے پجاری ہیں۔ اس لئے کوئی بھی شر کو دفع کرنے پر آمادہ نہیں، اسے ہوا دیتاہے۔ اگر دو لڑ رہے ہیں تو کوئی ایک بھی صبر کرنے، خاموشی اختیار کرنے کےلئے راضی نہیں۔ یہ جو ہماری ’’میں‘‘ ہے یہ فقط بکری ہے جو میں میں کرکے ہمیں چھری تلے دے سکتی ہے، ہمارا بھلا نہیںکرسکتی۔ ہم یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ فرعون نے اپنی انا کو مسلط کر رکھا تھا اور وہ نیل کے پانیوں میں ڈوب گیا۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم بھی تو من حیث القوم اپنی انا کا ڈنکا بجاتےہیں اور اس کے باوجود خود کو فرعون تسلیم نہیں کرتے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ فیشن کے طور پر لوگ جب سب کچھ پالیتے ہیں تو عاجزی میں اک گو نہ لذت محسوس کرتے ہیں۔ اگر محل میں رہتےہیں تو اس کے ماتھے پر جھونپڑی لکھ دیتے ہیں اور اپنے امیر خانے کو غریب خانہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ ’’اپنے رب کی نعمت کو بیان کرو‘‘ پھر یہ کہ صبر اور شکر دو لفظ ہیں مگریہ عبادت کی روح ہیں۔ ان کے اختیار نہ کرنے سے عبادت اکارت جاسکتی ہے۔ خوشی کا تعلق جھونپڑے اور محل سے نہیں، اس کی مرضی ہے دونوں میں سے کہاں بسیرا کرے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ایک آفاقی مساوات قائم رہتی ہے۔ ہر انسان کبھی غمز دہ کبھی خوش ہو تاہے قطع نظر کہ وہ امیر ہے یا غریب، انا کا بت توڑ دیں یہی توحید ہے۔
٭٭٭٭٭
سڑکوں پر آنے کا جنون
O۔ بلاول بھٹو: ڈاکٹر عاصم سیاسی قیدی ہیں۔
وہ عوامی قیدی ہیں۔
O۔ شیخ رشید:عمران قادری مشترکہ تحریک پر متفق۔
ہمارے ہاں اتفاق کی بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھی۔
O۔ مولا بخش چانڈیو:اپوزیشن متحد تھی عمران نے جلدی کی۔
اپوزیشن متحد ہوتی تو عمران خان جلدی کیوںکرتے۔
O۔ ڈونلڈ ٹرمپ:تارکین وطن کی مراعات روکیں گے۔
اپنا ہی قافیہ تنگ کریں گے۔
O۔ اسفندریار ولی:مرتے دم تک افغانی رہوں گا، پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی برداشت نہیں۔
گویا آپ نے خود کو مہاجر تسلیم کرلیا۔
O۔ ن لیگ: درختوں کی کٹائی سے روزانہ 5کروڑ کی کرپشن، عمران خان جواب دیں۔
ن لیگ جواب دے بجلی چوری سے روزانہ کتنے کروڑ کی کرپشن ہوتی ہے؟
O۔ خورشید شاہ:ستمبر میں سڑکوں پر آئیں گے جلسے جلوس کریں گے۔
پہلے آپس میں مشورہ کرلیں کیونکہ ملک میں اتنی سڑکیں نہیں جتنے جلسے جلوس۔


.
تازہ ترین