• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگست کا مہینہ پاکستان کی دھرتی پر محبتوں کے پیمان لے کر نمودار ہوتا ہے۔ وہ پیمان جو 14اگست کو ہمارے بزرگوں نے باندھا اور نئی نسل کو گڑھتی کے ساتھ منتقل کیا یوں یہ پیمان ہماری میراث ہے۔ قومیت کا اندراج صرف شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ ماتھے پر مقدر کے ستارے کی طرح چمکتی ہے، آنکھوں میں عزم بن کر ابھرتی ہے اور شخصیت پر اعتماد کے تمغے کی طرح سجی دکھائی دیتی ہے۔ غلامی کی زندگی گزارنے والے مادی حوالے سے کتنے ہی آسودہ کیوں نہ ہوں آزاد قومیت کے اعزاز سے محرومی ان کے وقار کو حسرت کی زنجیروں میں جکڑ کر حیات کی چال میں مایوسی بھر دیتی ہے۔ سو آزادی خوش قسمتی ہے، فخر ہے اور اعزاز ہے۔ آزاد شہری چاہے کسی کچے مکان میں رہتے ہوں مگر وہ پورے ملک کے وارث ہوتے ہیں۔ یہ وراثت اور اپنائیت وطن کی دھرتی سے جُڑ کر ایمان کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس طرح اگست ہماری قومی و سیاسی تاریخ میں ایک سردار مہینہ ہے جس نے قوموں کی زندگی میں ہماری منفرد پہچان کا حامل پرچم ہمیں دیا۔ وہ پرچم جو ہماری شناخت ہے اور جس کا احترام ہمارے دلوں میں جاگزیں ہے۔ ہماری آزادی کی اس رُت کو خوشگوار بنانے میں موسم بھی پورا پورا ساتھ دیتا ہے۔ بادل جھومتے ہیں، گھٹائیں لہراتی ہیں، بارش پیاسی زمین کو سیراب کرتی ماحول کو خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ نئی زندگی کے امکانات کو ممکن بناتی ہے۔ اس سال اگست کے مہینے میں پاکستان سمیت پوری دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں پاکستانی آباد ہیں بڑے جوش و جذبے اور فخر و انبساط سے جشن آزادی منایا گیا۔ ملک میں ہونے والی معاشی ترقی اور ضربِ عضب کے سبب امن و امان کی بہتر ہوتی فضا نے پاکستانیوں کو دوبارہ نئے خواب بُننے والی شاہراہ پر گامزن کر دیا ہے۔
بارسلونا اسپین کا خوبصورت شہر ہے جسے دیگر قدرتی خوبصورتیوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی وسعت بھی نصیب ہے۔ اگست کے مہینے میں بارسلونا شہر میں چیئرمین پاکستان اوورسیز الائنس فورم یورپ چوہدری سلیم لنگڑیال نے ایک بہت بڑے پارک میں عظیم اجتماع کا انعقاد کیا جس میں بارسلونا میں پاکستان کے کونسل جنرل مراد اشرف جنجوعہ، سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ سمیت بہت سی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ سب سے حیرت کی بات یہ تھی کہ اسپین کے مختلف حکومتی عہدے داروں، سماجی و سیاسی شخصیات اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے پاکستان کی موجودہ صورت حال میں اس سے یکجہتی کے اظہار کے ساتھ پاکستان کی ترقی کے لئے دعا کی اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے۔ تقریب میں دونوں ملکوں کے ترانے پیش کئے گئے اور آزادی کی تحریک کو خراجِ تحسین پیش کرنے اور آزادی کی نعمت کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے کبوتروں کو آزاد کرنے کا خوبصورت منظر بھی پیش کیا گیا۔ میرے لئے یہ بڑا حیران کن مرحلہ تھا اور بہت سحر انگیز بھی کیوں کہ کبوتروں سے اب تک میری معلومات کی جُڑت رومانوی حوالے سے ہی تھی۔ کبھی وہ پیام بر تھے اور کبھی ان کا تذکرہ مغل دربار کی ملکہ کی معصوم خواہش سے جُڑا ہوا تھا۔ رنگا رنگ پروگراموں پر مشتمل اس پروگرام میں مراد اشرف جنجوعہ کی تقریر فوک ادب، صوفی ازم اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تناظر میں معاشرتی زندگی کے تذکرے سے معمور تھی جو کبھی ہم سب کے رویوں میں جھلکتی تھی۔ لطیف کھوسہ صاحب نے کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر عالمی امن کے داعیوں کی توجہ مبذول کرائی اور صوفیوں کی تعلیمات کے حوالے سے اسلام کو دنیا کا امن پسند مذہب قرار دیا۔ چوہدری عبد الغفار مرہانہ نے پالیسی سازوں سے اوورسیز کے معاملات کے حوالے سے خوب شکوے کئے۔ خوشی کی بات یہ بھی تھی کہ ان تقاریب کے علاوہ بڑے بڑے میدانوں میں ہاکی اور کبڈی کے ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے نئی نسل کو کھیلوں سے وابستہ کرنے اور انہیں صحت مند مستقبل مہیا کرنے کے لئے کھیلوں سے ان کی جُڑت بہت ضروری ہے۔ ان کھیلوں میں حصہ لینے والوں اور جیتنے والوں کی چوہدری سلیم لنگڑیال جیسی ہستیوں نے بھرپور پذیرائی کی۔ جن دنوں ہم وہاں غیروں کی زبانی پاکستان زندہ باد کے نعرے سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے پاکستان کی فضا سوگوار تھی بلکہ حساس لوگوں کے دلوں میں صفِ ماتم بچھی تھی کیوں کہ پاکستان کے نام اور زمین سے جُڑت کی بناپر شہرت رکھنے والے ایک پاکستانی نے وطن کے خلاف بیان دے کر صحیح معنوں میں نہ صرف محب وطن لوگوں کے احساسات مجروح کئے بلکہ ملک میں ایک انتشار کو جنم دیا لیکن دنیا کو یہ بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ایک شخص پوری مہاجر قوم کا علمبردار نہیں۔ کراچی، سندھی، اور دیگر حصوں میں رہنے والے مہاجر نہ صرف وطن پرست ہیں بلکہ وطن کی ترقی کے بھی امین ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو ہم لفظ مہاجر کو حذف کر دیں اور 70سالوں کے بعد تمام پاکستانی اس وطن کے وارث کہلائیں۔ اُمید رکھنی چاہئے یہ فضا دوبارہ کبھی ہمارا مقدر نہ بنے۔ ہم آزادی کی حفاظت کو صحیح معنوں میں یقینی بنائیں۔ نعرے لگانے سے نہیں بلکہ عملی طور پر اس کی ترقی کے لئے اقدامات کرنے سے اصل حب الوطنی کا اظہار ہو گا۔ جاپان کے لوگ ہیروشیما کی بربادی پر کسی ملک کے خلاف نعرے نہیں لگاتے لیکن اپنی شب و روز کی محنت اور استقامت سے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں تمام سپر پاورز کے گھروں، دفاتر اور بازاروں میں ان کی مصنوعات کی رسائی ہے۔ یہ بھی وطن پرستی کی ایک تدبیر اور ترکیب ہے۔ آئیے ہم بھی عہد کریں کہ جس ملک سے محبت کا ہمیں دعویٰ ہے اس کے لئے ہر فرد اپنی سطح پر پوری دیانت داری سے اپنے فرائض سرانجام دے گا۔ ہم دوسروں سے حساب لینے کی بجائے خود کو مثال بنا کر پیش کرنے کی روایت ڈالنے کی سمت پیش رفت کریں گے۔ ترقی کا یہی ایک اصول ہے جو عمل سے وابستہ ہے۔ زبانی تقاریر اور الزام تراشی کسی مسئلے کا حل نہیں۔ آئیے اپنی ذمہ داری کا احساس کریںجہاں اور جس جگہ ہیں وہاں سے وطن کی ترقی کے لئے نئے امکانات تلاش کریں اور محبت کا عملی ثبوت دیں۔ وطن کی محبت میں لکھے کچھ اشعار آپ کی نذر:
اک خواب عرب میں دیکھا گیا، تعبیر ہوئی
یہ دھرتی اسمِ محمدﷺ کی تصویر ہوئی
اُمید کئی نسلوں کی آنکھوں سے ہو کر
اس دِل میں اتری اور میری جاگیر ہوئی
پھر دھڑکن دھڑکن ہونے لگا اک جشن بپا
پھر میری وفا کی دنیا میں تشہیر ہوئی
پھر میرے جنوں کی دنیا میں تشہیر ہوئی
پھر کالی رات کے آنگن میں اک شمع جلی
اور عزمِ نَو سے لرزاں ہر زنجیر ہوئی
بہنوں کے آنسو اور جوانوں کے خوں سے
اے پاک وطن ایسے تری تطہیر ہوئی
ہم پرچم پرچم لہرائے اس دھرتی پر
ہم قوم بنے اور آزادی تقدیر ہوئی
اک پاکستان بنایا ہم نے نقشے پر
اک پاکستان کی دِل میں بھی تعمیر ہوئی
اک بارش برسی رحمت کی سب پاک ہوا
تب صغرا صدفؔ پر آزادی تحریر ہوئی


.
تازہ ترین