• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کمیٹی نے قانون نافذ کرنیوالوں کی وضاحت پھر مسترد کر دی

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) سینٹ فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کے اجلاس میں بتایا  گیا ہے کہ گزشتہ 2 سال  میں بلوچستان میں 1040 افراد قتل ہوئے ،مقتولین کے ورثاء  ایف آئی آر درج نہیں کراتے جبکہ تحقیقات  کے دوران سکیورٹی اداروں کے ان وارداتوں میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے ، بدھ کے روز  نسرین جلیل کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی جانیوالی رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ یہ اعدا دوشمار ان علاقوں سے متعلقہ ہیں جہاں پولیس کی عمل داری ہے،بی ایریا کے اعداد وشمار صوبائی حکومت کے ذریعے امن و امان کے ذمہ دار دیگر اداروں سے لئے جا سکتے ہیں،جس پر چیئر پرسن نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں ایف سی کے زیر کنٹرول بی ایریا اوربلوچستان  سے ملنے والی مسخ شدہ لاشوں سے متعلق بھی بریفنگ دی جائے، اجلا س میں آگاہ کیا گیا کہ سانحہ کوئٹہ میں  6 سے 8 کلو دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا ،خود کش بمبار کے چہرے کی جلد ،ٹانگیں اور بازو کے علاوہ کچھ اعضاء مل گئے ہیں،تاہم چہرہ نا قا بل شناخت ہے،اس حوالہ سے نادرا حکام سے بھی رابطے میں ہیں، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے لی گئی تصاویر اور پاکستان بار کونسل کی طرف سے فراہم کئے گئے خاکے کے ذریعے  حملہ آور کی شناخت ممکن ہو جائیگی،چیئر پرسن  نے جلاس میں رینجرز حکام کی طرف سے و زارت داخلہ کو لکھے گئے خط، جس میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے اجلاس میںشرکت سے معذرت کی گئی تھی اور اجلاس میں 6 ہزار افراد کی گرفتاری ، پوچھ گچھ کے بعد رہائی اور آفتاب احمد کی دوران حراست فوت ہونے کے ایجنڈے کو نومبر تک موخر کرنے کا  کی استدعا کی گئی تھی ،جس پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر آج کے اجلاس میں امن و امان کے باعث رینجرز کا عذر مان لیا گیا تو آئندہ کہیں سے بھی کوئی کمیٹی اجلاس میں نہیں آئیگا،گزشتہ ماہ رینجرز نے انسانی حقوق کی جعلی تنظیم کی طرف سے اپنی کارکردگی سراہنے کی رپورٹ جاری کی ہے،میں نے نیپال اور ہندوستان میںموجود عالمی انسانی حقوق کمیٹی کے نمائندوں سے بات کی جنہوں نے تنظیم سے لا تعلقی کا اظہا رکیا ہے ،رینجرز فوج کا حصہ ہے،بیرونی تنظیم کی وجہ سے قائم ہونے والے منفی تاثر کو ختم کرنے کیلئے رینجرزحکام کمیٹی میںحقیقت بیان کریں، اجلاس میں رینجرز کی عدم حاضری پروزیر داخلہ کو خط لکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا،سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ لوگ ریاستی اداروں سے متنفر ہو رہے ہیں اور اتنا لا تعلق ہو چکے ہیں کہ اپنے قتل ہونیو الے رشتہ دار وںکے بارے میں ایف آئی آر بھی درج نہیںکراتے ہیں ، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا پولیس پر کوئی ادارہ دبائو ڈالتا ہے؟کیا ملا اختر منصور بھی پیش کئے گئے اعداد وشمار میں ہلاک ہونیوالے افراد میں شامل ہیں ، جس پر انہیں آگاہ کیا گیا کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت پولیس ایریا میں نہیںہوئی ہے ،بلوچستان پولیس کے پاس ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت موجود نہیں  ہے ،سپریم کورٹ کے حکم پر سانحہ کوئٹہ پر جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے،سینٹر نثار محمد نے کہا کہ رینجرز کی کارکردگی بلا شبہ اچھی ہے جس کی وجہ سے کراچی میں روزانہ 40 قتل کی جگ اب قتل کے اکا دکا واقعات ہوتے ہیں،تاہم رینجرز کو کمیٹی اجلاس میں شریک ہو کر اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا جا نا چاہئے،سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ رینجرز کو کمیٹی اجلاس میں شریک ہونا چاہئے تھا، اعلی افسران کی مصروفیت پر کسی ذمہ دار آفیسر کو بھجوا دیا جاتا۔
تازہ ترین