• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کا ریفرنس طے کریگا الطاف حسین اور ایم آئی سکس میں تعلق ہے یا نہیں

اسلام آباد (انصار عباسی) برطانوی حکومت کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کیخلاف بھیجا جانے والا ریفرنس حکومتِ پاکستان کی جانب سے دائر کیا جانے والا تیسرا ریفرنس ہے لیکن اپنے لحاظ سے یہ درخواست اہمیت کی حامل ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ قتل اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث شخص واقعی ایم آئی سکس کا مہمان ہے یا نہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانوی حکام نے اب تک پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے گزشتہ دو ریفرنسز کا حوصلہ افزا جواب نہیں دیا جس میں پاکستان میں پرتشدد واقعات پر اکسانے کیلئے الطاف حسین کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کئی ماہ گزر جانے کے باوجود، پاکستان کو بتایا گیا ہے کہ حکام معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ کئی سال لندن سے بیٹھ کر الطاف حسین کھل کر نفرت انگیز خطبات کر رہے ہیں اور کراچی میں تشدد کیلئے اکسا رہے ہیں لیکن پاکستانیوں، برطانوی پاکستانیوں کے کئی مظاہروں حتیٰ کہ حکومتِ پاکستان کی درخواستوں کے باوجود، برطانوی حکام نے ایم کیو ایم کے بانی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ حکومت کے کچھ لوگوں سمیت اکثریت کو دال میں کالا نظر آتا ہے اور انہیں شک ہوتا ہے کہ الطاف حسین ایم آئی سکس کا آدمی ہے لہٰذا انہیں پاکستان میں دہشت پھیلانے کیلئے کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ پاکستانی حکام کا اصرار ہے کہ تازہ ترین ریفرنس میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو برطانوی قوانین کے مطابق الطاف حسین کیخلاف تشدد کیلئے اکسانے کا مقدمہ مضبوط بناتی ہیں۔ پاکستان نے الطاف حسین کے خطاب کا متن اور وہ تمام متعلقہ مواد بھجوا دیا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ الطاف حسین پاکستان میں امن کو نقصان پہنچاتے اور تشدد کیلئے اکسایا جس سے ایک شخص ہلاک ہوا اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایم آئی سکس کی جانب سے الطاف حسین کی مدد کے الزامات نئے نہیں ہیں حتیٰ کہ برطانوی میڈیا بھی ایسا کہہ چکا ہے۔ سینئر برطانوی صحافی اووین بینیٹ جونز نے 2013ء میں گارجین اخبار میں لکھا تھا کہ الطاف حسین لندن میں آرام سے قیام پذیر ہیں حالانکہ ان کی جماعت کراچی میں پرتشدد کارروائیوں میں مصروف ہے اس کی وجہ ایم آئی سکس اور مغربی خفیہ ایجنسیوں کی حمایت ہے۔ ایم کیو ایم میں برطانیہ کے مفاد کی وجہ اور تاثر اس بات میں پایا جاتا ہے کہ یہ جماعت جہادیوں کیخلاف ایک بچائو کے طور پر کام کرتی ہے۔ لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ کچھ موجود ہے۔ کراچی دنیا کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جسے امریکا نے برطانیہ کی نگرانی میں رکھا ہوا ہے۔ شہر میں موجود امریکی سفارت خانہ سرگرمی کے ساتھ انٹیلی جنس آپریشنز نہیں کرتا لیکن یہ کام برطانوی کرتے ہیں۔ جب بھی بین الاقوامی سیکورٹی سیاست پر کوئی اہم مذاکرات ہوتے ہیں تو لندن کے ایم کیو ایم کے ساتھ تعلقات نظر آتے ہیں۔ عمران فاروق کے قتل کے مرکزی ملزم خالد شمیم کے حوالے سے حال ہی میں بتایا گیا تھا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ الطاف حسین، محمد انور اور ان کے ساتھیوں کو ایم آئی سکس، را اور سی آئی اے کی حمایت حاصل ہے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے این ڈی ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ایم آئی سکس اور الطاف حسین کے درمیان تعلق کی تصدیق کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ الطاف حسین برطانیہ میں ایم آئی سکس کے مہمان ہیں اور ان کے متعلق تمام سوالوں کا جواب ایم آئی سکس کو دینا چاہئے۔ 2001ء میں مبینہ طور پر الطاف حسین نے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو خط لکھا تھا جس مٰں انہوں نے آئی ایس آئی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ برطانیہ کو جاسوسی کی پیشکش بھی کی تھی۔ 23؍ ستمبر 2001ء کو لکھے گئے خط پر الطاف حسین کے دستخط تھے اور اسے جنوب مشرقی انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمنٹ کے رکن نے 10 ڈائوننگ اسٹریٹ تک پہنچایا تھا۔ اسی خط میں برطانوی حکومت کو ایم کیو ایم کی پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں مدد کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اور بدلے میں سندھ میں برابری کی بنیاد پر حکمرانی کے حصول اور آئی ایس آئی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ خط میں لکھا گیا تھا کہ آئی ایس آئی ختم نہ کی گئی تو یہ ادارہ مستقبل میں کئی اسامہ بن لادن اور طالبان پیدا کر سکتا ہے۔ خط میں معاہدے کی صورت میں ایم کیو ایم کی طرف سے پانچ دن کے نوٹس پر بین الاقوامی برادری کے حق میں دہشت گردی کیخلاف کراچی میں مظا ہرو ں کے انعقاد اور ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی پیشکش کی گئی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی پیشکش کی گئی تھی کہ پارٹی سندھ کے دیہات اور شہروں اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں لا تعد اد وسائل فراہم کر سکتی ہے اور دہشت گردوں، بنیاد پرستوں اور طالبان کی زیر قیادت تنظیموں اور مدرسوں کی نگرانی کر سکتی ہے۔ برطانیہ کو یہ بھی پیشکش کی گئی تھی کہ منتخب گروپس کو امدادی کارکنوں کی شکل میں افغانستان بھیج کر مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جاسوسی سرگرمیوں کو بڑھانے میں مدد کی جا سکتی ہے۔
تازہ ترین