• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
18اکتوبر 2007 کے دن ساحل سمندر کے قریب واقع پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی انسانوں کے سمندر کا سماں پیش کر رہا تھا۔ پاکستان کے طول وعرض سے آئے عوام جوش و ولولہ سے بھر پور تھے۔ ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ لوگ عشق و جنون سے سر شار ،سر بازار رقصاں تھے۔ ان لوگوں کا پس منظر یقینا مختلف تھا۔ لیکن ان کا جذبہ ایک سا تھا۔ اور ان کی آنکھوں میں امید کی چمک یکساں تھی اور یک زبان ایک نعرہ لگاتے تھے کہ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘
بھٹو ز اور عوام کے درمیان عشق کا رشتہ اور امید کا یہ تعلق دیرینہ ہے۔جب پاکستان کے جمہور کیلئے سیاست شجرئہ ممنوعہ تھا اور انہیں اپنے حقوق کا ادراک نہ تھا اور نہ ہی ان کے اظہار کا ڈھنگ تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ان بے زبانوں کی آواز بنا اور ان کے حقوق کا ترجمان لہٰذا ان محروم طبقات کو عزت دی ذلت جن کا مقدر قراردے دیا گیا تھا۔ یہیں سے اس رشتہ کا آغاز ہوا اور بھٹو صاحب نے یہ رشتہ یوں جوڑا ’’بھٹو ایک نہیں دو ہیںایک اس جسم ،اس روح، اس بت میں کھڑا ہے۔ دوسرا تم ، میں سے ہر ایک بھٹو ہے‘‘ وہ دن اور آج کا دن اس نظریہ سے وابستہ ہر فرد اس نسبت کے تحت اعلان کرتا ہے کہ ’’میں بھٹو ہوں‘‘انہیں مظلوم طبقات کیلئے بھٹو صاحب جدو جہد کرتے رہے اور انہیں اُن کے حقوق دلواتے رہے ۔ اسی جرم کی پاداش میں وہ سرِ دار جا پہنچے۔ مگر عوام کے ساتھ بھٹو کا تعلق نہ توڑا جا سکاکیونکہ یہ تعلق روح کا تھا نہ کہ کوئی فانی تعلق۔ بھٹو شہید نے اپنی سب سے اہم میراث اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کے سپرد کرتے ہوئے کہا ’’میری پیاری بیٹی صرف عوام پر بھروسہ کرو ، ان کی بھلائی اور مساوات کیلئے کام کرو۔ خُدا کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے ۔ آج میں تمہارے ہاتھ میں عوام کا ہاتھ دیتا ہوں‘‘
بی بی نے اس رشتے کو مزید مضبوط کیا اور اپنی ساری زندگی اس عہد کی تکمیل کیلئے وقف کر دی۔ قید و بند کی صعوبتیں ، آمرانہ حکومتوں کے ظالمانہ ہتھکنڈے باپ اور بھائیوں کی شہادتیں ، شوہر کی جوانی کے 12سال قید ماں کی بیماری اور بچوں کی محرومیاں بھی بی بی کو ان کے مقصد سے ہٹا نہ سکے ۔ جنرل مشرف آٹھ سال سے اقتدار پر قابض تھا کوئی سیاسی قوت اس کے سامنے ٹھہر نہ سکی ایم۔ ایم ۔ اے نے 17ویں آئینی ترمیم میں جنرل مشرف کی حمایت کی تاکہ وہ وردی اتار دے۔ لیکن وہ ناکام رہے ۔ محترمہ نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعے اور ان کے تھنک ٹینکس کو اس بات پر قائل کیا کہ پاکستان کا مقدر جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہوریت کے بغیر امن نا ممکن ہے لہٰذا محترمہ نے اپنی حکمت اور تدبر سے جنرل مشرف کو ریٹائرڈ جنرل مشرف بنا کر ملک میں از سرِ نو جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ اور آج کے بہت سے نام نہاد سیاستدانوں کو سیاست کے مواقع حاصل ہوئے۔ محترمہ نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو غیر جمہوری قوتوں اور دہشت گرد انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ مگر بی بی کا فیصلہ اٹل تھا۔
بی بی نے تمام خدشات کے باوجود عوام کے درمیان آنے کا فیصلہ کیا اپنی آخری کتا ب Reconciliation میں وہ لکھتی ہیں ’’میں آمروں اور انتہا پسندوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے جدو جہد میں اپنا مثبت کردار ادا کروں گی۔ یہی میری تقدیر ہے میں اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹوں گی بلکہ اسے ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔‘‘
بی بی کے واپسی کے اعلان نے آمرانہ قوتوں اور دہشت پسند عناصر پر لرزہ طاری کر دیا۔ وہ اور ان کے حواری بی بی کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کر نے لگے اور ڈیل کے الزامات لگانے لگے ۔حالانکہ جان بخشی کروا کر ملک سے بھاگنا ڈیل نہیں ہوتا ۔ مگر جمہور نے اس پروپیگنڈہ کو یکسر مسترد کر دیا کہ محروم عوام بھٹو ہی کو اپنا نجات دہندہ اور امید گردانتے تھے۔ پاکستان کے عوام اس منظر کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے جب بی بی نے اپنی سر زمین پر قدم رکھا بی بی اپنے جذبات کو یوں بیان کرتی ہیں’’آٹھ سال کی جلاوطنی کے بعد جیسے ہی میرے قدم اپنے وطن کی دھتی کو چھوتے ہیں میں اپنے آنسوئوں کو چھلکنے سے روک نہ پائی اور میرے ہاتھ یکا یک خُدا کے حضور دُعا اور شکر کیلئے بلند ہو گئے۔ میں اپنی دھرتی پر جذبات سے لبریز کھڑی ہوئی آخر کار میں اپنے گھر میں واپس آگئی ہوں ۔ میں جانتی ہوں کیوں اور مجھے کیا کرنا ہے۔ بہت پہلے میں یہ انتخاب کر چکی ہوں کہ عوام میرے لئے معتبر ہیں اور سب سے معتبر رہیں گے‘‘
بی بی لاکھوں لوگوں کے ساتھ مزارِ قائد کی طرف رواں دواں تھی ہر چہرہ خُوشی سے دمک رہا تھا کہ کہیں پائوں سے ننگے لوگ بھنگڑا ڈال رہے ،کہیں خستہ حال انسان جھومر کے ناچ میں مشغول تھے۔ کہیں پختون جوان اتن (خٹک رقص) میں محو تھے اور کہیں جیالے ’’ دلاں تیر بجاں چلے یہ دشمناں تے لگے‘‘ کی دُھن پر لیو ا رقص کا جما رہے تھے اور اپنی اُمید ’’ بے نظیر بھٹو ‘‘ کی آمد پر مست و رقصاں تھے۔ اور نعرہ زن تھے۔ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر بے نطیر ،بے نظیر‘‘ ایسی زنجیر جس نے ہر قومیت ، مذہب، مسلک اور علاقہ کے لوگوں کو ’’میں بھٹو ہوں ‘‘ کی لڑی میں پرو رکھا تھا ۔ محروم طبقات کو یقین تھا کہ ان کی قائد ان کے حقوق آزادی اظہارِ رائے اور معاشی انصاف کیلئے کی جانے والی جدو جہد کو پایہء تکمیل تک پہنچائے گی۔لاکھوں عوام اس جلوس میں شریک تھے اور کروڑوں لوگ ان مناظر کو ٹیلی وژن کے ذریعے دیکھ رہے تھے کہ یکا یک یہ جشن خون کی ہولی میں تبدیل ہو گیا اور پاکستان کی تاریخ کے بد ترین دھماکوں سے صفِ ماتم بچھ گئی ۔ اس بد ترین صورتِ حال میں جیالے اپنی قائد کے ٹرک کی طرف دوڑنے لگے کیونکہ انہیں اپنی جانون سے زیادہ اپنی قائد کی جان عزیز تھی۔ روزِ ازل سے فساد پر عمل پیرا لوگ ہمیشہ سے امن کے پیامبروں کے دشمن رہے ہیں۔ یہ جہل والے ہمیشہ اُجالے سے گھبراتے ہیں ۔ یہ مردہ ضمیر ہمیشہ زندگی کے در پے رہتے ہیں۔ کیونکہ نا اہل کبھی صاحبِ کردار سے مسابقت نہیں کر سکتا یہ گروہ ظلم کی راہ پر گامزن ہے۔
آدمی سے ڈرتے ہو؟ زندگی سے ڈرتے ہو؟ روشنی سے ڈرتے ہو؟
ہاں یہ فساد والے یہ اہلِ جہل یہ ظُلمت کے داعی ہمیشہ ہی سے خوفزدہ ہیں۔ ’’ڈرتے ہیں ایک نہتی لڑکی سے ‘‘ ان بزدل ظالموں نے امید کو نا امیدی میں بدلنے کی کوشش کی۔200کے قریب افراد شہید ہو گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ کئی شہداء کی شناخت نہ ہو سکی اور جب انہیں لاوارث قرار دیا جانے لگا تو ان کی وارث بی بی آگے بڑھی اور کہا یہ میرے بھائی ہیں یہ بھٹو کے بیٹے ہیں لہٰذا انہیں گڑھی خُدا بخش میں دفن کیا گیا۔ ان کی قبروں پر یہ کتبے لگائے گئے جن پر کنندہ تھا ’’میں بھٹو ہوں‘‘ بھٹو کسی ذات یا قبیلے کا نام نہیں رہا یہ ایک نظریہ اور فلسفے کا روپ دھار چکا ہے اسی لئے بہت سے لوگ بھٹو قبیلے سے ہوتے ہوئے بھی ’’بھٹو ‘‘ نہ بن سکے اور سلمان تاثیر ، شہباز بھٹی، ادریس طوطی، عثمان غنی، رزاق جھرنا، ایاز سموں، چانڈیو، منور سہروردی اور پرویز کھوکھر بھٹو کے نام پر امر ہو گئے۔ امیدوں کا وہ قافلہ جو مزارِ قائد کی طرف رواں دواں تھا وہ رک گیا ۔ ظُلمت کے نقیب27دسمبر کی شام کو تاریک رات میں بدل کر سوچ رہے تھے کہ اب اندھیرے ہی جمہور کا مقدر ٹھہریں گے۔ لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ نئے سورج کے ساتھ اُبھرے گا آسمان قبر میں اُتارا ہوا7سال کے بعد آج پھر عوام انہیں امیدوں کے نئے سورج کے طلوع ہونے کے منتظر ہیں۔ وراثت کی سیاست پر تنقید کرنے والے یاد رکھیں کہ وراثت اچھی ہو تو قابلِ فخر ہوا کر تی ہے۔ اور بُری ہو تو قابلِ مذمت ہوا کرتی ہے۔ بلاول بھٹو کو شناخت کے کسی بحران کا سامنا نہیں وہ بھوانہ کے دور دراز گائوں میں جائے یا لیاری کی گلیوں میں عوام اسے اپنے بھٹو کا نواسہ اور بی بی کا بیٹا اور اپنا بھٹو مانتے ہیں ۔ بلاول بھٹو کے پاس وہ قابلِ فخر وراثت کا اثاثہ ہے جس پر پیپلز پارٹی کا ہر ’’ بھٹو‘‘ فخر کرتا ہے۔ بلاول بھٹو اس وراثت کا امین ہے جس کا احترام مخالفین بھی کرتے ہیں ۔ اور ان کے مزاروں پر حاضری دے کر انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو کو امیدوں کا یہ سفر وہیں سے شروع کرنا ہے جہاں سے اس کا سلسلہ منقطع ہوا تھا ۔ بلاول بھٹو پر بھٹو شہید اور بی بی شہید کے مشن کی تکمیل کی عظیم ذمہ داری ہے کیونکہ
نجابِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیںآئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
مزارِ قائد سے اس سفر کا دوبارہ آغاز پاکستان کی جمہور یعنی محروم عوام کا معاشرتی و معاشی حقوق کے حصول کی جدوجہد کے عزم کا اعادہ ہے۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں ہر بھٹو عہد کرے گا کہ وہ بھٹو شہید کے انقلاب کو پایہء تکمیل تک پہنچا کر ملک کو فلاحی ریاست بنائے گا۔ پاکستان کی اکثریت مظلوم طبقات پر مشتمل ہے جن کی نمائندہ پیپلز پارٹی ہے اور 65% آبادی نو جوانوں پر مشتمل ہے جن کی قیادت کا حق بھی حقیقی نو جوان کو ہے ۔
یہ جوان خوں سیاہ رات نہ رہنے دے گا
غم میں ڈوبے ہوئے حالات نہ رہنے دے گا
غاصبو راہ سے ہٹ جائوکہ ہم آتے ہیں
اپنے ہاتھوں میں لئے سُرخ علم آتے ہیں
تازہ ترین