• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے احکامات جاری کئے کہ وفاقی حکومت 28اکتوبر تک چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرے ،عدالت عظمی نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر آئینی ادارے کے سربراہ کی مستقل بنیادوں پر تقرری نہ کی گئی تو وہ اعلی عدلیہ کے جج کی بطور قائمقام چیف الیکشن کمشنر ذمہ داریاں واپس لے لے گی۔حقائق کا جائزہ لیا جائے تو عدالت عظمی کو اس طرح کے سخت فیصلے کرنے پر خود حکومتی رویے نے مجبور کیا ہے۔بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی طرح سپریم کورٹ اس معاملے میں بھی متعدد بار ہدایات دے چکی تھی لیکن حکمرانوں کی ترجیحات میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری ابھی کہیں نہیں تھی ۔ دو تہائی اکثریت کے خمار میں وہ اسی گمان میں تھے اور شاید اب بھی ہیں کہ عام انتخابات 2018 میں ہی منعقد ہونے ہیں اسلئے الیکشن کمیشن کی تنظیم نو اور اسے با اختیار بنانے کی ابھی چنداں ضرورت نہیں۔ دھرنوں کے بعد ملک بھر میں شروع ہونیوالے جلسوں کے مقابلے اور بھٹو ازم کے نعرے کیساتھ بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں ترپ کا آخری پتہ استعمال کر کے پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی عندیہ دیدیا ہے کہ اگر ملک میں قبل از وقت انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو وہ اس کیلئے تیارہے۔ اسی پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو کے الفاظ ہیں کہ ؛انتخابی امور میں چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری زمانہ جنگ یا امن میں سپریم کمانڈر جیسی ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن ملک بھر میں قومی اسمبلی،صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد سمیت سینیٹ کے انتخابات اور مقامی حکومتوں کے انتخابات کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے۔الیکشن کمیشن کے انتہائی اہم اور حساس کام کی وجہ سے اس کے کردار پر ماضی میں بھی انگلیاں اٹھتی رہی ہیں۔انتخابات میں دھاندلی کی آوازیں پہلی بار 1951 سے 1954 کے دوران ہونیوالے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران جھرلو کی اصطلاح کیساتھ سامنے آئی تھیں تاہم 1956 میں آئین بننے کے بعد پہلی بار تین رکنی الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔اسکندر مرزا کے مارشل لاء نے اسے کام کرنیکا موقع ہی نہ دیا۔الیکشن کمیشن کو پہلی بار ایوب دور میں صدارتی انتخابات کے دوران کردار ادا کرنے کا موقع ملا تاہم فاطمہ جناح کے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کی شرکت سے گھبرا کر اسی الیکشن کمیشن کے ذریعے عوام کی ان جلسوں میں شرکت پر پابندی عائد کردی گئی۔ یوں پہلی بارالیکشن کمیشن کا کردار متنازع ہوا۔1977 کےانتخابات میں ووٹرز ٹرن آوٹ 77 فیصد قرار دیا گیا جس میں سے 68فیصد ووٹ صرف پیپلز پارٹی کے حصے میں دکھائے گئے ،اس وقت وسیم سجاد کے والد جسٹس سجاد احمد جان چیف الیکشن کمشنر تھے، انہی انتخابات میں دھاندلی کو بنیاد بنا کر پی این اے نے جو تحریک شروع کی اس نے جنرل ضیاء کے مارشل لاء کی راہ ہموار کر دی تھی۔الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنے اور شفاف الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورحکومت میں اٹھارویں آئینی ترمیم متعارف کرائی گئی۔اس کے تحت چیف الیکشن کمشنراور اس کے ارکان کی مدت ملازمت کا عرصہ تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا تھا۔ اس تاریخ ساز متفقہ آئینی ترمیم کے بعد آئین کے متعلقہ آرٹیکل 213 میں یہ شق بھی شامل کی گئی کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری وزیر اعظم قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کرینگے۔دونوں رہنما مشاورت کے بعد تین نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجیں گے جو ان میں سے ایک نام کی منظوری دیگی۔اگلی شق میں بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا طریقہ کار بھی بتا دیا گیا کہ اس میں سیاسی جماعتوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کے تناسب سے رہنما شامل ہونگے۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد گزشتہ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر پہلی تقرری جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم کی کی گئی تھی۔آئین کے تحت اس وقت کے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کے پابند نہ تھے لیکن انہوں ںے وسیع تر اتفاق رائے کے حصول کیلئے تحریک انصاف جیسی پارلیمنٹ میں وجود نہ رکھنے والی سیاسی جماعت سے بھی مشاورت کی،یہ دلچسپ امر ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانے والے عمران خان نے الیکشن سے متعلق اہم ترین عہدے پراس وقت تعیناتی کیلئے مشاورت ٹیکسٹ میسج کے ذریعے کی تھی۔تقرری کے بعد عمران خان نے فخر الدین جی ابراہیم کی دیانت اور بے داغ شہرت پر انہیں بھرپور خراج تحسین بھی پیش کیا تھا تاہم انتخابی نتائج کے بعد ان کے دھاندلی کے الزامات کا پہلا نشانہ چیف الیکشن کمشنر ہی بنے اور فخر الدین جی ابراہیم نے 31 جولائی2013ءکو اپنے عہدے سے استعفے دے دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ فخر الدین جی ابراہیم نے اپنے استعفی میں تحریر کیا تھا کہ وہ یہ عہدہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے لیکن پارلیمنٹ کے کچھ سینئر ارکان کے کہنے پر انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی۔ لیکن ان کے استعفے کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجودحکومت کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کر سکے۔اب صورتحال یہ ہے کہ اگر حکومت عدالت عظمی کے احکامات کی پاسداری کرتی ہے اور جو کام سوا سال کی مدت میں حکومت نہیں کر سکی اسے ڈیڑھ ہفتے میں کرنیکی کوشش کی جاتی ہے تو ملک میں جاری سیاسی بحران مزید سنگین ہوسکتا ہے۔وجوہات یہ ہیں کہ بطور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اعلی ظرفی میں کیسے حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے مشاورت کرینگے جس نے ان پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد کئے،انکی بدترین کردار کشی کی۔دوسری طرف ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں اگر یہ مشاورت نہیں ہوتی تو دھاندلی کے الزامات پر پوری قومی اسمبلی کو جعلی کہنے والے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے کی جانیوالی نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کو کیسے قبول کر لینگے۔دوسری طرف الیکشن کمیشن کو مضبوط اور با اختیار بنانے سمیت شفاف الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے ایک انتخابی اصلاحاتی کمیٹی نے حال ہی میں کام کا آغاز کیا ہے۔اس کمیٹی کو تین ماہ کا ٹائم فریم دیا گیا تھا لیکن سینیٹر اسحق ڈار کی سربراہی میں یہ کمیٹی ابھی تو گزشتہ الیکشن کے انعقاد میں پائے جانیوالے نقائص کا ہی جائزہ لے رہی ہے،الیکشن کمیشن کی تنظیم نو تو کمیٹی کے ایجنڈے میں ابھی کافی نیچے ہے۔اہم امر یہ ہے کہ اس انتخابی اصلاحاتی کمیٹی میں پاکستان تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کی بحرپور نمائندگی تو موجود ہے لیکن حالیہ سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی کے باعث تحریک انصاف کا کوئی نمائندہ اس کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہورہا ،صرف ان کے اتحادی شیخ رشید ہی اس کمیٹی کو رونق بخش رہے ہیں۔گزشتہ تجربے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ اتفاق ضرور پایا جاتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر اعلی عدلیہ کے ججز کے ساتھ ریٹائرڈ بیرو کریٹس اور سینئر وکلاء کو بھی تعیناتی کے لئے اہل قرار دیا جائے لیکن اس اہم تبدیلی کیلئے بھی آئین میں ترمیم متعارف کرانا ضروری ہے جو بذات خود ایک مشقت اور وقت طلب کام ہے۔اطلاعات ہیں کہ انہی حالات کے پیش نظر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اٹھائیس اکتوبر سے پہلےعدالت عظمی میں جواب جمع کرانے جا رہے ہیں جس میں استدعا کی جائے گی کہ پاکستان کے مستقبل سے جڑی اس انتہائی اہم تعیناتی کے لئے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی کی سفارشات موصول ہونے تک مہلت دی جائے۔انکے اس جواب کو وفاقی حکومت کی بھی مکمل تائید حاصل ہے۔اس اپیل پر فیصلہ تو سپریم کورٹ ہی کریگی لیکن اب اپنی سیاسی مجبوریوں اور آئینی پیچیدگیوں کا رونا رونے والے اس سوال کا جواب کیسے دیں پائیں گے کہ اگر یہ تعیناتی اس قدر ہی اہم ہے تو ایک سال تین ماہ اس سے صرف نظر کیوں کیا گیا۔آخر میں الیکشن کمیشن کو مضبوط اور مکمل خود مختار بنانیوالے سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی سفارشات اور ان سے منسوب یہ جملہ ضرور یاد رکھیں کہ انہیں اس وقت سخت حیرت ہوئی تھی جب بھارتی چیف الیکشن کمشنر نے انہیں یہ بتایا تھا کہ بھارت میں الیکشن کے خلاف آج تک الیکشن کمیشن کو کوئی پٹیشن موصول نہیں ہوئی ہے۔
تازہ ترین