• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرب دنیا میں قدرتی حسن و جمال کے اعتبار سے شام کو لبنان کا ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ تاریخی ورثے کے اعتبار سے عالم عرب کا کوئی دوسرا ملک شام کا ہم پلہ نہیں۔ ہزاروں سال قبل مسیح آباد ہونے والا یہ قدیم ترین شہر تب سے لے کر اب تک مسلسل آباد چلا آرہا ہے۔ اس شہر کو تاریخ کے مختلف ادوار میں اہل فارس یونانیوں ، رومیوں، بنو امیہ ، ترکوں اور عثمانیوں نے علم و ادب اور آرٹ و فن تعمیرات کا گہوارہ بنایا۔ میں جب 1980ء کے اوائل میں شام کی سیاحت کے لئے اپنی بیگم کے ساتھ گیا تو دمشق نے ہمارا دامن دل بھی اسی طرح موہ لیا جیسے اس نے مشہور سیاح ابن جبیر اور ابن بطوطہ کو اپنے حسن اور رعنائی کا اسیر بنالیا تھا۔
دمشق ہی کیا سارا شام ہی قدرتی حسن کا شاہکار تھا۔ دمشق سے ہم سڑک کے راستے حماۃ ، حمص ، حلب اور الاذقیہ تک گئے۔ اور واپس آئے ۔ہر جگہ سبزہ و گل نے ہما را خیر مقدم کیا ۔
آج جب میں ویڈیوز کلپس ، ٹیلی وژن چینلز ، ای میلز اور اخبارات وغیرہ میں شام کی تباہی و بربادی کا حال دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ باغوں، سیر گاہوں اور سبزہ زاروں کا ملک قتل گاہوں زندانوں، اور قبرستانوں کا ملک بن چکا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا۔
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
گزشتہ پانچ چھ برس کے دوران شام پر جو جو کوہ غم اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں ٹوٹا ہے وہ بہت ہی دل فگار ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت تک شام میں 4لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ شامی بھوک پیاس اور غذا نہ ملنے سے دم توڑچکے ہیں۔ 40لاکھ شامی دربدر ہیں جن میں سے بہت بڑی تعداد ، ترکی ، اردن اور جرمنی وغیرہ میں پناہ لینے کے لئے تگ و دو کررہی ہے۔
شام اب خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ اگرچہ اس خانہ جنگی کے دو بنیادی فریق ہیں ایک شام کی غیر جمہوری حکومت اور دوسرااپنےتئیں آزادی کی جنگ لڑنے والا جمہوری محاذ جس کا پہلے مرکز تو حمراق تھا مگراب محاذ تقریباً سارے شام میں پھیل چکا ہے۔ ان دو بنیادی فریقوں کے علاووہاں ایران اوربرادر اسلامی ملک پراکسی وار لڑ رہے ہیں جبکہ روس، شامی حکومت کی بھرپور مدد کر رہا ہے۔ عراق میں وجود میں آنے والی تنظیم داعش بھی شام میں کود پڑی ہے۔ شامی حکومت داعش کو اپنا دشمن سمجھتی ہے جبکہ جمہوری محاذ کا کہنا ہے کہ داعش ہمیں نشانہ بنا رہی ہے جس کا بالواسطہ فائدہ شامی حکومت کو پہنچ رہا ہے۔
آج شام میں ہونے والی تباہی و بربادی کا جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے سے پہلے ہمیں مختصراً اس کا پس منظر جاننا ہو گا ۔1972میں اس وقت کے ایئر چیف اور موجودہ شامی صدر بشار الاسد کے والد نے ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا وہ پہلے وزیر دفاع بنے اور پھر اس نے صدر شام کی حیثیت سے اقتدار سنبھال لیا۔
اپنے تیس سالہ آمرانہ دور حکومت میں حافظ الاسد نے بحیثیت آمر شام پر بدترین مظالم کے پہاڑ توڑے۔ اگرچہ بعض مغربی تجزیہ نگارا سے ایک فرقہ وارانہ تصادم سمجھتے تھے۔ تاہم حافظ الاسد اور اس وقت کےغیر سیاسی دور میں اصل مسئلہ سیاسی تھا۔ اس کشاکش کا کسی فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ تاہم جب شام کے لوگ حکومت سے بہت تنگ آئے تو انہوں نے 1982کے اوائل میں پرجوش احتجاج کا آغاز کیا۔حکومت نے اس پر شدید جارحانہ رویہ اپنایا۔ اور پھر فوجیں ٹینکوں، توپوں اور مارٹر گنوں اور بمبار جہازوں کے ذریعے حماۃ پر چڑھ دوڑیں۔ انہوں نے کئی روز تک شدید بمباری اورگولہ باری کی حتیٰ کہ آدھے شہر میں کوئی آہ وبکار کرنے والا بھی نہیں بچا۔دنیا کے تمام اطلاعات کے ذرائع فروری1982میں حماۃ میں رونما ہونے والے واقعہ کو حماۃ قتل عام کے نام سے لکھتے اور یاد کرتے ہیں۔ 27روز تک شامی افواج نے شہر کا شدید محاصرہ جاری رکھا۔اس واقعہ میں20شہری قتل اور ہزار ہا زخمی ہوئے تھے۔
حافظ الاسد کے بعد جولائی 2000میں اس کے بیٹے بشارالاسد نے’’ عرب جمہوریہ ‘‘ شام میں صدر کا عہدہ سنبھالا ۔ بشار الاسد نے اپنے والد کی پالیسی کو جاری رکھا بلکہ اس میں مزید شدت پیدا کی۔ 17دسمبر2010کو تیونس سے شروع ہونے والی عرب باد بہاری کے جھونکوں سے آمریت زدہ عربوں نے اپنے حقوق کےلئے ایک نئی جدت اور حرارت محسوس کی۔ اس زمانے میں اکا دکا عرب ممالک کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ مطلق العنانیت کا سورج ڈوبنے لگا۔ عالم عرب کے ہر ملک میں لوگ سیاسی کر پشن، انسانی حقوق کی پامالی ،آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں ،بے روزگاری اور آمرانہ حکومتوں سے بہت تنگ تھے۔ اس لئے پرجوش عوامی ریلے نے تقریباً ہر جگہ پرامن احتجاج اور سول نافرمانی کا راستہ اختیار کیا مگر جہاں حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو ریاست اور عوام پر ترجیح دی وہاں تنگ آمد بجنگ آمد اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ۔
عرب باد بہار کے نتیجے میں تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کو نکال باہر کیا ۔مصر میں صدر حسنی مبارک کو عوامی قوت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئی۔ یمن میں صدر علی عبداللہ صالح کو جانا پڑا۔ لیبیا میں کرنل معمر قذافی خانہ جنگی اور بیرونی فوجی مداخلت کے بعد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
شام میں بھی بدقسمتی سے حکمرانوں نے اول الذکر طریقے کے مطابق عوام کو شریک اقتدار کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ انہیں جیلوں، ٹارچر سیلوں اور ماورائے عدالت قتل گاہوں کے ذریعے راستے سے ہٹانےکی کوشش کی،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شام بھی اپنی تاریخ کی بدترین خانہ جنگی کا شکار ہو گیا ۔ اس وقت سارے عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران اور روس علی الاعلان بشار الاسد کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔اس طرح لبنانی حزب اللہ بھی بشار الاسد کی پشت پر کھڑی ہے۔ دوسری طرف کچھ عرصے پہلے تک ترکی اور سعودی عرب شام کے جمہوری محاذ کی مالی و عملی مدد کر رہے تھے۔ مگر شام کے ساتھ ترکی کی تازہ ترین گرم جوشی کے بعد صورتحال بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے اور ترکی اب صدر بشار الاسد کا اقتدارقبول کرنے پر آمادہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سارے منظر نامے میں داعش کا فیکٹر اس لحاظ سے غیر واضح ہے کہ اس کے اصل اہداف کیا ہیں۔ صدر بشار الاسد کا کہنا یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کارروائیوں میں پیش پیش ہے جبکہ جمہوری محاذ والوں کا دعوی ٰہے کہ وہ ہماری جدوجہد آزادی ہائی جیک کرنے اور در پردہ بشار الاسد کی مدد کرنے کے لئے میدان میں آیا ہے۔ تازہ ترین صورتحال کے مطابق روسی جنگی جہاز اور شامی گن شپ ہیلی کاپٹر جمہوری محاذ کے سب سے بڑے شہری مرکز حلب پر شب و روز بمباری کر رہے ہیں وہ گھروں، مسجدوں، مدرسوں اور اسپتالوں پر بمباری کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک بمباری کے بعد پانچ سالہ بچے عمران و قیش کی وہ تصویر منظر عام پر آئی جس نے ’’عالمی ضمیر‘‘ کو جھنجھوڑ ڈالا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا تھا۔
زباں پہ کچھ نہ سہی سن کے میرا حال تباہ
ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں
’’عالمی ضمیر ‘‘ میں کسی دعاکا ابھرنا تو محال ہے البتہ ساری دنیا کے انصاف پسند انسانوں کے انفرادی ضمیر میں ہلچل ضرور برپا ہوئی ہو گی۔ بلاد عربیہ میں عرب و عجم کی بڑھتی ہوئی آویزش کو فی الفور ختم کرانے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق آمریتوں کی جگہ جمہوری حکومتوں کی راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔


.
تازہ ترین