• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1961 کے بعد پہلی مرتبہ امریکا سے ایک کمرشل فلائٹ اگلے روز کیوبا پہنچی ہے، جو دونوں ملکوںکے درمیان طویل دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی ’’ جنگ خود ایک مسئلہ ہے۔ جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی۔ ۔ خون اور موت آج بخشے گی، بھوک اور پیاس کل دے گی۔ اس لیے شریف انسانوں نے کہا ہے کہ جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے، آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں شمع جلتی رہے تو بہتر ہے۔ ‘‘ کیوبا کے انقلابی رہنما فیڈل کاسترو خود بھی آج یہ بات کہہ رہے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے لیکن کیوبا نے جس طرح طویل عرصے تک امریکا کے خلاف مزاحمت کی، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے عوام کا اس مزاحمت سے ایک عجیب رومانوی رشتہ ہے کیونکہ ان ملکوں کے عوام نے اپنے حکمرانوں کی امریکا نوازی سے جو دکھ جھیلے ہیں اور اپنے قوم پرستانہ جذبات کے مجروح ہونے کے جو عذاب سہے ہیں، ان کا مداوا کیوبا کے عوام اور حکمران کر رہے تھے کیونکہ وہ نہ صرف امریکا کی ہر جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے بلکہ امریکا کے ہر منصوبے کو ناکام بنا رہے تھے۔ دل چاہتا ہے کہ یہ صلح نہ ہوتی۔ پھر وہی بات کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے کوئی اگر آپ پر جنگ مسلط کرے تو آپ اسے ٹال بھی نہیں سکتے۔ یہ جنگ یا تو لڑنا ہوتی ہے یا پھر شکست قبول کرنا پڑتی ہے۔ شکست تسلیم کرنے کو صلح جوئی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے تک امریکا کے ساتھ لڑائی میں کیوبا اگرچہ فاتح نہیں ہے لیکن وہ شکست خوردہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ جب بھی تاریخ میں کیوبا کا ذکر آئے گا، اس کے ساتھ ہی امریکا کی براہ راست فوجی مہم جوئیوں اور خفیہ کارروائیوں کی ناکامی کا تذکرہ بھی ضرور ہو گا۔ تاریخ میں بہت کم مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ ایک کمزور قوم نے اپنے سے ہزار گنا زیادہ طاقتور قوم کے ساتھ باوقار انداز میں صلح کی ہو۔ لہذا کیوبا کی اس باوقار صلح پر کوئی زیادہ دکھ بھی نہیں ہے۔ لاطینی امریکا کے ایک چھوٹے سے ملک کیوبا میں 1959 ء کے انقلاب کے بعد امریکا اور کیوبا کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے کیونکہ فیڈل کاسترو کی قیادت میں بننے والی کمیونسٹ حکومت نے وہاں موجود غیر ملکیوں خصوصاً امریکیوں کی جائیدادیں اور کاروبار ضبط کر لیے تھے اور انہیں کیوبا چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے بعد امریکا فیڈل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سرگرم ہو گیا تھا۔ صرف امریکی وہاں اپنی نوآبادیاتی اور سامراجی حیثیت سے محروم نہیں ہوئے بلکہ نصف کرہ غربی میں یہ پہلی کمیونسٹ اور انقلابی حکومت تھی، جسے امریکا اپنے دروازے پر انقلاب کی دستک تصور کر رہا تھا اور فیڈل کاسترو کے ساتھ چی گویرا جیسے رہنما بھی انقلاب کو دور دراز تک پھیلانا چاہتے تھے۔ امریکا نے اس صورت حال کے پیش نظر نہ صرف کیوبا سے تعلقات ختم کر دیئے بلکہ کیوبا پر اقتصادی، تجارتی اور سیاسی پابندیاں بھی عائد کر دیں، جو ابھی تک جاری ہیں حالانکہ 2015 میں دونوں ملکوں نے ایک دوسرےکے ہاں اپنے سفارت خانے کھول دیئے ہیں۔ امریکیوں نے فیڈل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے بے شمار اعلانیہ اور خفیہ آپریشنز کیے اور اتنے زیادہ آپریشنز کی ناکامی کا ایک تاریخی ریکارڈ بھی قائم ہو چکا ہے۔ 2008 میں جب فیڈل کاسترو نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور یہ افواہیں پھیلنے لگیں کہ ان کی صحت خراب ہے تو امریکی صدر جارج بش نے یہ بیان جاری کیا کہ ’’ ایک دن آئے گا، جب اللہ ( گڈ لارڈ ) فیڈل کاسترو کو اٹھا لے گا۔ ‘‘ فیڈل کاسترو کو اس بیان کا پتہ چلا تو انہوں نے جوابی بیان جاری کرایا، جس میں کہا گیا کہ ’’ مجھے اب سمجھ آئی ہے کہ میں بش اور دیگر امریکی صدور کے منصوبوں سے کیسے بچ گیا، جنہوں نے میرے قتل کے احکامات جاری کیے تھے۔ اسی گڈ لارڈ نے ہی مجھے بچا کر رکھا۔ ‘‘ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کے سب سے بڑے حریف سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ کئی امریکا مخالف رہنما عبرت کا نشان بنا دیئے گئے۔ سرد جنگ کے زمانے میں ہی امریکا نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی تھی اور یہ عقیدہ بن گیا تھا کہ کوئی امریکا سے نہیں ٹکرا سکتا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا دنیا کی واحد عالمی طاقت بن گیا اور اس نے اپنا عالمی ضابطہ نافذ کیا۔ یہ نیا دور امریکا کی غارت گری کے طور پر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ براہ راست فوجی مہمات، خفیہ آپریشنز اور دہشت گردی نے امریکی بالادستی کو قطعی طور پر نافذ کر دیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ کیوبا کا فیڈل کاسترو اور کیوبا کے عوام امریکا کو للکارتے رہے۔ اس آواز میں تیسری دنیا سے بھی آوازیں ملتی رہیںاور گم ہوتی گئیں۔ خود لاطینی امریکا کے ملک وینز ویلا کے ہوگوشاویز کی بلند تر آواز بھی سنائی دی لیکن کیوبا طویل عرصے تک ڈٹا رہا۔ کیوبا کی مزاحمت سے تیسری دنیا کی اقوام میں شکست کا خوف اور ذلت کا احساس کم ہوتا رہا۔ ان میں یہ یقین پیدا ہوتا رہا کہ قومیں اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ انہیں عزت کے ساتھ جینا ہے اور اپنے وسائل کو سامراجی لوٹ مار سے بچانا ہے تو یہ سب کچھ ممکن ہے۔ کیوبا کی امریکا کے خلاف مزاحمت سے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے عوام کا رومان تھا لیکن اس باوقار صلح پر بھی دکھ نہیں ہے۔ امریکا کیوبا کے ساتھ دوستی میں وہ نہیں کر سکے گا، جو وہ اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ کر رہا ہے۔


.
تازہ ترین