• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیا اسلامی سال یکم محرم الحرام سے شروع ہو تا ہے اور یہی دن خلیفۃ المسلمین امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی شہادت کا دن ہے اور اسی ماہ کی 10 تاریخ نواسہ رسول سیدنا حسین ؓ کی شہادت کا دن ہے ۔ تاریخ اسلام یہ بتاتی ہے کہ اسلام کے خلاف جس سازش کا آغاز سیدنا عمر بن خطاب ؓ پر حملہ کر کے کیا گیا اس سازش کو سیدنا حسین ؓ نے اپنے خون سے ناکام بنایا اور کائنات عالم کے لئے سیدنا عمر بن خطاب ؓ اور سیدنا حسین ؓ قیامت کی صبح تک مشعل راہ رہیں گے۔
وطن عزیز پاکستان میں محرم الحرام کی آمد سے قبل وزیراعظم سے لے کر عام فرد تک اس پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ محرم الحرام کو امن و امان سے گزارنا کیسے ممکن ہو گا؟ وفاقی وزارت داخلہ ہو یا صوبوں کے اندر امن وا مان کیلئے کام کرنے والی وزارتیں یا ملک کے حساس ادارے ہر کوئی محرم الحرام میں امن و امان کے قیام کے لئے جدوجہد کرتا نظر آتا ہے ۔ آج پاکستان کے جو حالات ہیں اس میں امن و امان کی یہ ذمہ داریاں صرف حکومت اور اس کے اداروں پر ہی نہیں بلکہ علماء ، ذاکرین ، واعظین ، خطباء اور عوام الناس پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ اگر ہم ماضی قریب میں محرم الحرام کے دوران ہونے والے فسادات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ چھوٹی سی غیر ذمہ داری یا جذباتی انداز پورے ملک کے امن کیلئے خطرہ بن جاتا ہے اور اس جذباتیت کے نتیجے میں کئی گھروں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء ، ذاکرین ، خطباء اور عوام الناس حالات اور وقت کی حساسیت کو سمجھیں اور ہر اس طرح کی گفتگو اور کیفیت سے گریز کریں جس سے دوسرے مکاتب فکر کی دل آزاری ہوتی ہو۔ پاکستان کی مقتدر مذہبی قیادت نے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے اور اس کے بعد پاکستان علماء کونسل نے ملک بھر کے اندر منعقد کئے جانے والے علماء و مشائخ امن کنو نشنوں میں متفقہ طور پر اس ضابطہ اخلاق کی توثیق کی ہے جس سے تصادم کا راستہ مفاہمت کے ذریعے روکا جا سکتا ہے ۔اس ضابطہ اخلاق کی چند شقیں یہ ہیں:
1۔ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی ، قتل و غارت گری خلاف اسلام ہے اور تمام مکاتب فکر اور تمام مذاہب کی قیادت اس سے اعلان برأت کرتی ہے۔
2۔کوئی مقرر ، خطیب یا ذاکر یا واعظ اپنی تقریر میں انبیاء علیہ السلام ، اہل بیت اطہار ؓ، اصحاب رسول ؓ، خلفائے راشدین ؓ ، ازواج مطہرات ؓ ، آئمہ اطہار اور امام مہدی کی نہ توہین کرے گا ، نہ تنقیص کرے گا۔
3۔کسی بھی اسلامی فرقے کو کافر قرار نہیں دیا جائے گااور کسی بھی مسلم یا غیر مسلم کو ماورائے عدالت واجب القتل نہیں قرار دیا جائے گا۔
4۔اذان اور عربی کے خطبے کے علاوہ لائوڈا سپیکر پر مکمل پابندی ہو گی اور اس کے علاوہ تمام مذاہب اور مکاتب فکر کے لوگ اپنے اجتماعات کیلئے مقامی انتظامیہ سے اجازت لیں گے۔
5۔شر انگیز اور دل آزار کتابوں ، پمفلٹوں ، تحریروں کی اشاعت ، تقسیم و ترسیل نہیں کی جائے ۔اشتعال انگیز اور نفرت آمیزمواد پر مبنی کیسٹوں اور انٹر نیٹ ویب سائیٹوں پر مکمل پابندی ہو گی۔دل آزار اور نفرت آمیز اور اشتعال انگیز نعروں سے مکمل اعراض کیا جائے گا۔
6۔عوامی سطح پر مشترکہ اجتماعات منعقد کر کے ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔
7۔پاکستان میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی رہتے ہیں لہٰذا شریعت اسلامیہ کی رو سے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں ، ان کے مقدسات اور ان کی جان و مال کا تحفظ بھی مسلمانوں اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔لہٰذا غیر مسلموں کی عبادت گاہوں ، ان کے مقدسات اور ان کے جان و مال کی توہین کرنے والوں سے بھی سختی کے ساتھ حکومت کو نمٹنا چاہئے۔ اگر اس ضابطہ اخلاق پر مکمل طور پر عمل ہو جائے اورحکومت سنجیدگی سے اس پرعمل کروائے تو مقامی طور پر پیدا ہونے والے مسائل ختم ہو جائیں گے اور جو بیرونی طور پر دہشت گردی مسلط کی جاتی ہے اس کا مقابلہ کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ کیونکہ پاکستان کے تمام مکاتب فکر اور تمام مذاہب کی قیادت اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ تعصب کے نام پر چند گروہ یا افراد جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ کسی بھی صورت پاکستان اور اسلام کے مفاد میں نہیں ہے اور الحمد للہ پاکستان علماء کونسل نے اس سوچ کو عوامی سطح پر بھرپور طریقے سے اجاگر کیا ہے اور یہ عمل پورے ملک کے اندر پیغام امن کانفرنسوں ، علماء و مشائخ امن کنونشنوں اور جہاں پر مسائل ہیں وہاں پر مشترکہ اجتماعات کے ذریعے جاری ہے ۔ ضرورت اسی امر کی ہے کہ اپنی اپنی جماعتوں، سوچوں،ذاتی انائوں اور پرچموں سے بالا تر ہو کر اسلام اور پاکستان کے پرچم کی سربلندی کا سوچا جائے ۔ ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کا احترام کیا جائے اور ایک دوسرے کے مقدسات کو محترم جانا جائے ۔ یہی وہ نقطہ اتفاق ہے جس کی بنیاد پر امن کا راستہ اور امن کی منزل ہمیں مل سکتی ہے اور اگر ہم اپنے اپنے نظریات ، عقائد اور پرچموں کو ایک دوسرے پر مسلط کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کے نتائج کسی کے لئے بھی مفید نہیں ہوں گے اور ایک بات بڑی واضح ہے کہ آگ کا کوئی مسلک ، مذہب ، جماعت یا گروہ نہیں ہوتا ، آگ تو آگ ہوتی ہے جو بلا تمیز ہر کسی کو جلاتی ہے ۔ اس آگ پر ہم سب کو مل کر قابو پانا ہے اور جب ہم اس آگ پر قابو پا لیں گے تو پاکستان بھی ترقی کرے گا اور اسلام کا نام بھی مزید سر بلند ہو گا۔
تازہ ترین