• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قادری صاحب کینیڈا لوٹ گئے ۔وہ محرم کے بعد واپسی ،بھکر میں جلسے کا اعلان بھی کر گئے ہیں۔ایم کیو ایم بھی محرم کے بعد جلسوں کی بات کر رہی ہے ۔ یوں معلوم ہوتا ہے ہر سُو جلسوں کا موسم ہے ۔ بھارت کی کشمیر پالیسی کے خلاف جلسوں کا یہ رنگ برطانیہ بھی پہنچ گیا۔کہا جاتا ہے۔ بلاول بھی وہاںجا دھمکےجہاں انڈوں ٹماٹروںسے تواضع کر ڈالی گئی تو انہیں معلوم ہو ا کہ آئے اور لائے گئے سامعین میںکیا فرق ہو تا ہے۔تحریک انصاف کا جلسوں کا شیڈول جاری ہے،پنجاب کے بعد سندھ۔22 نومبر کو لاڑکانہ کا تو اعلان ہو چکا۔18اکتوبرکو بلاول بھٹو زرداری نے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا ۔جلسہ توبڑا تھا مگر جلسے میں جیالوں والا جوش نہیں تھا۔کراچی میںکراچی والے دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔ہر ذی ہوش کا سوال ہے ، جس طرح کی گورننس پیپلز پارٹی نے پچھلے پانچ سال مرکز اور 6سال سندھ میں کی کیااس سے پارٹی کا احیاء ہو جائے گا ۔ بلاول زرداری ،بھٹوکے لاحقے سے پارٹی کی توانائی بحال کرنے کا ذریعہ بن پائے گا۔2013کے الیکشن اگر( ن) لیگ کی مقبولیت کا پیمانہ نہیں مانے جا سکتے توپھر پیپلز پارٹی کی سندھ میں جیت کے بارےمیں بھی یہی کہا جائےگا۔
کیا کراچی کا بڑا جلسہ پیپلز پارٹی کو مقبولِ عام پارٹی بنانے میں ممد ومعاون ثابت ہو گا ۔بڑا جلسہ بڑے لوازمات اوردعوے بھی بڑے ۔ جلسے میں تحریک انصاف اور عمران پر سب سے زیادہ تنقید کی گئی ،الطاف بھائی اور شہباز شریف بھی بلاول کی تنقید سے محفوظ نہ رہے ۔ سوال ہے کیا یہ جلسہ پارٹی کی ضرورت تھی یا عمران کے کراچی والے جلسے کے خوف کا نتیجہ۔ کہیں سندھ کارڈ سے یہ خوشبو تو نہیں آنے لگی سونامی اب ہماری طرف بڑھنے والا ہے ۔ یہ 18 اکتوبر کے شہداء کی برسی تھی ،بلاول کی لانچنگ تھی یاسونامی کو روکنے کی کوشش۔ ایک ملگجا سا ہیولا ہے ۔دھوم دھڑکا برسی کی تنسیخ کر رہاتھا البتہ بلاول بھٹو کی لانچنگ کا سماںضرور کہا جا سکتا ہے۔اگر یہ جلسوں کے طوفان کو روکنے کی کوشش تھی تو پھر میں اتنا ضرور کہوں گا،طوفان جب کناروں سے اُٹھ جاتے ہیں تو پھر تھما نہیں کرتے۔ 1970 میں دو سونامی اٹھے تھے ایک مجیب کی قیادت میں اور دوسرابھٹو کی قیادت میںدونوں کاریگروں سے نہیں تھمے تھے۔ عمران کا سونامی جب مرکزاورپنجاب والوںسے تو تھما نہیں،کراچی والے بھی بے بسی میں کہنے لگے وہ ہمارے مہمان ہیں۔کیا سندھ والے روک سکیں گے۔ سندھ مریدوں کی دھرتی ہے ، شاہ محمود قریشی کے بھی کافی مرید بتائے جاتے ہیں جو یقیناجلسے کی رونق افروزی کا باعث بنیں گے ،لاڑکانہ کا جلسہ اس سوال کا جواب ہو گا۔ ناکام ہوا تو تحریک انصاف والے محنت کی ڈوز بڑھائیں گے، کامیاب ہوا توتحریک کا ٹرینڈ سیٹ قرار پائیگا ،واپسی یا ناکامی کا منظر نامہ اب تحریک پار کر چکی ہے۔ سندھ کے بعد یقیناً دسمبر میں بلوچستان کا رُخ کرے گی۔
کچھ صائب الرائے حضرات کی رائے ہے بلوچستان میں تحریک کیلئے بڑے سرداروں کے بغیر جگہ بنانا آسان نہیں ہو گا ،میری رائے ذرا مختلف ہے۔ الیکشن کے فورا بعد جون2013کومیں کوئٹہ گیا ۔ جس علاقے میں میرے میزبان کی رہائش تھی وہاںسے محمود اچکزئی جیتے تھے۔ اس علاقے میں پنجابی آباد کاروں کی بہت بڑی تعداد ہے جو زیادہ خوش نہیں ،بہت سے گھر جائیدادیں بیچنا چاہتے ہیںمگر بیچ نہیں پا رہے۔ان کی رائے تھی اگر عمران اس علاقے سے خود کھڑے ہوتے تو محمود اچکزئی ہار جاتے ،جس صاحب کو تحریک نے کھڑا کیا وہ انتہائی غیر معروف تھے پھر بھی رنر اپ رہے ،دوسری ان کی رائے تھی اگرعمران کوئٹہ کی تمام سیٹوں پر تحریک کے امیدوار لاتے اورکم ازکم دو جلسے کرتے تو نتائج بہت اچھے ملتے ،کوئٹہ کے علاوہ پشتون بیلٹ میں بھی عمران مقبول ہیں ۔ ہنہ لیک جو پشتون بیلٹ میں ہے اور نسبتا سیف ہے میںگیا اور خصوصا نوجوانوں سے ملا تو ان میں بہت سے شاکی تھے عمران خان ادھر تو آتا ہی نہیں،پشتو لہجے میں اردو بولتے ہوئے کہنے لگے کچھ ملاقات شُلاقات ہو تو پھر کوئی فیصلہ کر ے۔لکھنے کا مطلب ہے جلسوں کا یہ موسم ماضی قریب میںگزرتا لگتا نہیں۔یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد ہے دھرنوں جلسوںکاموسم ختم کب ہو گا،معیشت کا پہیہ آن لائن کب ہو گا ۔عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی کب آ ئیگی ۔قوم لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے ۔بجلی آتی نہیں مگر بل تواتر سے آ رہے ہیں ،کبھی سینکڑوں میں تھے اب ہزاروں میںآ رہے ہیں ۔بجلی نہیں ہو گی توصنعت نہیں چلے گی کاروبار نہیں ہو گا ،تو روزگار نہیں ہو گا،بیرروزگار کو مہنگائی تو ڈسے گی ہی ۔یہی وہ سرکل ہے جو دھرنوں اور جلسوں کی رونقیں بڑھا رہاہے مگر حکمران زمینی حقائق کو سمجھنے کی بجائے دھرنوں کی وجوہات ادھر ادھر تلاش کر رہے ہیں ۔ حسین حقانی رات کو سوئے صبح ایک امریکی اخبارمیں 5جرنیلوں کی کارروائی ڈال دی ،پاکستانی فوج ایک منظم ادارہ ہے کمانڈروں کی الگ الگ راستوںپہ چلنے کی روایت نہیں ۔ بجلی پیدا کرنیوالے پروجیکٹ کی بجائے لیپ ٹاپ اور میٹرو بس جیسے منصوبے ایسے ہی ہے جیسے بھوکے کے سامنے روٹی کی بجائے کھلونے رکھ دئیے جائیں، پھر لوگ تو یہی کہیں گے کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں میں ۔ایک منفی تاثر یہ بھی ہے کہ سارے پنجاب کے فنڈ صرف لاہور پر خرچ ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کےجیتنے کی وجہ تحریک انصاف کی دیہاتی حلقوں تک مناسب انداز میں عدم رسائی تھی، پیپلز پارٹی کی بُری گورننس،مہنگائی ،بیروزگاری او ر بجلی کی قلت تھی۔بُری گورنس کا تسلسل برقرار رہا تو لوگ دھرنوں میں آ گئے۔ بیک چینل شرارتیںبھی ہونگی مگر حکمرانوں کو اپنی کارکردی بہتر کرنا چاہئے تھی جو دوسروں کی منفی سرگرمیوں کی فصل کاٹنے کا سبب بنتی ہے ۔اگر پہلے دریائوں پر کیری اوور ڈیم بنائے جاتے جن میں سیلاب کا پانی جمع ہوتا ،سستی بجلی بنتی،فصلوں کو وافر پانی میّسر ہوتا اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا مستقل حل بھی ہوتا ۔عقلمند قومیں شارٹ ٹرم کم لانگ ٹرم پروجیکٹ زیادہ بناتی ہیں ،جومستقبل کی مضبوط معیشت کیلئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ہمارے حکمران عر صہ دراز سے لکیر پیٹ رہے ہیں۔اپنی کارکردگی پر تکیہ کرنے کی بجائے سابقہ حکومت کی بُری گورنس کا پروپیگنڈہ کرکے اپنی بُری گورنس پر ڈٹے رہتے ہیں ۔میری تنقید کا فوکس صرف آج یا کل کے حکمران ہی نہیں جلسے اوردھرنوں والی اپوزیشن بھی ہے ۔ لاہور کے جلسے میں قادری صاحب نے وژن کی بات کی ہے مگر جو باتیں کی ہیں وہ محض کونپلوںکی کانٹ چھانٹ ہے ،گراس روٹ انقلاب نہ انکے وژن میں نظر آیا اور نہ ہی عوامی تحریک کے منشور میں ۔تحریک انصاف والے تو خود کو انقلابی کہتے ہی نہیں ،اپنے لئے اصلاح کار کی ٹرم استعمال کر رہے ہیں ۔ الیکشن سے پہلے سب پارٹیاں اپنا وژن اور حصول وژن کیلئے طریقہ کار پوری وضاحت کے ساتھ اپنے منشور کاحصہ بنائیں تاکہ قوم اندھیروں میں نہیں روزِروشن میں فیصلہ بھی دے اور کل احتساب بھی کر سکے ۔
تازہ ترین