• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بار پھر پاکستان بھارت تعلقات پرسیاہ بادل منڈلا رہے ہیں۔ مذاکرات بدستورمعطل ہیں اورکشمیر میں لائن آف کنٹرول نیز ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ مسلسل جاری ہے۔ دہلی کی جانب سے اگست میں ہونیوالے خارجہ سیکریٹری مذاکرات کو اچانک منسوخ کرنا غیریقینی کے تازہ ترین مرحلے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دہلی کا مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے کا عمل دراصل اس جارحانہ اورتحکمانہ روئیے کا مظہرہے جو اس وقت وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان سے متعلق اپنایا ہوا ہے۔کوئی اس سخت گیر روئیے سے کیا نتیجہ اخذ کرے جس کی بھارتی میڈیا اور تجزیہ کار ماضی سے اہم مراجعت کے طور پر تشہیر کررہے ہیں؟ کیا بھارت کا مذاکرات گریز انداز اور اس کے رہنماؤں کے جارحانہ بیانات ایک نئی طاقت پر مبنی پالیسی کا ثبوت نہیں جسکے بارے میں بی جے پی کے ترجمان نے عزم کیا ہے کہ ان کی حکومت اس پرعمل کرے گی؟ یا یہ جغرافیائی سیاسی اور فوجی مردانگی کا اظہار ہے جس کے مصنف پنکج مشرا نے اپنے حالیہ مضمون ’’ مودی کا تصور بھارت‘‘ میں تذکرہ کیا ہے؟مودی سرکار کی جانب سے طاقت کے موجودہ استعمال کی عمومی تعبیر یہ ہے کہ یہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں عنقریب ہونے والے ریاستی الیکشن کے انتخابی تخمینوں کی عکاسی کرتا ہے۔ نومبر سے دسمبر کے درمیان متعدد مراحل میں الیکشن منعقد ہونے کا امکان ہے۔الیکشن سیاسی ترجیح ہونے کی وجہ سے ہی مودی نے سرینگر میں دیوالی منائی۔ ان کے دورے کے خلاف کشمیریوں نے احتجاجاً شٹرڈاؤن ہڑتال کی نیزحالیہ سیلاب میں سرکاری بدانتظامی کی وجہ سے بھارت مخالف جذبات مزید ابھرے۔ بھارتی میڈیا نے مودی کے دورے کو انتخابی مہم کی شکل دینے کی اتنی ہی کوشش کی جتنی پاکستان کو یہ باور کرانے کی کہ کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔بی جے پی نے مشن 44 پلس کو کشمیر میں اپنی مہم کی حکمت عملی بنایا ہے جس کا مقصد 84 رکنی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنا ہے۔ بی جے پی کے پارٹی صدر نے اعلان کیا ہے کہ سرینگر میں پہلا ہندو وزیراعظم لانا اس کا مشن ہے۔ اس حکمت عملی پر عمل کرنے کے لئے اس موقع پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو فائدہ مند نہیں سمجھا گیا۔ بلکہ حقیقتاً اس کے برخلاف حکمت عملی پر عملدرآمد ہوتا نظر آرہا ہے، یعنی پاکستان مخالف جذبات اور ایل او سی پر کشیدگی کو ہوا دینا تاکہ بالخصوص جموں میں ہندو ووٹ کو متحرک اور یقینی بنایا جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں موجودہ نقطہ نظریہ ہے کہ کشمیر میں الیکشن ہونے تک دو طرفہ محاذ پر کسی ہل جل کی توقع نہیں۔ مہاراشٹرا اور ہریانہ کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی تازہ فتح نے مودی حکومت کے اس یقین کو اور زیادہ مضبوط کیا ہے کہ پاکستان کیساتھ سخت رویے سے اسے انتخابی فوائد حاصل ہوئے۔ اور شاید اسی لئے یہ کوئی اتفاق نہیں کہ 30 ستمبر کو شروع ہونیوالی سرحدی جھڑپیں 6 اکتوبر کو شدت اختیار کرگئیں اور 15اکتوبر تک جاری رہیں جس روز دونوں ریاستوں کے انتخابات ہونے تھے۔
لیکن پاکستان سے متعلق مودی کے سخت گیر روئیے کے پیچھے تدبیری سیاسی عوامل سے زیادہ بھی کچھ چھپا ہوسکتا ہے۔ ایک وسیع حکمت عملی جس کے کئی عناصر اور مقاصد ہیں بالکل واضح ہے ۔ پہلے کا تعلق خود کشمیر سے ہے جس سے کشمیر کے اندر اور کشمیر سے متعلق حقیقت کو تبدیل کرنے کی سوچ نظر آتی ہے۔ اس پہلو سے وہاں بی جے پی حکومت کی تشکیل کشمیر کو بالآخر بھارتی وفاق میں ضم کرنے کے منصوبے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا موقف بھی اس حوالے سے بالکل واضح ہے جو انہوں نے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ سے خطاب میں بیان کیا تھا۔ انہوں نے کہا مودی حکومت کشمیر کا خصوصی آئینی درجہ ختم کرکے اسے ہڑپ کرنے اور تین حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ کشمیر کو یہ خصوصی آئینی درجہ بھارتی آئین کی شق 370 کے تحت حاصل ہے جسے ختم کرنے کا وعدہ بی جے پی کے منشور میں شامل ہے۔کشمیر کی سہ شاخیت کے منصوبے کے تحت لداخ کو وفاق کا علاقہ بنادیا جائے گا اور جموں کو وادی سے الگ کردیا جائے گا۔ سہ شاخیت راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کی بی جے پی مکمل حمایت کرتی ہے لیکن کھلے عام اظہار نہیں کرتی۔ لہٰذا اگر سری نگر میں بے جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی (اگرچہ اس کا امکان نہیں) تو وہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گی۔اس پہلو سے ریاست جموں و کشمیر میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے ظاہری تدبیری اقدام کا مقصد دراصل اسٹریٹجک مقصد کو حاصل کرنا ہے، یعنی مسئلہ کشمیر کو ایک ہی بار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طے کردینا۔اس سے مودی کی حکمت عملی کا دوسرا عنصر سامنے آتا ہے۔ پاکستان کو اشارہ دینا کہ مذاکرات کی میز پر کشمیر کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی۔ اور یہ پیغام مذاکرات منسوخ کرکے دیا گیا ہے یہ بہانہ بناکر کہ پاکستانی سفیر نے دہلی میں حریت کانفرنس کے کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کیوں کی۔ جب کہ حریت رہنماؤں سے ملاقات حقیقتاً یہ ایک بہت پرانا معمول ہے جس پر آج تک واجپائی سمیت کسی بھارتی حکومت نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن اس بار اسے بڑے آرام سے مسترد کردیا گیا شاید اس لئے کہ بقول بھارتی حکام دہلی رابطے کے لئے نئے زمینی ضابطے طے کرنا چاہتا ہے۔لہٰذا اس وقت وسیع بھارتی حکمت عملی میں شامل ہے پاکستان کے ساتھ سلسلہ جنبانی کے ضوابط کو کامل دہلی کی شرائط پر ازسرنو طے کرنا اور ایل او سی و ورکنگ باؤنڈری پر دباؤ بڑھانا جس سے زور زبردستی کی سفارت کاری کی عکاسی ہوتی ہے۔ دہلی اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ پاکستان سے بات نہ کرنا اسلام آباد پر دباؤ ڈالنے کا کوئی طریقہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی مودی حکومت خطے میں پاکستان کو اگر تنہا نہیں تو کم از کم اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سفارتی کوشش میں مصروف ہے۔ اس کا اندازہ پڑوس میں مودی کی ابتدائی وسیع رسائی اور علاقائی ممالک کے ساتھ اعلیٰ سطح کے رابطوں سے ہوتا ہے جس میں پاکستان کو جان بوجھ کر خارج کردیا گیا ہے۔ مودی نے بھوٹان اور نیپال کا دورہ کیا اور اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش اور سری لنکا کے اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کیں۔پاکستان نے بھی بھارت کے سخت روئیے کا جواب اتنے ہی سخت انداز سے دیا۔ اسلام آباد نے واضح کردیا کہ دوطرفہ ایجنڈے سے کشمیر کو نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کی تقریر اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے عوامی بیانات میں بھارت کے ساتھ پاکستان کے سفارتی رابطوں میں کشمیر کی مرکزیت ہونے کا اعادہ کیا گیا۔ درحقیقت کشمیر پر دہلی کے تازہ موقف کی وجہ سے اسلام آباد نے اپنی سفارت کاری میں کشمیر کے مسئلے پر اور زیادہ دھیان دینا شروع کردیا ہے۔پاکستان کے اعلیٰ حکام نے اسلام آباد کو ڈرا دھمکا کریک طرفہ طورپرمسلط کردہ ایجنڈے کو قبول کرانے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کردیا۔ مثلاً سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے حالیہ ٹی انٹرویو میں کہا کہ مذاکرات کی بحالی کے لئے پیشگی شرائط عائد کرنا پاکستان کے لئے ناقابل قبول ہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے بھی دو ٹوک الفاظ میں کہا: امن کو ہاں، تسلط کو ناں۔
دوم، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھ کر سرحدی جھڑپیں ختم کرانے اور مسئلہ کشمیر کے پرامن حل میں مدد کی درخواست کرکے پاکستان نے دو طرفیت کی حدود واضح کردیں (جب دوسرا فریق بات کرنے سے ہی انکاری ہو) اور اپنی سفارت کاری کا رخ عالمی برادری کی طرف کردیا۔ اس پر بھارتی وزیر داخلہ سمیت دیگر حکام نے اعتراضات شروع کردیے کہ پاکستان کشمیرکو عالمگیر بنا رہا ہے۔ بھارت کا یہ ردعمل مکارانہ تھا کیونکہ اس نے خود ہی دوطرفہ مذاکرات روک دیے اور پاکستان کے پاس عالمی برادری میں جانے کے سوا کوئی راستہ نہ چھوڑا۔سوم، پاکستان نے یہ بات واضح کردی کہ مذاکرات بھارت نے معطل کئے ہیں، اس لئے دہلی ہی انہیں دوبارہ بحال کرے گا۔ باالفاظ دیگر اگر دہلی نے یہی رویہ اپنائے رکھا کہ جیسے مذاکرات کرکے کوئی احسان کررہا ہو یا اگر پیشگی شرائط عائد کیں تو اسلام آباد کا بھی بات چیت کے پیچھے پڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔اس کشیدہ پس منظر میں اس بات کا امکان بہت مشکل ہے کہ 27 سے27 نومبر تک نیپال میں ہونے والی سارک کانفرنس پاکستان اور بھارت کے خراب تعلقات میں بہتری لانے کا موقع فراہم کرے گی۔ کوئی بھی فریق کسی طرح کے دوطرفہ رابطے کی کوشش نہیں کررہا، مثلا گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دونوں وزرائے اعظم نے ملاقات نہیں کی تھی۔
ماضی میں سارک کانفرنس نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعطل کو ختم کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ ایسا 2010 میں تھمپو میں ہوا تھا جس کے نتیجے میں 2008 سے تعطل کا شکار جامع مذاکراتی عمل بحال ہوا تھا۔ تاہم اس بار مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر ایک بہت مختلف معاملہ درپیش ہے۔ اس لئے اس بات کا امکان نہیں کہ کھٹمنڈو کانفرنس تھمپو سربراہ کانفرنس جیسے نتائج فراہم کرے گی۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت آخرکار اس روش کے بیکار ہونے کا اعتراف کرے گی جس کا دارومداردھونس کی سفارت کاری پر ہے، جو ماضی میں بھی ناکام ہوچکی ہے اور مستقبل میں تو اس کی کامیابی کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آرہا۔
وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بھارت کے ساتھ کشیدگی سے پاک اور نارمل تعلقات چاہتی ہے۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کافی زیادہ کوشش کی ہے کہ وہ ایک پرامن پڑوس کو پاکستان کے معاشی احیاء کے لئے بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کی حکومت نے حالیہ ہفتوں میں یہ بات بھی بالکل واضح کردی ہے کہ تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل کسی یک طرفہ ایجنڈے کی بنیاد پریا پاکستان کے بنیادی مفادات کی قیمت پرآگے نہیں بڑھ سکتا۔
تازہ ترین