• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی محکمہ دفاع کی کانگریس کو بھیجی جانے والی114 صفحات پر مبنی ششماہی رپورٹ میں ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گرد گروپوں کی سرپرستی کرنے کے الزامات پر کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ اس سلسلےکی چودہویں رپورٹ ہے جو سیکرٹری اسٹیٹ ،ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس اور یو ایس ایڈ کے حکام کی مشاورت سے تیار کی گئی ہے۔ اس سے قبل مارچ تک جاری کی جانے والی رپورٹ میں بھی امریکی محکمہ دفاع نے اسی طرح کے الزامات عائد کئے تھے اورکہا تھا کہ پاکستان نے افغانستان اور بھارت کیخلاف حملے کرنے والے گروپوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی تاہم،افغانستان میں سلامتی اور استحکام میں پیش رفت کے عنوان سے جاری اس تازہ رپورٹ میں استعمال کی جانے والی زبان کو انتہائی سخت کردیا گیا ہے۔ جہاں یہ الزام عائد کیا گیا کہ افغانستان اور بھارت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے پاکستان کی حدود سے حملے ہورہے ہیں وہیں یہ شوشہ بھی چھوڑا گیا ہے کہ پاکستان پراکسی قوتوں کو افغانستان میں کم ہونے والے اثرورسوخ پرقابو پانے اور بھارت کی برتر فوج کو کاؤنٹر کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے اس رپورٹ میں بھارت کے افغانستان میں کردارکو بہت سراہا ہے جبکہ محکمہ خارجہ کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری سے تین دن قبل ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر ہونے والے حملےکا ذمہ دارلشکر طیبہ کو ٹھہرایا ہے۔
یہ رپورٹ عین اس وقت جاری کی گئی جب ایک دن بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف افغانستان کا دورہ کرنَے والے تھے جبکہ وہ رواں ماہ ہی امریکہ بھی جارہے ہیں۔ امریکہ اگرچہ سپر پاور ہے لیکن سفارتکاری کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں جنہیں ملحوظ خاطر رکھنا اس پر بھی لازم ہے،اس تناظر میں اسے یہ وضاحت بھی کرنی چاہئے کہ آخر اسے بھارتی افواج کے لئے؛ برتر؛ کا لفظ استعمال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے امریکی سفیر کو طلب کرکے اس رپورٹ کے مندرجات پراحتجاج ریکارڈ کرادیا ہے ۔ امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ میں پاکستان پرایک بار پھرجس بداعتمادی کا اظہار کیا گیا ہے اس کی تاریخ پاک امریکہ تعلقات جتنی ہی پرانی ہے۔ گزشتہ67 برسوں میں ان تعلقات میں کئی نشیب و فراز اور لا تعداد موڑ آئے لیکن آج بھی دونوں ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون کی بنیاد وہی ضرورت اور سودے بازی ہے جس کی ابتدا سرد جنگ کے دوران ہوئی تھی۔ پاکستان ہمیشہ یہ شکایت کرتا رہا ہے کہ امریکہ کبھی اچھا دوست نہیں رہاجبکہ دوسری طرف امریکی سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے امریکہ کو استعمال کیا اوراپنی ہرخدمت کا بھرپورمعاوضہ وصول کیا ہے۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزرا ہے کہ نیویارک سے ڈیموکریٹس کے سینیٹرگیری آک مین نے کہا تھا کہ پاکستان ایک بلیک ہول ہے جس میں ہمارا ٹیکس،سفارتکار، نیک خواہشات حتی کہ سب کچھ جھونکا جارہا ہے لیکن اس سے کچھ بھی اچھا برآمد نہیں ہوتا۔ جائزہ لیا جائے تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان اچھے تعلقات کے دوران بھی بعض معاملات پرعدم اعتمادی کی فضا برقرار رہی ہے جس کی وجہ سے مضبوط اور پائیدار تعلق کا قیام خواب ہی رہا۔
80 کی دہائی میں پاکستان نے خاموشی سے ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھا تو امریکہ نے اس کو پسند نہ کیا اورجیسے ہی سوویت یونین کا افغانستان سے انخلاء ہوا امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کڑی نگرانی شروع کردی۔ پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان کی عسکری اور اقتصادی امداد معطل کر دی گئی ۔ بھارت کے جواب میں کئے گئے ایٹمی دھماکوں نے امریکہ اور پاکستان کو ایک دوسرے سے مزید دور کر دیا ۔ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے امریکہ کا اتحادی بننے اور طالبان کی حمایت ختم کرنے کا اعلان تو کر دیا جس کے بدلے میں دو ہزار آٹھ تک بارہ ارب ڈالر کی امداد بھی حاصل کی لیکن امریکہ نے پاکستان پر دل سے کبھی اعتماد نہ کیا اورڈو مور کی گردان جاری رکھی۔امریکہ ایک طرف پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اہم اتحادی کہتا ہے تو دوسری طرف ابھی تک یہ ماننے کوتیار نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کاروائی کر رہا ہے۔ گزشتہ تیرہ سال میں 50 ہزار جانوں کی قربانی دینے اور ملکی معیشت کا 78 ارب ڈالرکا نقصان کرنے والا اتحادی آج بھی امریکہ کے لیے ناقابل اعتبار ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے سیکیورٹی پالیسی ونگ کے سابق آفیسر اور کونسل آف فارن ریلیشن کے سینیئر فیلو ڈینئیل ایس مارکی نے اپنی کتاب ؛نو ایگزٹ فرام پاکستان؛ میں لکھا ہے کہ: افغانستان میں لڑنے والے امریکی فوجی سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک اتحادی سے زیادہ مخالف ملک ہے،امریکی حکام پوری طرح قائل ہیں کہ پاکستان بھارت اور افغانستان میں ان پراکسی فائٹرز کے ذریعے کاروائیاں کرتا ہے جن کے ہاتھ امریکیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں؛۔ ہم اس سوچ کو امریکی رپورٹ کی طرح ہرزہ سرائی سے تعبیر کر سکتے ہیں لیکن کچھ اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔اس حقیقیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور امریکہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کسی طرح ختم نہیں کر سکتے۔دفاعی اور اقتصادی تعاون کا حصول پاکستان کی مجبوری ہے۔ آج بھی پاکستان کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک امریکہ ہی ہے۔اسی طرح امریکہ کو جہاں دہشت گردی کے خاتمے،افغانستان سے محفوظ انخلاء اور خطے میں استحکام کے لئے اسلام آباد کا تعاون چاہئے وہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت بھی اس کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔پاکستان کی تیزی سے بڑھتی آبادی،جغرافیائی محل وقوع اور ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والے عوامل امریکہ کے پاؤں کی وہ بیڑیاں ہیں جن سے وہ آزادی حاصل کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس تمام صورتحال میں ایک دوسرے کے بارے میں بداعتمادی کے باوجود پاکستان اور امریکہ فرانس کے فلاسفر جین پال سارترے کےپلے ؛نو ایگزٹ؛ کے کرداروں کی طرح ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار نہیں کر سکتے۔ یہ کردار تین ایسے گناہ گار افراد ہیں جو دنیا کے لئے تو مر چکے ہیں لیکن ان کے نزدیک جہنم کوئی خوفناک جگہ نہیں بلکہ وہ اسےایک آرام دہ کمرے سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ جہنم کوئی اذیت نہیں دیتی بلکہ وہ ایک دوسرے کو اذیت دے کر ماحول کو جہنم میں تبدیل کرتے ہیں۔ ایک ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کو اذیت دیتے وہ ایک دوسرے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ایک موقع پر جب اس کمرے کا دروازہ کھلا رہ جاتا ہے اور ان کے پاس فرار ہونےکا سنہرا موقع ہوتا ہے ، وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ اسے ایک سراب سمجھتے ہیں ۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہنا ہے۔
تازہ ترین