• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دین اسلام دین فطرت ہے اور انسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کی آمد سے قبل دور جاہلیت میں جو قتل و غارت گری کا سلسلہ اور انسانیت کی جس طرح تذلیل کی جا رہی تھی ، رسول اکرم ﷺ کی آمد کے بعد وہ سلسلہ ختم ہوا اور انسانیت کو احترام اور شرف ملا اور دنیا کو بتایا گیا کہ کائنات عالم میں انسان کو اللہ نے مخلوقات میں سب سے افضل بنایا ہے ۔ رسول اکرم ﷺ اور خلفاء راشدین کے دور میں جتنے بھی معاہدے غیر مسلموں سے کئے گئے ان میں ان کی عزت و آبرو، جان و مال اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ تاریخ کے اوراق میں یہ بات نقش ہے کہ سیدنا عمربن خطاب ؓ کے دور میں بعض علاقوں کو جب مسلمانوں نے چھوڑا تو جزیہ واپس کردیا کہ ہم اب آپ کا تحفظ نہیں کر سکتے لہٰذا ہم آپ کی امانت آپ کو واپس لوٹا رہے ہیں۔ اسی طرح فتح فلسطین کے موقع پر سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا غیر مسلموں کی عبادت گاہ میں نماز ادا کرنے کی بجائے باہر جا کرنماز ادا کرنا اور یہ کہنا کہ میں نے آپ کی عبادت گاہ میں اس لئے نماز ادا نہیں کی کہ کل کوئی آنے والا اس کو مسجد نہ بنا دے، اس بات کا واضح اظہار ہے کہ اسلام غیر مسلموں کے ساتھ معاملات کے حوالے سے کیا رائے رکھتا ہے۔
وطن عزیز پاکستان کے قیام کے وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کو مدینہ منورہ کی طرز کی ریاست بنایا جائے گا جس میں انسانیت کا احترام ہو گا اور کسی کو بغیرجرم کے مجرم ٹھہرانے اور طاقتور او ر کمزور کے تصور کو ختم کردیا جائے گا لیکن افسوس کہ67 سال گزرنے کے باوجود پاکستان ایسی ریاست نہ بن سکا جس میں انصاف کی بالا دستی ہو اور کسی کو اس بنیاد پر مجرم نہ بنادیا جائے کہ اس کا مسلک اور اس کا مذہب کیا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ 1979 ء کے بعد پاکستان میں انتہاء پسندی ، شدت پسندی ، مذہبی و مسلکی منافرت ایک عفریت کی صورت اختیارکرچکے ہیں اور اس سے نجات کےلئے کوئی واضح لائحہ عمل قومی ، سیاسی و مذہبی قیادت کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔
سانحہ کوٹ رادھا کشن کو صرف قتل کا واقعہ قرار دینا قطعی طور پر درست نہ ہو گا۔ اس سانحہ میں ہونے والے واقعات نے بہت سارے سوالات پیدا کر دیئے ہیں جن کے جواب تلاش کرنا نہ صرف قومی ، سیاسی و مذہبی قیادت کی بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کی ذمہ داری ہے ۔
سانحہ کوٹ رادھا کشن کے رونما ہونے کے اسباب پر اگر نظر ڈالیں تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس طرح کے بہت سارے واقعات پہلے رونما ہو چکے ہیں لیکن اس طرح کی بربریت اور سفاکیت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگر اہل علاقہ اور مسیحی برادری کے مؤقف کو بلا تعصب دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس سانحہ سے تین دن قبل قرآن کریم کے کچھ اوراق کا ملنا یا ان کے جلائے جانے کی بات سامنے آنے کے بعد جو ذمہ داری بطور مسلمان ، بطور پاکستانی شہری اہل علاقہ پر عائد ہوتی تھی وہ انہوں نے ادا نہیں کی اور پولیس نے بھی انتہائی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ ان دونوں سے کوئی جرم سرزد ہوا تھا تو پھر ان کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ اور گرفتار نہ کرنے پر اہل علاقہ نے کوئی ایسی کوشش کیوں نہیں کی کہ جس کو قانون کا راستہ کہا جاتا اور اگر یہ بے گناہ تھے تو پھر پولیس نے ان کو تحفظ فراہم کیوں نہیں کیا۔
حقیقت حال یہ ہے کہ سانحہ کوٹ رادھا کشن پاکستان ، اسلام اور انسانیت کے چہرے پر ایک سیاہ داغ لگانے کے مترادف ہے ، جس کی سیاہی کو مٹانے کے لئے اہل اسلام اور اہل پاکستان کو ایک بنیادی تبدیلی لانی ہوگی اور وہ بنیادی تبدیلی یہی ہے کہ مفروضوں کی بنیاد پر، قرآن کریم کے حکم پر کسی پرالزام لگانے سے گریز کیا جائے۔ اگر کوئی شخص توہین رسالت، توہین مذہب، توہین قرآن یا کوئی اور جرم کرتا ہے تو اس کو سزا دینا عدالتوں کا کام ہے ہجوم کا نہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے اندرجہالت،غربت، بیروزگاری اور قانون کی بالا دستی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں ، جس سے انسانیت لرزجاتی ہے ۔
سانحہ شانتی نگرہو، گوجرہ ہو ، جوزف کالونی ہو یا رمشاء مسیح کیس ، یہ بات الظہر من الشمس ہے کہ جذباتی انداز اور بغیر تحقیق کے جو قدم بھی اٹھائے گئے ان اقدامات سے توہین رسالت کے قانون کو کمزور کیا گیا کیونکہ جب توہین رسالت کے قانون کے مخالفین اس کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کو ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اس قانون کو باقی رہنا چاہئے وگرنہ یہاں پرجومعاشرتی، اخلاقی انحطاط موجود ہے ۔ اس قانون کے خاتمے سے ان لوگوں کو تقویت ملے گی جو اس معاشرے کو اپنی منشاء اور مرضی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں اور اپنے مفادات کے لئے کسی بھی فرد پر کوئی بھی الزام لگا کر نشانہ بنا دیتے ہیں۔ قانون کا موجود ہونا ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کا سبب ہے اور رہے گا جو قانون سے بالا تر ہو کرخود ہی مدعی ، خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بننا چاہتے ہیں۔
جہاں تک توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی بات ہے ، علماء اسلام یہ بات سمجھتے ہیں کہ اس قانون کو غلط استعمال کرنے والا بھی اسی طرح مجرم ہے جس طرح توہین رسالت کرنے والا ، کیونکہ اگر کسی شخص پر یہ الزام لگادیا جائے کہ اس نے یہ جملے کہے ہیں یا لکھے ہیں اور اس نے نہ کہے ہوں، نہ لکھے ہوں تو ایسی صورت میں توہین کا مرتکب یہ مدعی ہو گا جوجھوٹا الزام لگا رہا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں موجود تمام غیر مسلم مذاہب کے قائدین اس با ت پر متفق ہیں کہ قانون توہین رسالت کو باقی رہنا چاہئے لیکن اس کا غلط استعمال رکناچاہئے اور جو حقیقتاً مجرم ہے اس کو سزا ملنی چاہئے اور جو بے گناہ ہے اس کے خلاف اپنے مفادات کے لئے مہم چلانے والوں کو نشان عبرت بنایا جانا چاہئے۔
تازہ ترین