• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب خالقِ کائنات نے کہا کہ ’’ میں نے چاہا پہچانا جاؤں ، اس لئے میں نے مخلوق کو پیدا کیا ‘‘تو معلوم ہوا کہ ہماری تخلیق کا مقصد خالق کی پہچان، لیکن یہ پہچان کیسے تو وہ ایسے کہ حضرت عیسیٰ ؑ سے پوچھا گیا ’’خدا کو کیسے پہچانیں‘‘، جواب ملا ’’خود کوپہچانو ،خد ا کوپہچان جاؤ گے‘‘۔
ارسطو کہے ’’ہر علم کی شروعات خود شناسی ‘‘ اور خلیل جبران کا خیال ’’خود کو جاننا علم اور خدا کو جاننا آگہی‘‘ ،مگر سوال یہ کہ ہم جو مذہب کی بنیادی ترجیحات سے غافل ،جن کے نزدیک رسموں ،رواجوں کا مجموعہ مذہب ایک پسماندہ،بہت ہی پرانا اور ختم شدہ نظریہ ، جو مذہب کو آباؤاجداد کی نشانی سمجھ کر سینے سے لگائے بیٹھے ، جو اختیار اور سوال سے خالی اورجن کی مذہب سے کمٹمنٹ اتنی بھی نہیں جتنی اپنے بچوں اور کاروبار سے تو کیا وہ خودشناسی یارب شناسی کی منزلیں طے کرنے کے قابل، یقین جانیے مذہب پر جتنا کڑا وقت آج ،اتنا کبھی نہ تھا ، مانا کہ ماضی میں مذہب کو باطنیہ اور قرامطہ سے رنج پہنچا ،اسے معتزلہ نے چھیدا اوراسے ماتریدیہ اور اشاعرہ نے بھی ٹھیس پہنچائی لیکن اگر ایک طرف یہ ہوا تو دوسری طرف اسی مذہب کے باطن سے کبھی جنید بغدادی ؒ پیدا ہوئے تو کبھی گیلان کے عبدالقادرؒ کا جنم ہوا اور کبھی علی بن عثمان ہجویری ؒ جیسے intellectualsبھی سامنے آئے ، لہذا حالات چاہے جیسے بھی رہے خود شناسی سے رب شناسی کا سفر جاری رہا،یہ تو آج فرقوں اور خانوں میں بٹے مذہب کی حالت یہ کہ ایک طرف مغرب کا اعلیٰ ترین دماغ چرچ میں جبکہ دوسری طرف ہماری آخری ترجیح مذہب اور ایک طرف رسل جیسا مفکر سوال پوچھے تو دوسری طرف میٹرک فیل حضرات جواب دینے میں لگے ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ خود شناسی یا ر ب شناسی کا سفر تبھی ممکن جب علم کے موٹروے پر گاڑی اعتدال سے چلے یعنی اعتدال اور علم کے بنا یہ سفر ناممکن ،اب بلاشبہ اعتدال کے بنا مذہب کا ہر تجربہ مشکوک اوربے شک اعتدال اسلام میں اس قدر اہم کہ صرف مسلم کی 8حدیثوں کا مفہوم ایک ہی کہ ’’اعتدال (میانہ روی) اختیار کرو اور اگر مکمل اعتدال اختیار نہ کر سکو تو کم ازکم اس کے قریب قریب رہو‘‘ ، لیکن اعتدال تبھی ممکن جب علم ہو مطلب علم کے بنا اعتدال ناممکن ،اسی لئے تو علم کی یہ اہمیت کہ ارشادِباری تعالیٰ ’’ ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا‘‘ یعنی اللہ کی درجہ بندی علم کے لحاظ سے اور پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بہترین بندوں کی بات کریں کہ ’’وہ کھڑے بیٹھے اور کروٹیں لیتے مجھے یاد کرتے ہیں‘‘تو ساتھ یہ بھی فرمادیں ’’وہ زمین وآسمان کی تخلیق پر غوروفکر بھی کرتے ہیں‘‘۔
یہی نہیں سورہ ذاریات میں تو اللہ تعالیٰ یہ تک کہہ دیں کہ ’’میں تمہارے اندر ، کیا تم غور نہیں کرتے ‘‘ ، اب معلوم ہوا کہ خود شناسی اور رب شناسی کی ابتدا اعتدال اور اعتدال کی بنیاد علم اور علم کی ابتدا غوروفکر،اب یہ ’’غوروفکر ‘‘ کیا ،تو یہ سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری کہ انسانی عقل کے 3درجے یا حصے، پہلا جبلت جو حسّ ِ بقاء بھی،یہ انسانوں اور جانوروں میں یکساں ، دوسر ا حصہ تعقل یعنی وہ علم جو شواہد پر مبنی ، جس کے پیچھے ادب،سائنسز،عمرانیات کا dataموجود پھر جب جبلت اور تعقل تجسس کو ایک ہی نکتے پر مرتکز کر دے تو وجدان کہلائے یہ عقل کا تیسر ا درجہ،وجدان میں مسلمان اور کافر،بے یقین اور صاحبِ یقین ایک جیسے ،جیسا وجدان ہمارا ویسا وجدان کسی غیر کے پاس بھی ممکن ،جیسے نیوٹن 12سال تک ایک مسئلے پر ارتکاز (وجدان) کے بعد آخر کار کششِ ثقل کے قانون تک پہنچا،الیگزینڈر فلیمنگ کے 8سالہ وجدان کے بعد خدا نے اسکی یہ مدد کی کہ اسے باہر سے آتی ڈبل روٹی کے ٹکڑے کے ذریعے پنسلین تک پہنچادیا ، آرگینک کیمسٹری کے Snake-tailفارمولا میں مدتوں جب ایک سائنس دان سوچے تو اسے آگ کے اٹھتے ہوئے شعلوں سے Snake-tailفارمولے کی بنیاد ملے ، ہمارے ہاں یہ علمی قحط آج ہی ، ورنہ کبھی غوروفکر ،تدبرمطلب علم اتنا اہم کہ عالمِ نزع میں فلسفہ پڑھنے کی کوششوں میں لگے ابنِ سینا کو جب شاگرد کہے ’’استاد مر رہے ہو ، اب یہ پڑھائی کس کام کی ‘‘تو ابنِ سینا جواب دیں ’’نادان حصولِ علم کے دوران سانس نکلنے کا مطلب دونوں جہانوں میں سرخروئی ‘‘۔
لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی کہ اگر مقدر میں ہی نہ ہوتو کیا اعتدال اور علم کے ہوتے ہوئے بھی خود شناسی یا ربّ شناسی کی منزلیں طے کی جاسکیں،مغربی اکثریت نے تو یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ ’’سب کچھ مقدر، جو مقدرمیں ہو گا وہی ملے گا‘‘، جیسے 20ویں صدی کے نامور مفکر لارڈ برٹرینڈرسل نے کہا ’’ انسان مقدر کے سامنے بے بس ‘‘،نظریہ اضا فیت کا مصنف آئن اسٹائن بولا ’’ہر چیز متعین، پہلے سے ہی Fixed اورdetermined‘‘،چارلس ڈارون کہنے لگا ’’فطرت میںکوئی چیز آزاد نہیں ‘‘، جان ہاسپس کے مطابق ’’ کوئی چاہے جتنا بھی پہنچا ہوا لیکن وہ اگلے لمحے کو کنٹرول کرنے سے قاصر ‘‘، شوپنہار کا تجربہ بولے ’’ انسان اپنے ارادے میں آزاد نہیں‘‘ ، بلیک ہولز کے اصول دریافت کرنے والا مفلوج اسٹیفن ہاکنگ کا وجدان کہے ’’کائنات کے مالک نے جن اصولوں پر یہ کائنات بنائی اس میں مداخلت نہیں ہوسکتی اوریہ کہنا بہت ہی مشکل کہ ہم اپنے مقدر کے مالک خود ‘‘، جرمن فلاسفر Hubachاپنی بات یوں سمجھائے کہ ’’ انسان کا اختیار توایسا فر یب ِنظر کہ جیسے کار کے ہینڈل پر بیٹھی مکھی کہہ دے کہ کار کے موڑ میں کاٹ رہی ہوں‘‘اور اٹلی کے محقق لیپلاس کا نظریہ Scientific determinationبتائے کہ ’’کائنات کا ہرذرہ ،ہر واقعہ اور زمان ومکان کا ہر لمحہ طے ‘‘ ۔
مگر ہم اپنے مذہب کی طرف پلٹیں تو نبی ؐ سے پتا چلے کہ ’’ جب حضرت موسیٰ ؑاور حضرت آدم ؑ کی ملاقات ہوئی تو موسیٰ ؑ بولے ’’بابا غلطی آپ کی، سزا ہم بھگت رہے ، نہ آپ جنت سے نکلتے اور نہ جنت جہنم ہمارا مسئلہ ہوتا ‘‘ حضرت آدم ؑ جواب دیں ’’موسیٰ ؑ مجھے اُس بات کا گلہ کیوں دے رہے جو میری پیدائش سے 40برس پہلے میرے مقد ر میں میں لکھ دی گئی ‘‘ ،حضورؐ کا ہی فرمان کہ ’’ دنیا اور مخلوقات بنانے سے 50ہزار سال پہلے قلم نے جو لکھنا تھا لکھ دیا ‘‘اور پھر خداوند کریم کا یہ کہنا کہ ’’زمین پر کوئی ایسا ذی حیات نہیں کہ جسے ہم نے اس کے ماتھے سے تھام نہ رکھا ہو ‘‘ یعنی ہر ایک کا ریموٹ اللہ کے ہاتھ میں ،تو اس سے ثابت یہ ہو اکہ کافی کچھ پہلے سے ہی determined، لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی ،بہت کچھ اپنے پاس رکھ کر بھی اللہ نے کافی کچھ انسان کو بھی دیا، جیسے سورہ الدھر میں اللہ تعالیٰ فرمائیں ’’چاہو تو مجھے مانو ،چاہو تو میرا انکار کر دو‘‘ یعنی انسان بے اختیار نہیں ، پھر جہاں صحبت ِصالح ، اچھا استاد اور مرشد خودشناسی کی منزلیں طے کروا سکے وہاں ہمارے ہاں دعا کی بھی بہت اہمیت،اللہ اور رسولؐ بتائیں کہ ’’ رونے دھونے، گڑگڑانے اور مانگنے سے لکھا ہوابدل جائے ‘‘ ، جیسے مقدر تو یہ تھا کہ حضرت زکریا ؑ بے اولاد ہوں گے اوروہ100سال سے زیادہ عرصے تک بے اولاد رہے مگر مسلسل ہاتھ اُٹھائے ، سر جھکائے وہ مانگتے رہے ، ایک دن دعا قبول ہوئی ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ اے زکریا ؑ تیرے ہاں بیٹاہوگا ، اس کا نام یحییٰ رکھنا ‘‘۔ پھروہ دن بھی یاد رہے کہ جب زمین پر بار بار چھڑی مارتے نبی ؐ یہ فرمارہے تھے کہ ’’تم میں ہرایک کا ٹھکانہ لکھ دیا گیا ، خواہ وہ جنت ہو یا دوزخ ‘‘، سراقہ بن مالک ؓبولے ’’یارسولؐ اللہ کیا ہم تقدیر کے لکھے پر بھروسہ کرکے عمل کرنا چھوڑ دیں‘‘ آپؐ نے جواب دیا’’ نہیں عمل کئے جاؤ‘‘،آگے سنیے، حضرت امام جعفر صادق ؒ سے جب ایک شخص نے کہا ’’اگر میرے مقدر میں کچھ لکھ دیا گیا تو وہ ملے گا اور اگر نہیں لکھا تو وہ نہیں ملے گا، پھر میں کوشش کیوں کروں‘‘؟امام ؒ نے جواب دیا ’’ تو یہ کیوں نہیں سوچتا کہ ہو سکتا ہے کہ تیرے مقد ر میں یہ لکھ دیا گیا ہو کہ اگر تو کوشش کرے گا تو تجھے ملے گا ، کوشش نہیں کرے گا تو کچھ نہیں ملے گا ‘‘،لہٰذا دوستو! اعتدال ، علم ، دعا اور مسلسل کوشش کو زندگی کا مقصد بنالو کیونکہ جب خالقِ کائنات نے کہہ دیا کہ ’’ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤ ں ، اس لئے میں نے مخلوق کو پیدا کیا‘‘ اور جب یہ بتادیا گیا کہ ’’رب شناسی، خود شناسی کے بغیر ناممکن ‘‘تو پھر میں کون ،میں یہاں کیوں آیا اور میرا خالق کون،یہ سب منزلیں تبھی طے ہوں گی جب اعتدال ،علم ، دعا اور مسلسل کوشش ہماری زندگیوں کا حصہ بن جائے گا ۔

.
تازہ ترین