• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب میں ارشاد ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا، یعنی اِسے بہترین صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ اِس کی فطرت میں اجتماعی شعور بھی ہے اور گفتگو کرنے کا زبردست مادہ بھی۔ اِس کے اندر برے اور بھلے میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور وہ اپنے اعمال میں آزاد بھی ہے، اِس لیے ہمارے آئین میں شہریوں کو آزادی کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا حق دیا گیا ہے اور وہ اپنی رائے کے حق میں اجتماعی تحریک بھی چلا سکتے ہیں۔ اِن بنیادی آزادیوں کے پہلو بہ پہلو ہمارے دستور نے کچھ پابندیاں بھی عائد کی ہیں تاکہ معاشرہ افراتفری سے محفوظ رہے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ارتقائی مراحل طے کرتا رہے۔ پاکستان کی تخلیق کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ ایک پُرامن سیاسی تحریک اور جمہوری عمل کا رہینِ منت ہے۔ حضرت قائداعظمؒ نے تمام تر جدوجہد قانونی دائرے میں رہتے ہوئے سرانجام دی تھی اور آخری مرحلے میں ڈائریکٹ ایکشن کا فیصلہ اُس وقت کیا جب برطانوی حکومت نے قانون اور انصاف کے دروازے بند کر دیے تھے۔ ڈائریکٹ ایکشن میں بھی مسلمان توڑ پھوڑ کی سیاست سے الگ تھلگ رہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بڑے نشیب و فراز آئے اور مختلف وقتوں میں سیاسی جماعتیں احتجاجی سیاست اختیار کرتی رہیں، مگر 1977ء کے اوائل میں اُٹھنے والی تحریک بہت ہمہ گیر اور کئی مہینوں پر محیط تھی۔ وزیراعظم بھٹو نے اپنے اقتدار کے پانچ سال گزرنے سے پہلے عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اُنہیں اپنی عوامی مقبولیت پر اِس قدر ناز تھا کہ اپنے آپ کو بلامقابلہ منتخب کرانے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے انتخابی حلقے لاڑکانہ میں اتنی دہشت پھیلائی کہ کسی کو اُن کے مدِمقابل اُمیدوار بننے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ پی این اے نے جماعت اسلامی کے امیر مولانا جان محمد عباسی کو ٹکٹ جاری کر دیا اور وہ اپنی نامزدگی کے کاغذات جمع کرانے سے پہلے ہی اغوا کر لیے گئے۔ حکومت کے زیرِ انتظام انتخابات منعقد ہوئے، اُن دنوں شناختی کارڈ کی پابندی تھی نہ ووٹروں کی فہرستوں میں تصاویر چسپاں کی جاتی تھیں، چنانچہ بڑے پیمانے پر جعلی ووٹ ڈالے گئے۔ پہلے انتخابی نتیجے کے اعلان سے اِس خدشے کو غیر معمولی تقویت ملی کہ نتائج پہلے ہی سے مرتب کر لیے گئے تھے۔ پہلا نتیجہ بلوچستان کے دوردراز علاقے خضدار سے آیا جس میں پیپلز پارٹی کے اُمیدوار نے ایک لاکھ کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے تھے۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے صوبائی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا جو تین روز بعد ہونے والے تھے۔ عوام نے پی این اے کی کال پر انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور پولنگ اسٹیشنز خالی پڑے رہے، لیکن رات کے وقت جو انتخابی نتائج نشر کیے گئے، اِن میں جیتنے والے اُمیدواروں کے ووٹ ستر اسی ہزار سے کم نہیں تھے۔ اِس کھلی دھاندلی کے خلاف پورے پاکستان میں زبردست تحریک اُٹھی۔ بھٹو صاحب دوبارہ انتخابات کرانے پر شدید دباؤ کے تحت رضامند ہو گئے، مگر مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں غیر سنجیدہ نظر آئے۔ ملکی مشینری مفلوج تھی، طوائف الملوکی کا خطرہ منڈلا رہا تھا اور عوام اور حکومت کے درمیان جو خلا پیدا ہو گیا تھا، اِسے آخرکار فوج نے پُر کیا جس کے بطن سے ایک المناک واقعہ نے جنم لیا۔
تقریباً چھتیس برس بعد2013ء میں نگران حکومت کے زیرانتظام عام انتخابات منعقد ہوئے۔ اپوزیشن کی مشاورت سے ایک آزاد اور غیر جانب دار الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا۔ پہلی بار اِس امر کا اہتمام کیا گیا کہ انتخابی فہرستوں میں رائے دہندگان کی تصاویر بھی چسپاں ہوں تاکہ جعلی ووٹ کا دروازہ یکسر بند کر دیا جائے۔ اِن انتخابات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کے علاوہ تحریکِ انصاف نے بھرپور حصہ لیا۔ عمران خاں جنہوں نے انتخابات سے چند ماہ پہلے اپنی پارٹی کے اندر انتخابات کرا ڈالے، وہ انتشار کا شکار تھی اور خاں صاحب وزیراعظم بننے کا جو خواب دیکھ چکے تھے، انتخابی نتائج نے اِسے چکنا چور کر ڈالا۔ ایک سال بعد جناب عمران خاں اور ڈاکٹر طاہر القادری انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے اور دارالحکومت کا گھیراؤ کرنے لاہور سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ ہم لاکھوں کے جلو میں اسلام آباد میں داخل ہوں گے جبکہ اُن کے ہم نواؤں کی تعداد سینکڑوں تک محدود رہی اور خاں صاحب کو اٹھارہ گھنٹے گوجرانوالہ میں قیام کرنا پڑا۔ یہ دونوں قائدین چار ماہ سے زائد اسلام آباد میں کنٹینر کا ڈرامہ کھیلتے اور نظامِ حکومت تلپٹ کیے رہے۔ اُن کے حکم پر پارلیمنٹ ہاؤس کے مین گیٹ پر قبضہ کر لیا گیا۔ سپریم کورٹ جانے کے راستے بند کر دیئے گئے، وزیراعظم ہاؤس پر بار بار حملے ہوئے اور پی ٹی وی میں بلوائی داخل ہو گئے۔ اِن تمام غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں اور پارلیمان کا مشترکہ اجلاس جاری رہا۔ اِس اثنا میں تھرڈ ایمپائر نے انگلی اُٹھانے سے انکار کر دیا اور غبارے سے ہوا نکل گئی، مگر پاکستان کے امیج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ چین کے صدر پاکستان کے دورے پر آنے والے تھے، انہیں یہ دورہ مؤخر کرنا پڑا اور سی پیک کے معاہدے میں چھ ماہ کی تاخیر ہو گئی۔ سیاسی عدم استحکام سے نکلنے میں پاکستان کو طویل عرصہ لگا تھا۔
دو سال بعد عمران خاں کے ہاتھ میں تحریکِ احتساب اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ہاتھ میں تحریکِ قصاص کا سرا آ گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب راولپنڈی کی جانب روانہ ہوتے وقت بڑی ہذیانی کیفیت میں کہہ رہے تھے کہ احتجاج کرنا میرا آئینی حق ہے۔ اِس رات جو تقریریں ہوئیں اور شیخ رشید صاحب نے جو مطالبات کیے، وہ تو آئین کی بساط ہی لپیٹ دینے والے تھے۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کہ ایک عالمِ دین الزام تراشی کرتے ہوئے خوفِ اللہ سے یکسر خالی بھی ہو سکتا ہے۔ اُن کے جلسے میں حاضری بہت کم تھی اور اجنبی لوگ زیادہ تھے۔ اِن دونوں اصحاب کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے کہ وہ عوام کو قانون کے تحت قائم شدہ حکومت کا تختہ اُلٹنے پر اُکسا رہے ہیں۔ عمران خاں نے لاہور اور کراچی میں عوامی جلسوں سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کراچی کے جلسے کو ’جلسی‘ قرار دیا ہے جس میں انہوں نے 24ستمبر کو رائے ونڈ جانے کا اعلان کیا ہے۔
عمران خاں کی انتخابی طاقت میں جوں جوں کمی واقع ہو رہی ہے، توں توں اُن کی فرسٹریشن اور جھنجلاہٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اُن پر ایک جنونی کیفیت طاری ہے۔ رائے ونڈ فارم وزیراعظم کی رہائش گاہ ہے جہاں اُن کی والدہ رہتی ہیں، رہائش گاہوں کا محاصرہ کرنے سے بہت خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، پھر 24ستمبر کو وزیراعظم نیویارک میں جنرل اسمبلی میں مظلوم کشمیریوں کا مقدمہ پیش کر رہے ہوں گے۔ ایسے وقت اُن کی رہائش گاہ کے محاصرے سے پاکستان کے دشمن بہت خوش ہوں گے۔ سینئر سیاست دان جناب چوہدری شجاعت حسین کے مشورے پر انہیں اپنا فیصلہ واپس لے لینا اور رہائش گاہوں کے احترام کا اعلان کرنا چاہیے۔ انہیں یہ احساس بھی کرنا ہو گا کہ گالم گلوچ کی زبان سے سیاسی تہذیب پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور عوام کے اندر سیاسی رہنماؤں کی فہم و فراست کے بارے میں سنجیدہ سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ اُن کے آئے روز کے احتجاج سے کاروبارِ زندگی میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔ فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنی 6ستمبر کی تقریر میں قوم کو مژدہ سنایا ہے کہ آج پاکستان ناقابلِ تسخیر ہو چکا ہے اور سی پیک کی بروقت تعمیر سے اِس خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ انہوں نے قانون اور نظامِ انصاف میں دوررس اصلاحات اور قومی ایکشن پلان پر اِس کی روح کے مطابق عمل درآمد کو قومی فریضہ قرار دیا ہے۔ یہ قومی فریضہ سیاسی جماعتوں اور زعما سے بالغ نظری، سیاسی دانش مندی اور فکری وحدت کا تقاضا کرتا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے بڑے سلیقے سے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ فوجی ٹیک اوور کے بجائے نظامِ حکومت میں اصلاحات کے ذریعے حالات کو بہتر دیکھنے کے متمنی ہیں۔ خوش قسمتی سے حکومت ایک نئی توانائی کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانے اور عوام کے مسائل حل کرنے میں بڑی سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے اور سنگین جرائم اور کرپشن کی روک تھام کے لیے دوررس اصلاحات کے راستے پر گامزن ہے۔ اِس پر یہ بھی لازم آتا ہے کہ سیاسی مفاہمت کو فروغ دینے میں بردباری اور دانائی سے کام لیا جائے اور ملکی استحکام کو اوّلین اہمیت دی جائے۔

.
تازہ ترین