• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب پرویز مشرف وردی اتار چکے تھے اور جنرل کیانی نے آرمی کی کمان سنبھال لی تھی۔ جنرل طارق مجید کے گھر ڈنر سے تھوڑی دیر پہلے صدر مشرف ہاشوانی صاحب کو ایک طرف لے جا کر بولے’’فلاں خاتون کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے‘‘(وہ ملک کی ایک مشہور خاتون کی بات کر رہے تھے)۔خوبصورت ہے ،پڑھی لکھی ہے اور اچھے گھر کی ہے مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ہاشوانی صاحب نے مشرف سےکہا۔میں اُس سے شادی کرنا چاہتاہوں۔ مشرف دھیمی آواز میں بولے ۔مگر وہ تو پہلے ہی شادی شدہ ہے۔حیران ہاشوانی صاحب بولے۔ وہ اپنے میاں کو چھوڑ دےگی۔مشرف نے بڑےاطمینان سے جواب دیا ۔پھر دوستوں کے مشورے پر یہ شادی دو ماہ بعد طے پاگئی۔مگر مشرف مسائل میں گھرتے چلے گئے اور پھر ملائیشیا کے مہاتیر محمد کو استعفیٰ نہ دینے کی درخواستیں کرنے والے مشرف کو خود استعفیٰ دینا پڑ گیا اور اُدھر مشرف ایوان صد ر سے نکلے اُدھر یہ شادی کھٹائی میں پڑگئی (مشرف کے قریبی دوست اس کہانی کی پرزور تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی افواہیں اور کہانیاںہیںسچ نہیں) ۔ایک دن شوکت عزیز کا ذکر چھڑا تو ہاشوانی صاحب نے بتایا ’’مشرف کا ابتدائی دور تھا اور میرےخلاف کئی انکوائریاں کھل چکی تھیں۔مسٹر اینڈ مسز شوکت عزیزکے ساتھ نیویارک میں ان کے فلیٹ پر میں اور میری بیگم لنچ کر رہے تھے کہ شوکت عزیز نے کہا ’’صدرو اگر تم مشرف سے صلح کرنا چاہتے ہو تو ایک بلینک چیک کاٹ کردےدو‘‘۔ کیوں دوں چیک۔نہ میری کمائی حرام کی ہے اور نہ میں ڈاکو ہوں ۔تم بھی سن لو اور مشرف کو بھی بتادینا۔ ایک پیسہ نہیں دوں گا اور اگر لڑنا پڑا تو آخری سانس تک لڑوں گا۔ ہاشوانی صاحب کے جواب پر ہکا بکا رہ جانے والے شوکت عزیز نے بڑی ایمانداری سے ان کا یہ پیغام مشرف تک پہنچا دیا کیونکہ کچھ عرصہ بعد مشرف حکومت نے امریکہ میں ہاشوانی صاحب کے پیچھے پرائیویٹ جاسو س لگادیئے اور یوں 5ماہ بعد ہی انہیں اپنے 9ہوٹلوں کے شیئرز بیچ کر امریکہ سے نکلناپڑا۔چندسال پہلے ہاشوانی صاحب آئل اور ہوٹلنگ کے کاروبار کیلئے لیبیا گئے تو معمر قذافی سے ملاقات ہوئی اور پھرسب اُس وقت حیران رہ گئے جب کرخت،مغرور اور موڈی قذافی ہاشوانی صاحب سے نہ صرف بڑی گرمجوشی سے ملا ،انہیں اپنے پاس بٹھایا بلکہ سب کو نظر انداز کر کے تمام وقت ان سے ہی گفتگو کرتا رہا۔ یہی نہیں اس کے بعد ہاشوانی صاحب جب بھی لیبیا گئے،معمر قذافی کی گرم جوشی بڑھتی گئی۔ایک عرصے بعدیہ راز کھلا کہ معمر قذافی کا پسندیدہ اداکار انتھونی کو ئین ہے ( جو قذافی کی اسپانسرڈ فلم ’’لائن آف ڈیزرٹ‘‘ میں کام کرنے سےپہلے عرب ثقافت سیکھنے کیلئے قذافی کا مہمان بھی رہا ) اور چونکہ ہاشوانی صاحب کی انتھونی کوئین سے مشابہت ہے۔ اس لئے کرنل قذافی ان سے خصوصی برتاؤ کرتے ہیں۔ مگر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ہاشوانی صاحب موڈ میں ہوں تو نہ صرف خود بھی بہت اچھا گا لیتے ہیں بلکہ فن کے قدردان ہیں ،خفیہ طور پر فن کاروں کی مدد کرتے رہتے ہیں بلکہ ان کی پکی یاریاں بھی فنکار برادری سے ہی ہیں۔ ایک دن بتانے لگے ایک پارسی لڑکی کی محبت میں’’ جب سے تو نے دیوانہ بنا رکھا ہے ‘‘ جیسی غزل کے خالق حکیم ناصرمرحوم ملکہ ترنم نو رجہاں کو لے کر ان کے گھر آگئے ۔ ہاشوانی صاحب میڈم کے اصرار پر انہیں یہاں لایا ہوں۔ آج شام کی چائے آپ کے ساتھ پینا چاہتی ہیں ۔ حکیم ناصر نے آنے کا مدعا بیان کیا۔ ہاشوانی صاحب دنیا ہماری فین ہے اور ہمیں آپ پسند ہیں ۔ آپ توجہ ہی نہیں دیتے ۔ میڈم نورجہاں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھو ں میں لے کر جب یہ کہا تو ہاشوانی صاحب نے میڈم کو اپنی ماں کے پاس بیٹھا کر چائے لانے کے بہانے وہاں سے نکلنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ ایک شام واک کرتے ہوئے ہاشوانی صاحب نے بتایا کہ’’میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ایک دوست نے دعوت کی۔وہاں ایک نوجوان نے بہت عمدہ اور برجستہ مزاح پیش کیا ۔ جبکہ ایک دوسرے شخص نے بڑی سریلی آواز میں گایا ۔ مزاحیہ خاکے پیش کرنے والے سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ اُس کا نام معین اختر ہے۔آج کل بے روزگار ہے لیکن سر پر آرٹسٹ بننے کا جنون سوار ہے جبکہ گلوکار کانام اخلاق احمد ہے اوروہ گلوکاری میں قسمت آزمائی کے ساتھ ساتھ ان دنوں کراچی کے ایک باز ار میں سڑک کے کنارے کپڑا بچھا کر سبزیاں بیچتا ہے ۔میں نے دونوں کو اگلے دن اپنے دفتر بلایا۔ انہیں بہت اچھی تنخواہ پر نوکریاں دیں ۔ ان کے اپنے ہوٹلوں میں شو رکھے اور پرائیویٹ شوز کے ساتھ ساتھ ان کو ٹیلی ویژن پر بھی کام لے کر دیااور پھر کچھ عرصے میں ہی معین اختر اور اخلاق احمد کی وہ زندگی شروع ہوئی جس میں عزت،شہرت اوردولت سمیت سب کچھ تھا‘‘۔ایک دوپہر مصوری پر بات ہورہی تھی تو اُنہوں نے یہ واقعہ سنایا ’’ایک دن صبح صبح ملازم نے آکر بتایا کہ کوئی آدمی آپ سے ملنا چاہتا ہے مگر اپنا نام نہیں بتارہا ‘‘۔ میں گھر سے باہر آیا تو تین یا چار پینٹنگز اٹھائے ایک پریشان حال شخص نظر آیا ۔ جی فرمائیں ۔ہاتھ ملانے کے بعد میں نے پوچھا۔آپ میری پینٹنگز لے لیں اور مجھے 5سو روپے دیدیں ۔ اس نے کہا ۔ آپ ان 5سو روپوں کا کیا کریں گے ۔میں نے پوچھا ۔فرنچ ایمبیسی میں ویزے کیلئے انٹرویو دیا ہے۔اب ویزا فیس جمع کروانی ہے۔ وہ شخص بولا۔آپ پیسے لے لیں مگر پینٹنگز اپنے پاس ہی رکھیں۔ہاں کل آئیں ،میں اپنے ہوٹلوں کیلئے آپ سے پینٹنگز خریدوں گا۔میں نے 5سو روپے دیتے ہوئے اُسے کہا ۔ اوریوں پاکستان کے نامور مصور اقبال مہدی (مصوری کے بے تاج بادشاہ صادقین کے کزن ) سے میری پہلی ملاقات ہوئی جو بعد میں دوستی میں تبدیل ہوگئی‘‘۔
ہاشوانی صاحب سناتے ہیں کہ ’’اقبال مہدی کے بار بار کہنے پر ایک دن میں اُس کے گھر چائے پینے گیا تو وہاں اُس کی بیگم سے ملاقات ہوئی ۔ہاشوانی صاحب میں بہت دکھی ہوں ۔میر ی زندگی بھی کوئی زندگی ہے ۔پیسے پیسے کو ترستی رہتی ہوں اور یہ منحوس بس تصویریں ہی بناتا رہتا ہے ‘‘۔ چائے بناتی مسز اقبال مہدی نے اپنی بات مکمل ہی کی تھی کہ مجھے غصہ آگیا ’’ کیا کہا تم نے۔ تم نے اقبال مہدی جیسے فقیر اور درویش کو منحوس کہا ۔ یہ کہہ کر میں اٹھا اور ایک زور دار تھپڑ مسز مہدی کے منہ پر دے مارا ۔تھپڑ لگنے کی دیرتھی کہ اقبال مہدی رونے لگ گئے ۔ہاشوانی صاحب یہ روزانہ مجھے گا لیاں دیتی ہے،مارتی ہے اور اکثر مجھے ساری ساری رات گھر سے باہر گزارنا پڑتی ہے۔ روتے اقبال مہدی نے بتایا۔اب یہ ایسا کرے گی تو میں اس کے ٹکڑے کروا کر نالے میں پھینکوا دوں گا۔میں انتہائی اونچی آواز میں بولا اور پھر اس ایک تھپڑ اور دھمکی نے اقبال مہدی کےگھر کے حالات درست کر دیئے جبکہ ہاشوانی صاحب نے اقبال مہدی کو اتنا پروجیکٹ کیا کہ مالی طور پر بھی وہ مستحکم ہوگئے ۔ آج پاکستان اوربھارت میں یکساں مقبول علی ظفر جب انتہائی مشکل اورگمنامی کے دور میں گلوکاری اور مصوری ساتھ ساتھ کیا کرتے تھے تو ہاشوانی صاحب نے اپنے لاہور اور مری کے ہوٹلوں میں ایک عرصے تک اُنہیں نہ صرف مفت رہائش دیئے رکھی بلکہ مصوری کیلئے باقاعدہ جگہ بھی بنا کردی ۔ یہ تو چند قصے اور کہانیاں ہیں۔ ایسی سینکڑوں مثالیں اور بھی ہیں۔ لیکن ہاشو ہاؤس پر اکیلے ہاشوانی صاحب کو ’’میں یار دی گھڑولی بھر دی‘‘سناتی عابدہ پروین ہوں یا میز کو طبلہ بنا کر اپنی آنے والی غزلیں گنگناتے غلام علی ہوں۔پلیٹ اور چمچے کے ساز پر ’’تیرے رنگ رنگ ‘‘ گاتے ابرارالحق ہوں یا اپنی ماں کے گانے سناتی ظل ہما ہوں ،دلیپ کمار اور شتروگہن سنہا کی محفلیں ہوں یا گزرے کل میں نصرت فتح علی خاں او رمہدی حسن کی مجلسیں ہوں،میں نے ہاشوانی صاحب کو جتنا خوش اور پرجوش فنکار برادری میں دیکھا ،کہیں اور نہیں دیکھا۔پاکستان کو اپنی پہلی اور آخری محبت قرار دینے اور ہرپریشانی کا ڈر کر نہیں ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے ہاشوانی صاحب کے بارے میں معین اخترمرحوم کا کہا ہوا یہ جملہ مجھے آج بھی یاد ہے ۔’’اگر مشکل وقت میں ہاشوانی صاحب آنسو نہ پونچھتے تو معین اختر لاکھوں لوگوں کو کبھی ہنسا نہ پاتا ‘‘۔
تازہ ترین