• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اِندر سبھا اردو کا پہلا مکمل ڈرامہ ہے۔ روایت ہے کہ آغا حسن امانت سے یہ ڈرامہ نواب واجد علی شاہ نے لکھوایا تھا۔ تاہم اردو ڈرامے کو اوجِ کمال تک لے جانے کا کریڈٹ آغا حشر کاشمیری کو جاتا ہے۔ حشر کاشمیری بنارس میں پیدا ہوئے۔ ڈرامہ نگاری کا شوق بمبئی لے گیا جہاں پارسی کمپنیاں سٹیج کی دنیا آباد کئے تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ حشر کاشمیری ڈرامے کی دنیا پر چھا گئے۔ ہر طرف ان کا شہرہ تھا۔ کلکتہ لاہور جہاں بھی گئے، ظفریابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ اپنی تھیٹر کمپنیاں بھی بنائیں۔ رستم و سہراب، اسیرِ حرص، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، یہودی کی لڑکی، خوبصورت بلا اور سفید خون آغا حشر کاشمیری کے مشہور ڈرامے ہیں۔ وہ اردو کے شیکسپیئر کہلائے۔ بے شمار تحقیقی مقالے ان کے فن اور شخصیت پر لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں۔ ذاتی زندگی میں حشر کاشمیری دلچسپ تھے اور مجموعۂ اضداد بھی۔ گالیاں بہت دیتے تھے۔ فریدہ خانم کی بہن مختار بیگم سے شادی کی۔ مختار بیگم کو انہوں نے جس انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا، وہ بہت مشہور ہوا۔ ’’میں ساری زندگی اپنے آپ کو مصرع سمجھتا رہا۔ تمہارے ملنے سے شعر بن گیا ہوں‘‘ مشہور فلم سٹار رانی کی پرورش مختار بیگم نے کی تھی۔ یہ ایک دلچسپ اور سبق آموز داستان ہے جس کی تفصیل پھر کبھی!
شیکسپیئر سے لے کر اندر سبھا تک، نواب واجد علی شاہ سے لے کر آغا حشر کاشمیری تک اور بمبئی کی پارسی ڈرامہ کمپنیوں سے لے کر لاہور کے الحمرا ہال تک__ ڈرامے نے خوب ترقی کی۔ طربیہ (کامیڈی) تھا یا المیہ (ٹریجڈی) ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ کروڑوں ناظرین محظوظ ہوئے، روئے، قہقہے لگائے، سٹیج نے دنیا کے غم غلط کرنے میں خلق خدا کی دستگیری کی یہاں تک کہ 2014ء کے نومبر کا 23واں دن آیا اور ڈرامے کی تاریخ نے وہ موڑ لیا کہ مارے حیرت کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ شیکسپیئر نے قبر میں کروٹوں پر کروٹیں لیں۔ واجد علی شاہ کو مصفّٰی بیگم اور مٹیا برج سب کچھ بھول گیا۔ آغا حشر پکار اُٹھے ؎
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو! ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے
23نومبر 2014ء کو ڈرامے کے فن او رتاریخ کے ساتھ کیا ہوا؟ لیکن ٹھہریئے ! پہلے ایک اور داستان!
یہ 8جون 2014ء کی رات تھی۔ کراچی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر دس دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ وہ جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے اور ایئر پورٹ سکیورٹی فورس کی وردیوں میں ملبوس! حملہ اس لحاظ سے ناکام ہوا کہ وہ اپنا ٹارگٹ حاصل نہ کر سکے اور سارے کے سارے مارے گئے لیکن دہشت کی اس لہر نے ہیبت کی چادر پورے ملک پر تان دی۔ 36افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ان میں پی آئی اے کے ملازم بھی تھے، سکیورٹی فورس کے بھی، رینجرز کے بھی، سندھ پولیس کے بھی۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ حملہ آور ازبک تھے۔ طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ دس جون سے وہ پاکستانی ریاست کے خلاف مکمل جنگ کا آغاز کریں گے۔ دس جون کو افواجِ پاکستان نے قبائلی علاقے میں واقع تیراہ وادی پر حملہ کر کے شدت پسندوں کی نوکمین گاہیں تباہ کر دیں۔ یہ علاقے ایک عرصہ سے غیر ملکیوں کی آماجگاہ تھے جنہیں مقامی جنگجوئوں نے اپنی پناہ میں لے رکھا تھا۔ 15؍ جون کو جب مسلح افواج نے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تو اس سے پہلے اتمامِ حجت کی تمام چوٹیوں پر سفید پرچم لہرایا جا چکا تھا۔ پاکستانی ریاست نے سالہا سال صبر کیا، مذاکرات کیے اور ہر وہ ممکن تدبیر آزمائی جس سے کشت و خون کا دروازہ بند ہو۔ اس عرصہ میں ملک یرغمال بنا رہا۔ خودکش حملے روزمرہ کا معمول تھے۔ دھماکوں کے عالمی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ مسجدیں، مزار، اسکول، بازار، کچھ بھی محفوظ نہ تھا۔ ہزاروں فوجی جوان شہید ہوئے۔ یہ کہانیاں بھی سامنے آتیں کہ سول آبادی کو ہر روز کہیں نہ کہیں بھونا گیااور عورتوں کے پرخچے اڑائے گئے۔ معصوم بچوں کو چنگیز خان کے زمانے میں نیزوں پر پرویا جاتا تھا، یہ داستان بھی سنی گئی کہ اب بموں کے سلگتے فولادی ٹکڑے ان کے جسموں سے گزارے جا رہے تھے۔ مزدور، عام شہری، زندگی کی گزرگاہ پر چلنے والے معصوم مسافر __جن کا کسی جنگ سے تعلق تھا نہ کسی پالیسی سے نہ کسی ایکشن سے، موت کے گھاٹ اتارے جا رہے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ بھی سنا گیا کہ قبروں سے لاشیں نکال کر درختوں پر لٹکا دی جاتی تھیں، تعلیمی ادارے خاکستر میں بدل دیئے جاتے تھے، ہر گلی پھانسی گھاٹ تھی۔ ہر کوچہ مقتل تھا۔ ہر دروازہ موت کی جانب کھل رہا تھا۔ آسمان نظر آنا بند ہو گیا تھا۔ خون کی چادر نے اوزون کی تہہ کو ڈھانپ دیاتھا۔
آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا تو کوئی دن ایسا نہ تھا کہ اسلحہ ساز فیکٹریاں نہ پکڑی گئی ہوں۔ تہہ خانوں کے تہہ خانے خود کش جیکٹوں سے بھرے نکلے۔ میران شاہ میں وہ چوک بھی تھا جسے پھانسی چوک کہا جاتا تھا۔ پہلے حجاموں کو مار مار کر بھگا دیا گیا۔ اب ہزاروں ’’مجاہدین‘‘ لمبے بال اور داڑھیاں صاف کرانے کے لیے منہ مانگے دام دے رہے تھے۔ ملکی اور غیر ملکی شدت پسندوں کے سینکڑوں ٹھکانے ختم کیے گئے۔ لاکھوں ایکڑ پاکستانی زمین جنگجوئوں سے واگزار کرائی گئی۔
آپریشن ضربِ عضب پاکستانی ریاست کی شدت پسندوں سے جنگ ہے۔ یہ ریاست کو تسلیم کرتے ہیں نہ ریاست کے آئین کو۔ ریاست کی مسلح افواج کو وہ کھلم کھلا دشمن نمبر ایک کہتے ہیں۔ یہ آپریشن ریاست کی رِٹ کا آپریشن ہے جیسا کہ ہر جنگ میں ہوتا ہے، اس میں بھی آبادی متاثر ہوئی۔ لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکلنا پڑا۔ متاثرین کو بنوں اور نواحی علاقوں میں رکھنے کے ہر ممکن انتظامات کیے گئے۔ تمام ممکنہ وسائل وقف کیے گئے۔ وزیر اعظم سے لیکر عمران خان تک اور سینئر ترین عسکری کمانڈروں سے لیکر پنجاب کے وزیر اعلیٰ تک ہر اہم شخصیت متاثرین کی خدمت میں بنفس نفیس حاضر ہوئی۔ انتظامات کے جائزے لیے گئے۔ کوتاہیوں کی نشاندہی اور تلافی کی گئی۔ تمام تکلیفوں کے باوجود متاثرین کو احساس ہے کہ یہ آپریشن انکے اور ان کے بچوں کے مستقبل کے لیے کیا گیا ہے۔ انکے گھروں پر چھائی ہوئی دہشت گردی کا صفایا کر کے انہیں دوبارہ سبز ہلالی پرچم تلے لایا جا رہا ہے!
یہ ہے وہ آپریشن ضربِ عضب جسے ایک مذہبی سیاسی جماعت کے مدارالمہام نے 23؍ نومبر کے دن لاہور کے جلسے میں ڈرامہ قراردیا۔ 24؍ نومبر کے تمام اخبارات میں جلی ترین سرخی ایک ہی تھی __ ’’آپریشن کا ڈرامہ ختم کر کے آئی ڈی پیز کو فوراً واپس گھروں کو بھیجا جائے۔‘‘
دوسری جنگ عظیم کے لیے مغربی پنجاب میں بھرتی شروع ہوئی۔ بوڑھے کسان نے کہ کھدر کے کرتے اور کھدر کے تہمد میں ملبوس تھا، پوچھا میرے بیٹے کو لام کے لیے بھرتی کر رہے ہیں۔ یہ لام وہ کس کے ساتھ لڑے گا۔ اسے بتایا گیا کہ جرمنی میں ایک شخص ہٹلر نامی ہے جس نے سارے یورپ میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ کسان رو پڑا ’’ہٹلر بہت سخت آدمی ہے۔ بیٹا بھی میرا سخت ہے۔ ان کا آمنا سامنا ہوا تو کیا ہو گا‘‘ اب پاکستانی ریاست اور مسلح افواج کے لیے یہ آسان مقام نہیں! ایک طرف شدت پسند ہیں اور دوسری طرف اس مذہبی سیاسی جماعت کے دبنگ رہنما۔ ہر طرف ڈاہڈے لوگ ہیں۔ اب تو یہ بھی اعلان ہو گیا ہے کہ مزدور کے بیٹے کو امیر بنایا گیا ہے۔ ادھر علامہ اقبال کو دیکھیے کہ ہرنازک موقع پر بول اٹھتے ہیں؎
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
تعجب نہیں اگر کسے اگلے جلسۂ عام میں کلامِ اقبال کو یا اقبال کے خواب کو بھی ڈرامہ قرار دے دیا جائے اور اس نکتۂ خطابت پر واہ واہ کے ڈونگرے بھی برسائے جائیں۔
بہرطور اب اس سیاپے کا حل ایک ہی ہے، الحمرا لاہور کے ڈرامہ ہال میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہو، ریاست کے زعما اور افواج کی کمان شریک ہوں۔
ڈرامے کے فن پر تحقیق کرنے والے سکالر اور اسٹیج پر ڈرامہ دکھانے والے فنکار بھی موجود ہوں۔ صدارت اس عہد ساز اجلاس کی حضرت صاحب ہی فرمائیں۔ اس میں یہ فیصلہ صادر کیا جائے کہ دنیا بھر میں ڈرامے کے موضوع پر جس قدر تصانیف ہیں، ان میں اس آپریشن کا ڈرامے کے طور پر اندراج کیا جائے۔
بس ایک ذرا سا کام اس عظیم الشان تاریخ شکن فیصلے سے پہلے کرنا ہو گا۔ آپریشن ضربِ عضب میں عساکرِ پاکستان کے جو سورما شہید ہوئے ہیں، اُن کے گھروں میں جانا ہو گا۔ ان کی مائیں قرآن پاک کی تلاوت کر رہی ہیں اور آنسو مقدس صفحات کو چوم رہے ہیں۔ ان کی بیوائیں صبر کی چٹانیں بنیں، دعائوں میں مصروف ہیں کہ شہیدوں کے بیٹوں کو بھی شہادت ہی کے راستے پر گامزن کریں۔ ان کے بوڑھے سفید ریش باپ لاٹھیاں ٹیکتے مسجدوں کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے پھول سے چہروں والے بچے، تمتماتے رخساروں کے ساتھ، ارضِ وطن پر قربان ہونے والے باپ پر فخر کر رہے ہیں۔ بس ذرا اِن شہداء کے پس ماندگان سے اس امر کی اجازت لینا ہو گی کہ جس معرکے میں ان کے پیارے شہید ہوئے ہیں، کیا آگ اور خون کے اس معرکے کو ڈرامہ قرار دے دیا جائے؟
بہ جرم عشق تو ام می کشند و غوغائی ست
تو نیز بر لبِ بام آ کہ خوش تماشائی ست
تازہ ترین