• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کی سیاسی صورتحال بدستور تغیر پذیر ہے۔ ایک جانب 30نومبر نزاع کا باعث بنا ہوا تھا جو ایک اور پروگرام اور نئی تاریخ کے اعلان کے ساتھ گزر گیاپلان سی سامنے آچکا ہے جس کے تحت بڑے شہروں کو بند کرنے کی حکمت عملی سامنے لائی گئی ہے تو دوسری جانب آرٹیکل 6کے تحت پرویز مشرف پر چلنے والے مقدمے نے بھی ایک نئی کروٹ لی ہے۔ فاضل بینچ نے وفاق پاکستان کو یہ حکم دیا ہے کہ 15روز کے اندر اندر نیا استغاثہ داخل کیا جائے جس میں سابق متنازعہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو بھی بحیثیت ملزم شامل کیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقِ پاکستان یا باالفاظِ دیگر پاکستان مسلم لیگ (ن) یہ استغاثہ دوبارہ داخل کرتی ہے یا نہیں۔ یہ فیصلہ پاکستان کی سیاست میں دو ر رس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ اب تک یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ موجودہ سیاسی ہلچل کے پیچھے ایسے مقاصد بھی کارفرما تھے جن کے ذریعے سے اس مقدمے کو ختم کرایا جاسکے۔ اگر ایسا ہے تو فاضل بینچ کے فیصلے اور PTI کی ایک اور مہم کی ٹائمنگ بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر یہ اتفاق ہے تو بڑا خوبصورت اتفاق ہے۔
ان تمام مباحث سے قطع نظر ہمارے پیش نظر پاکستان کا استحکام، اس میں موجود جمہوری عمل کا تسلسل ہونا چاہئے۔ عمران خان جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں لیکن یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ ان کی تحریک سے جمہوری قوتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جو مطالبات وہ کرتے رہے ہیں، اس سے انکار نہیں کہ وہ درست ہیں اور مناسب فورم پر انہیں زیر غور لانا ضروری ہے لیکن اس کا جو طریقہ تحریک انصاف نے اختیار کیا ہے وہ درست نہیں۔ اس پر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا اجماع نظرآتا ہے۔ راقم نے اپنے گزشتہ مضامین میں عمران خان کی تحریک پر اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ 2013ء کے عام انتخابات سے جو توقعات عمران خان کو وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اور جو مینڈیٹ انہیں ملا اسے متحد رکھنا ان کے لئے مشکل ہوگا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران یہ بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ 90دن میں کرپشن ختم کردیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کرا دئیے جائیں گے۔مگر وہ اس مختصر سے مینڈیٹ کے ساتھ یہ اہداف حاصل نہیں کرسکتے تھے لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ برقرار رہے اور ان کے حمایتی ان کے پرچم تلے متحد رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب تحمل کا دامن چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئےہیں اور وہ احتجاج کے ذریعے سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے حمایتیوںاور ووٹروں کو یکجا رکھیں۔ ان کا 100روز سے زائد جاری رہنے والا دھرنا اب شاید اپنی افادیت کھو چکا ہے اس لئے اب وہ جلسوں کی ایک سیریز مکمل کرکے 30نومبر کو اپنی اس مہم کو ختم کرکے ایک اور نئی مہم کا آغاز کرتے ہوئے اپنے حمایتی ووٹرز کے اندر نئی روح پھونکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بعض مبصرین کی رائے میں انکے لئے بہتر یہ تھا کہ وہ نیا پاکستان بنانے کے بجائے نیا خیبر پختونخوا بنا کر عوام کو رول ماڈل پیش کرکے اگلے انتخابات میں نیا سنگ میل حاصل کرکے اپنے نئے اہداف مقرر کرتے۔ اگر ہمارے ہاں رسہ کشی پر مبنی وقتی سیاست جاری رہی تو اس سےنہ صرف نظام کو استحکام نصیب نہیں ہوسکے گابلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو مشکلات کا سامنا رہے گا۔بھارت مسئلہ کشمیر کے حل میں تاخیری حربے استعمال کرتا رہتا ہے اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ پاکستان کا اندرونی نظام مسلسل کسی نہ کسی وجہ سے عدم استحکام کا شکار رہتا ہے اور وہ مضبوطی کے ساتھ اپنے مؤقف کو آگے بڑھانے میں ناکام رہتا ہے۔ ہماری اس کمزوری کی وجہ سے ہی خارجی وداخلی دونوں محاذوں پر ہمارے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔
داخلی سطح پر دیکھیں توبہت سے ایسے معاملات ہیں جن پر ہم اتفاقِ رائے پیدا نہیں کر پائے۔ سرفہرست آبی ذخائر کی تعمیر، نئے صوبوں کا قیام، وسائل کی تقسیم جیسے معاملات نظر آتے ہیں۔ یہ تو بہت بڑے مسائل ہیں، گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے رہنما پیر مظہر الحق نے ایک عجیب و غریب بیان دے ڈالا ۔ موصوف فرماتے ہیں کہ حیدر آباد میں یونیورسٹی اس لئے قائم نہ کی گئی کہ اس سے اُردو بولنے والے مہاجر مستفید ہوتے اور وہ اس ادارے کو قائم نہیں ہونے دیں گے اگر اس سوچ کو مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کی پالیسی سمجھ لیا جائے تو یہ بڑی تباہ کن سوچ ہوسکتی ہے۔ دنیا بھرمیں یہ مسلمہ اصول ہے کہ تعلیم ، صحت اور امن وا مان کے اہداف خیرات اور بھیک پر حاصل نہیں کئے جاسکتے بلکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تعلیمی ادارے ہوں یا علاج معالجے کے مراکز ، یہ ریاست کے کمائو ادارے نہیں ہوتے بلکہ حکومت خسارے میں جا کر بھی ان اداروں پر خرچ کرتی ہے اوریہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد جو ہنوز جامعہ حیدر آباد سے محروم ہے۔ اس میں ایک جدید یونیورسٹی قائم کی جاتی جس میں ہر زبان اور نسل کا پاکستانی تعلیم حاصل کرسکتا لیکن افسوس ، کہ سندھ کے فرزندہونے کے دعویداروں نے اپنی ذمہ داریوں سے نہ صرف پہلو تہی کی ہے بلکہ اس معاملے کو لسانیت اور تعصب کی بھینٹ چڑھا کر سندھ کے اس نعرے کی بھی نفی کردی ہے کہ یہ محبت کی سرزمین ہے۔ وہ اپنے قدیم ہونے پر تو فخر کرتے ہیں لیکن اپنی مبینہ روایات سے انحراف کرکے ہم نے کونسی انسان دوستی، ملک دوستی اور سندھ دوستی کا ثبوت دیا ہے؟ بہرحال۔ نجی شعبے کے تحت کراچی اور حیدر آباد میں یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان یہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن اس کے بعد بھی ریاست اور صوبوں کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان کے ہر شہری کو تعلیم، علاج معالجہ اور تحفظ فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ پیر مظہر کے مذکورہ بیان کے بعد پیپلز پارٹی بھی اپنی پالیسی کو واضح کرے کہ آیا وہ پیر صاحب سے اتفاق کرتی ہے یا اظہار لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ کہاں کون علم حاصل کرے گا، ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پاکستان کی دیگر جامعات میں ملک بھر کے طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرر ہے ہیں اور وہاں ایسی کوئی تفریق موجو دنہیں۔ جامعہ کراچی، جامعہ پنجاب، سندھ یونیورسٹی اس کی مثال ہیں۔ لہٰذا سستی اور مثالی تعلیم کے حصول کے لئے حکومت سندھ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اس دعوے کے مطابق جو سندھ کے باسیوں کا ہے کہ یہ محبت کی سرزمین ہے ،ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ دھرتی محبت کی دھرتی ہے۔ ہم آہنگی کے متلاشی دانشوروں کو بھی چاہئے کہ وہ متعصب رہنمائوں کے بیانات کا جائزہ لے کر یہ فیصلہ کریں کہ ہم آہنگی کا دشمن کون ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جوموسم کے ساتھ اپنے لہجے بھی بدل لیتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پرغو کریں کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے جس قوم کی تشکیل کی تھی، اس کا احیاء کیسے ممکن ہے۔
تازہ ترین