• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایوان صدر کے ہال میں جمع افراد میں سے متعدد کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں جس تقریب میں شرکت کے لئے بلایا گیا ہے اس کی نوعیت کیا ہے۔ شرکاء میں اکثریت غیر ملکیوں کی تھی جس سے اندازے لگائےجارہے تھے کہ شاید غیر ملکی سفارتکاروں کے اعزاز میں عشائیہ دے کر صدر ممنون حسین نے اپنے لئے مصروفیت کا کوئی عذر تراشا ہے۔ یہ تو بھلا ہو صدر کے معتمد خاص فارق عادل کا جنہوں نے سینیٹر مشاہد اللہ کے استفسار پر یہ تشنگی دور کر دی کہ ؛ای نائن ؛ممالک کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی ہے۔ یہ بھی پوچھ ہی لیا گیا کہ یہ ای نائن کس چڑیا کا نام ہے۔ وضاحت مل گئی تاہم سیانے درست کہتے ہیں کہ لاعلمی بھی ایک نعمت ہے۔ جومعلومات حاصل ہوئیں وہ سر شرم سے جھکانے کیلئے کافی تھیں۔ ای نائن میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے وہ9ممالک شامل ہیں جہاں دنیا کی70فیصد آبادی رہائش پزیر ہے۔ اس آبادی کا70 فیصد حصہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا یعنی ناخواندہ ہے اسلئے ایجوکیشن کے ؛ای؛ سے ان ممالک کو ای نائن کا نام دیا گیا۔ان ممالک میں بنگلہ دیش،برازیل،چین، مصر بھارت، انڈونیشیا، میکسیکو، نائیجیریا اور پاکستان شامل ہیں۔ ان نو ممالک کی اکثریت مسلمان ہے جنہیں پہلا درس ہی اقراء کا دیا گیا ہے لیکن دنیا کے ان پڑھ نوجوانوں کے دو تہائی جبکہ درس گاہ میں نہ جانے والے کمسن بچوں میں سے پچاس فیصد ان ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اجتماع بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا کہ اپنے؛کرتوتوں؛ پر نظر ڈالی جائے لیکن احتجاج،دھرنے اور 30نومبر کے جلسے کے شور میں حکومت کو کہاں فرصت تھی کہ عوام کو تعلیم دینے سے متعلق اس طرح کی ؛عیاشی پر مبنی سرگرمی ؛ کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی۔ حکومتی وزراء اور رہنماؤں کے پاس تو سر کھجانے کا وقت نہیں ،وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے بیانات کا جواب دینے ،قوم کو ؛حقائق: سے آگاہ کرنے اور روشن پاکستان کی تشہیر کرنے میں اتنے مگن ہیں کہ انہیں اتنے ؛کم اہم؛ کاموں اور ؛کم فہم؛ لوگوں پر وقت صرف کرنے کا کہاں ہوش ہے۔ خان صاحب کنٹینر سے کچھ ارشاد فرماتے یں تو الفاظ ابھی ان کے منہ میں ہوتے ہیں اور لیگی وزراء اور رہنماؤں کی طرف سے رد عمل پر مبنی بیانات کی لائن لگ جاتی ہے۔ ہر وزیر دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ایک ایک دن میں چار چار حکومتی نمائندے پریس کانفرنسں کرتے ہیں اور پھر ہر کوئی اپنے بیان کی دوسرے سے زیادہ تشہیر کا طلبگار ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ چھاجھ تو چھاجھ یہاں تو چھلنیاں بھی بڑھ چڑھ کر بج رہی ہیں جن میں سو سو سوراخ ہیں۔ حکومتی ترجمانی کا عالم یہ ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات کے ساتھ اب اضافی طور پر ڈاکٹر مصدق ملک کو وزیر اعظم کا ترجمان مقرر کردیا گیا ہے۔ وزارت پانی و بجلی کے امور میں اپنے ؛جوہر؛ دکھانے کے بعد وہ اب اپنے حلقوں میں دعوے کر رہے ہیں کہ وہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان کی طرز پر وزیر اعظم ہاؤس کو بہترین؛ زبان؛ اور ؛انداز؛ عطا کریں گے۔ حکومتی صفوں میں ؛ترجمانی؛ کی اس کھینچا تانی میں ہر کوئی کسی ؛بڑے؛ کے زیادہ قریب ہونے کا تاثر دے رہا ہے۔ کسی کو ایک کی پشت پناہی کے باعث وزیر اعظم آفس میں وزیر اعظم سے ملحقہ کمرہ مل رہا ہے تو کوئی کسی دوسرے کی سفارش پر وزیر اعظم ہاؤس میں ڈیرے لگائے ہوئے ہے۔ سوشل میڈیا سیل کے نام پر ایک ممی ڈیڈی گروپ کے بھی مزے لگے ہوئے ہیں جو لاکھوں روپے تنخواہ سرکاری خزانے سے وصول کر رہے ہیں۔ادھر سالہا سال سے قربانیاں دینے اور پارٹی سے وفاداری کا دم بھرنے والے بعض ایسے رہنماءبھی ہیں جن کو ڈیڑھ سال سے وزارت کے ؛لاروں ؛پر ہی ٹرخایا جارہا ہے اور بعض اپوزیشن کے دور سے آج تک میڈیا سیکرٹریٹ میں انتھک محنت کرنے والے بے لوث کارکنان بھی ہیں کہ پارٹی قیادت کی آنکھیں اقتدار میں چکا چوند ہونے کے بعد تا حال ان کی طرف نہیں اٹھ سکیں۔ بے اعتنائی کی حد یہ ہے کہ پارٹی کے میڈیا سیکرٹریٹ کے غریب ملازمین کو آخری تنخواہ عید الاضحی پر دی گئی تھی،اس سے پہلے بھی میڈیا میں شور شرابے کے بعد عید الفطر پر تنخواہ ادا کی گئی تھی۔ چراغ تلے اندھیرے کا عالم یہ ہے مسلم لیگ ن کے پارٹی سیکرٹریٹ میں خدمات سر انجام دینے والے 13 میں سے 8ملازمین کی ماہانہ تنخواہ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ یعنی 12 ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ یہ ملازمین گزشتہ20سال سے پاکستان مسلم لیگ ن کا ؛دم؛ بھر رہے ہیں۔ پروفیشنلزم کی بات کی جائے تو تحریک انصاف کے کسی بھی بیان پر جواب آں غزل شروع کرنے والی حکومت کے پاس اس وقت نہ تو ایوان صدر میں کل وقتی پریس سیکرٹری ہے اور نہ ہی وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں۔ ایوان صدر میں تعینات خاتون ترجمان، سیکرٹری ٹو پریزیڈنٹ کے ساتھ اختلافات کے باعث دوسری جگہ پوسٹنگ کرواچکی ہیں جبکہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں غیر سرکاری طور پرجس جونیئر ڈی ایم جی افسر سے پریس سیکرٹری کا کام لیا جا رہا تھا وہ بھی واپس لاہور جانے کیلئے بے چین ہیں اور وزیر اعظم سے رخصت طلب کر چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جہاں حکومت کی میڈیا مینجمنٹ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہی وہاں یہ بھی سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ تعلیم کو فروغ دینے سے متعلق ؛ای نائن؛ ممالک کا بین الوزارتی اجلاس کیوں اتنا غیر اہم تھا کہ اس کیلئے ایک نیوز کانفرنس کرنا تو درکنار ایک بیان دینا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ تعلیم کے فروغ کا ادارہ یونیسکو زیادہ آبادی والے پاکستان جیسے نو ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ مجموعی قومی آمدنی کا کم از کم چھ فیصد تعلیم پر خرچ کریں اور تعلیم سب کیلئے ہدف کے تحت آئندہ سال تک ہر بچے کو اسکے بنیادی حق یعنی تعلیم کے حصول کیلئے اسکول بھیجیں۔ لیکن کتنی بدقسمتی اور لمحہ فکریہ ہے کہ ان نو ممالک کیلئے طے کردہ اہداف پر پورا اترنے میں بھی ہم بری طرح ناکام رہے ہیں۔ جی ڈی پی کا صرف دو فیصد تعلیم پر صرف کرنے کی صورت میں انتہائی پسماندہ ملک نائیجیریا کے بعد ؛ای نائن؛ ممالک میں پاکستان کا نمبر ہے جہاں آج بھی پرائمری سطح پر بچوں کے اسکولوں میں داخلے کی شرح صرف 68 فیصد ہے،نائیجیریا میں یہ شرح 58 فیصد جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں 99 فیصد ہے۔ یونیسکو نے یہاں تک بھی کہہ دیا ہے کہ باربار کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان آئندہ سال تک بھی تعلیم کے فروغ کیلئے دئیے گئے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہیگا۔ اسکولوں میں داخلے کی شرح بڑھانا تو کیا ہے سال 2011ءسے بعض صوبوں میں اس شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔اس وقت بھی67 لاکھ بچے ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔ نئے پاکستان کا خواب دکھا کر دھرنا دینے والے ہوں یا روشن پاکستان کا دعوی کرکے سبز باغ دکھانے والے حکمراں دونوں کو شاید یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ جس نوجوان نسل کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں انہی میں 5 کروڑ 10 لاکھ 37 ہزار ایسے افراد بھی ہیں جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے اور ناخواندہ شمار ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بیانات،الزامات اور دعووں کا ترکی بہ ترکی جواب دینے والوں کو سوچنا چاہئیے کہ اگر کوئی آپ کے گھر آکر آپ کو روشنی کی طرف،شعور کی طرف راستہ دکھانا چاہے تو اس کی آواز پر بھی کان دھر لیں کیوں کہ ہماری جہالت کی سزا ہمارے ساتھ دنیا کو بھی بھگتنا پڑرہی ہے۔ قوم کو ذہنی مریض بنانے والوں سے یہ بھی التجا ہے کہ خدارا یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جب ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ افراد بیک وقت بولنا شروع کردیتے ہیں تو کسی کی بھی بات پلے نہیں پڑتی بلکہ وہ صرف ؛ شور ؛ہی ہوتا ہے۔ خدارا قوم کو اس؛شور؛ سے نجات دلا دیں۔
تازہ ترین