• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لو پھردسمبر آ گیا ۔ میرے زخموں کو کریدنے یہ بہت جلدی کیوں آجاتاہے؟ سقوط ِ ڈھاکہ کا مہینہ آتا ہے تو مجھے مشرقی پاکستان کے بارے میں تعصبات، تاثرات اور تاویلیں یاد آتی ہیں۔ صحافیوں، سیاستدانوں، دانشوروں ، افسروں اور جرنیلوں کے اُس وقت کے دلائل ذہن میں آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ جب ایک ہی نقطہ نظرکوہوش کی بجائے جوش سے مانا جائے اور دوسرا نقطہ نظررکھنے والوں کو کافر اور غدار قرار دیا جائے تو پھر قوموں میں اصلاح کا عمل رک جاتا ہے اور زوال ہی ان کامقدر ٹھہرتا ہے۔
افسوس تویہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں۔ المیے، سانحے اور شکستیں قوموں کی سوچ بدل دیتی ہیں۔ ریاست کے عمّال اور دانشور سرجوڑ کر ٹھنڈے دل سے سوچتے ہیں۔ ماضی کی غلطیوں کاجائزہ لیتے ہیں اور اصلاح ِ احوال کا منصوبہ بناتے ہیں مگر ہم ہیں کہ وہیں کھڑے ہیں۔ 1971 کے آپریشن سےآگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ المیہ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھنے کی بجائے ابھی بھی تاویلیں گھڑنے، جھوٹ کو سچ ثابت کرنے، شکست کو اخلاقی فتح کا نام دینے، محروم طبقات کی اہل اقتدار سے لڑائی کو کفر و اسلام کی جنگ کے متبادل قرار دینے اور جھوٹے سچے پرانے حوالے دے کر اپنی بات پر اڑے رہنے کا رواج جاری ہے۔
پرانی کہانی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب بنگلہ دیشی حکومت نے 24مارچ 2013کو پروفیسر وارث میر کو ’’فرینڈز آفبنگلہ دیش ایوارڈ‘‘سے نوازا۔ بنگلہ دیشی حکومت نے تحقیق کے بعدغوث بخش بزنجو، فیض احمد فیضؔ، وارث میر، حبیب جالب اور ملک غلام جیلانی کو یہ اعزازات دیئے۔ ان ایوارڈز کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کتنی قابل تحسین بات ہے کہ یہ نامور لوگ اس وقت کے مغربی پاکستان کے شہری ہونے کے باوجوداختلافی نقطہ نظر رکھتے تھے اوراکثریت سے ہٹ کر سوچتے تھے۔ مگر افسوس کہ ان ایوارڈز کو اس نقطہ نظر سے دیکھنے کی بجائے غداری اور جرم کے تناظر میں دیکھا گیا۔ باقی نام تو برداشت کرلئے گئے مگر چند دانشوروں کے لئے سب سے زیادہ قابل گردن زنی پروفیسر وارث میر ٹھہرے۔ کبھی تعریف کی جھوٹی آڑ لے کر اور کبھی طنز کے نشتر چبھوتے ہوئے پروفیسر وارث میر کے مخصوص اور من پسند اقتباسات کے حوالے دیئے گئے۔ ان سب حوالوں کا مشترکہ سورس وارث میر کا وہ نامکمل سفرنامہ ہے جو انہوں نےالمیہ مشرقی پاکستان سے تھوڑا عرصہ پہلے لکھا تھا۔ ڈھاکہ کا یہ سفر انہو ںنے پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے عہدیداروں حفیظ خان اور جاویدہاشمی کے وفد کے ساتھ کیا تھا۔ اس سفرنامے کومیں نے غور سے دیکھا تو فاضل کالم نگار حفیظ اللہ نیازی اور دوسرے قابل احترام دوستوں نے صرف وہ اقتباسات لئے ہیں جن سے ان کالم نگاروںکانظریہ درست ثابت ہو حالانکہ اسی سفرنامہ میں جگہ جگہ انہوںنے بنگالی محرومیوں کا ذکر کیا۔ صرف ایک اقتباس سے ہی بات واضح ہو جاتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمود حسین کے حوالے سے انہوں نے لکھا ’’میرے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ مغربی پاکستان کا سرکاری افسر اپنے حاکم ہونے کا تاثر دے کر بہت خوش ہوتا تھا اور بعض ذمہ دار افسر تو بنگالیوں کو ان کے منہ پر گھٹیا، نیچ، ذلیل اور پسماندہ کہنےسے بھی نہیں چوکتے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وہی بنگالی مسلمان جو تحریک پاکستان میں سب سے آگے تھے اور ہندوئوں سے نفرت کرتے تھے اور مغربی پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی جدوجہد میں شریک ِ پیہم سمجھتے تھے، قیام پاکستان کے بعد انہی مغربی پاکستانیوں سے شدید نفرت کرنے لگے اور پھر چند سیاستدانوں نے ’’بنگلہ دیش‘‘ کا نعرہ لگایا اور سینوں میں چھپی ہوئی تمام نفرتیں اور کدورتیں ان دو الفاظ میں ڈھل گئیں۔‘‘
یہ سفرنامہ ایک رپورتاژ کی شکل میں ہے جس میں دونوں مخالف آرا کو پیش کیا گیا ہے۔ صرف من پسند اقتباسات کو چن کر یہ ثابت کرنا کہ وارث میر بھی فاضل کالم نگاروں کی طرح سوچتے تھے، کسی طرح بھی درست نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ تعصب کی عینک لگانے والوں کو نوشتہ ٔ دیوار کی تحریریں بھی الٹی ہی نظر آتی ہیں۔ اس خودفریبانہ نکتہ نظرنے ہمیشہ ملک کونقصان پہنچایااور ہم المیہ مشرقی پاکستان تک جا پہنچے تھے۔ فاضل کالم نگاروں کی نظر سے شاید جامعہ پنجاب کے پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن کی تحریر (میرا رفیق۔ حریت ِ فکر کا مجاہد) نہیں گزری۔ وہ 1971 میں پروفیسر وارث میر کے دورہ ٔ مشرقی پاکستان کے حوالے سےلکھتے ہیں ’’واپسی پر میں نے ان سے مشرقی پاکستان کے متعلق پوچھا تو وہ مجھے ایک جانب لے گئے اور سرگوشی کے انداز میں کہا ’’مجھےصورتحال میں بہتری کا امکان نظر نہیں آتا۔ یوں سمجھو مشرقی پاکستان گیا۔‘‘ یاد رہے ان دنوں جماعت اسلامی نےمشرقی پاکستان میں البدر اور الشمس نامی مسلح تنظیمیں بنا رکھی تھی۔ اُدھر خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اور اِدھر ہمارے نابینا قسم کے دانشور خون کے بہتے دریا کو ’’محبت کے زمزم‘‘سے عبارت کر رہے تھے۔ کسی کو مستقبل کے ضمن میں جھانکنے کی فرصت نہیں تھی۔ اس زمانے میں جامعہ (پنجاب) کی حد تک ہم صرف پانچ سات نوجوان فوجی ایکشن کے مخالف تھے۔ ہمارے نقطہ نظر کو استاد کے تجزیئے سے مزید تقویت ملی، تاہم نعرہ پرست قوم کے کانوں تک ہماری آواز بھلا کیسے پہنچتی؟ نتیجتاً دسمبر 1971 ہمارے لئے لمحہ عبرت بن گیا۔‘‘ اگر سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب کو دیکھنا ہے تو اس کی جڑیں مغربی پاکستان کی قیادت کےرویوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ حسین شہید سہروردی جو متحدہ بنگال کے وزیراعظم اور تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے، ان کی یادداشتیں آکسفرڈ نے Memoirs of Huseyn Sheheed Suhrawardy کے نام سے شائع کی ہیں۔ مصنف محمد ایچ آر تعلق دار کو یہ نامکمل یادداشتیں سہروری مرحوم کے برطانیہ میں مقیم بیٹے راشد سہروردی نے مہیا کی تھیں۔ اس کتاب میں راشد سہروردی نے اپنے والد کے حوالے سے لکھا ہے (صفحہ XVIII) کہ لندن میں قیام کے دوران میں مغربی پاکستان کی زیادتیوں پر زور و شور سے دلائل دے رہا تھا تو میر ےوالد نے ’’انتہائی آہستگی اور اختصار سے میرے تمام نکات کو دلائل کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اگرچہ میرے دلائل کی تاریخی بنیاد سے اتفاق کیا مگر ان میں موجود تعصب، لاعلمی اور خطیبانہ زور بیان کو ر د کرکے اسے حقیقت کا رنگ دے دیا‘‘ اسی کتاب میں (صفحہ 214) حسین شہید سہروردی نے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ ’’اگر آئینی راستے بند رکھے گئے تو مشرقی پاکستان میں عوامی تحریک اٹھے گی۔‘‘ یہ حسین شہید سہروردی جو بعد میں ایوب خان کے ایبڈو کا غلط طور پر نشانہ بنے ان کی تحریک پاکستان کے لئے یادگار خدمات ہیں مگر ان کے ساتھ ہمیشہ سوتیلوں والا سلوک ہوا۔
آکسفرڈ پبلشرز ہی نے شیخ مجیب الرحمٰن کی یادداشتیں (The Unfinished Memories) کے نام سے شائع کی ہے۔ پاکستان کے حق میں سلہٹ کے تاریخی ریفرنڈم کا ذکرکرتے ہوئے (صفحہ 80) لکھتے ہیں۔ ’’سلہٹ ریفرنڈم جیتنے کے بعد ہم جونہی کلکتہ پہنچے تو پتہ چلا کہ مسلم لیگ کے ایک دھڑے نے فیصلہ کیا تھا کہ بنگال مسلم لیگ کے لئے سہروردی کےمقابلے میں خواجہ ناظم الدین الیکشن لڑیں گے۔‘‘ بعد ازاں سہروردی ہار گئے اور خواجہ ناظم الدین جیت گئے۔ یہیں سے اختلافات کی نیو رکھی گئی۔ اگراور تفصیل میں جایا جائے تو ولی خان کی اس کہانی پر بھی غور کرنا چاہئے۔
گول میز کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے (چھوٹے صوبے پنجاب سے ناراض کیوں؟ صفحہ 35) کہا ’’جب میں نے ایوب خان سے ہاتھ ملایا تو مجھے کہا میں آپ کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ نے سیاست میں بہت آگے جانا ہے اگر آپ نے پاکستان کو بچانا ہے تو جتنی جلدی ممکن ہو مشرقی پاکستان سے جان چھڑالیں‘‘ ظاہر ہے یہی وہ سوچ تھی جس نے پاکستان کو دولخت کیا۔ اس المیے نے دوطرح کی سوچ پیدا کی ایک یہ کہ ہمیں ظلم کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا چاہئے، سب صوبوں کے ساتھ انصاف کرنا چاہئے اور آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچنا چاہئے۔ اجتماعی سوچ میں بہتری آئی اور اس کے بعد سندھ اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کئی سیاستدانوں کو اقتدار میں حصہ ملا۔ رویئے میں اسی بہتری کی وجہ سے پنجاب کے عوام اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کی اکثریت میں چھوٹے صوبوں کے حوالے سے ظالمانہ نہیں دوستانہ رویئے کی حمایت بڑھی ہے۔ المیے سے دوسری سوچ نے بھی جنم لیا اور وہ اپنی کسی غلطی کو نہ ماننا اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کا رویہ ہے۔ اس سوچ کے حامل کافی کنفیوزڈ ہیں۔ پروفیسر وارث میر کی پرانی تحریروں سے یہ ثابت کرنا کہ یہ دانشور اوروہ ایک صفحے پر تھے ان کے پاس دلائل نہ ہونے کی واضح مثال ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے 14سال بعد (14دسمبر 1985روزنامہ جنگ بحوالہ وارث میر کا فکری اثاثہ جلد دوم) میں لکھتے ہیں ’’میں اس حقیقت کا اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ ملکی مسائل کے بارے میں موجودہ سوچ کی نہج، ماضی کے مقابلے میں قدرے تبدیل بھی ہوچکی جو شخص سوچتا ہے وہ آگے بھی بڑھتا ہے اور 14سال کے دوران پلوں سے بہت سا پانی بھی بہہ چکا ہے۔‘‘ اس تحریر کے بعد انہوں نے کھل کر مشرقی پاکستان میں آپریشن کی مخالفت کی۔ نہج میں تبدیلی کا اعتراف ایک طرح سے ناکردہ گناہ کا اعتراف تھا۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارےہیں جو واجب بھی نہیں تھے
وارث میر کی بعد کی تحریروں کو نظرانداز کرکے پرانی تحریر کا حوالہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے دور کو نظرانداز کرکے ان کی کانگریس میں سرگرمیوں کو حوالے کے طور پر پیش کیا جائے یا پھر علامہ اقبالؒ کے مسلم قومیت کے تصور کو بھلا کر ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ کو ان کی نمائندہ شاعری قرار دیا جائے۔
یہ دسمبر کا مہینہ ہے۔ہم سب کو اجتماعی طور پر سوچنا چاہئے کہ ہم حقائق سے آنکھیں کیوں چراتے ہیں؟ ہرواقعے، شخصیت اور فکر کواپنی مرضی کا رنگ و روپ کیوں دیتے ہیں؟ سانحہ مشرقی پاکستان کی تاویلیں ابھی تک جاری ہیں کہ سب ٹھیک تھا بس سازش ہوگئی۔ اُسامہ بن لان پاکستان سے نکل آیا تو پھر تاویلیں، کہ کسی نے مخبری کردی ہوگی یا ’وہ تو پہلے ہی مارا جا چکا تھا‘ وغیرہ وغیرہ ۔
پاکستان ہم سب کا ہے، ایک دوسرے سے نفرت، تعصب اور ظلم سے گریز کریں گے توپاکستان مضبوط ہوگا وگرنہ نفرتیں اور تعصب ملک کی بنیادیں کھوکھلی کردیں گے۔المیہ مشرقی پاکستان کے بارے میں بھی سچ بولنا چاہئے کیونکہ ’’انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جھوٹ اور سچ میں جب بھی ٹکرائو ہوا جھوٹ ہمیشہ ہارا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جھوٹ نےکبھی اپنی ہار تسلیم نہیں کی۔ انفرادی جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے لیکن اجتماعی جھوٹ کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ انفرادی جھوٹ کی یادداشت کمزور ہوتی ہے لیکن اجتماعی جھوٹ کا حافظہ بلا کا ہوتا ہے۔ اجتماعی جھوٹ وہ ناسور ہے جس کا اس وقت علم ہوتا ہے جب قوم موت کے دروازے پرپہنچ جاتی ہے۔ (وارث میرکا فکری اثاثہ جلددوم بحوالہ شمیم ترمذی) دعا یہی کرنی چاہئے کہ ہم اجتماعی جھوٹ کا شکار نہ ہوں ۔ فیض احمد فیضؔ نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے جو لکھا وہ اب بھی سوچنے کا در کھولتا ہے۔
کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تازہ ترین