• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس رپورٹ کو جاری کرنے سے سب سے اہم سبق یہی سیکھا جا سکتا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کو ہر صورت میں باور ہونا چاہئے کہ ان کے اقدامات امریکی قوم ،قوانین اور اقدار کی عکاسی کررہے ہیں۔اس رپورٹ کا اجراء دنیا اور امریکی عوام کو یہ بتائے گا کہ امریکہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی جرأت رکھتا اور ان سے سیکھتا ہے۔ یہ الفاظ سینیٹر ڈیان فائن اسٹائن کے ہیں جن کی سربراہی میں امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کے بارے میں سیلیکٹ کمیٹی نے سی آئی اے کے قید یوں سے تفتیش کے پروگرام کے بارے میں رپورٹ جاری کر کے امریکہ کے ساتھ دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس کمیٹی نے آٹھ سال کی عرق ریزی کے بعد 6 ہزار7 سو صفحات پر مشتمل جو سنسنی خیز رپورٹ تیار کی اس میں سے صرف 528 صفحات پر مبنی ایگزیکٹو سمری جاری کرنے کا کڑوا گھونٹ پیا گیا ہے۔امریکی صدر اوباما کی منظوری سے جاری کی جانے والی اس اہم دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی سلامتی کے اہم ادارے سی آئی اے نے نائن الیون کے بعد دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں کو زیرحراست رکھ کر ان کے ساتھ کس قدرغیر انسانی سلوک روا رکھا۔ سینیٹ کمیٹی نے سی آئی اے کے چہرے سے نقاب اتارنے کے لئے خفیہ مراکز میں زیر حراست رکھے گئے 119 قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی تفصیلات بیان کی ہیں جنہیں خود دنیا کے طاقتور ترین صدر اوبامہ نے امریکی تاریخ پر ایک داغ قراردیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہزاروں صفحات پر مبنی رپورٹ کی ایگزیکٹو سمری جاری کرنے میں بھی جو امر مانع رہا وہ اس کے اجراء کے بعد دنیا خصوصا مسلم ممالک کی طرف سے متوقع رد عمل اور امریکی شہریوں کی سلامتی تھا،کسی مرحلے پر بھی یہ تامل نہیں کیا گیا کہ ایسی معلومات افشاء کرنا باعث شرمندگی ہے ۔ رپورٹ میں محرک سینیٹر ڈیان فائن اسٹائن نے اسکے اجرا کا مقصد تحریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تاریخ کو دوبارہ بھلانے کی اجازت نہیں دے سکتے اور نہ ہی یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ ماضی کی سنگین غلطیوں کودہرایا جائے۔دوسری طرف ہم اگر اپنے طرز عمل پر نظر دوڑائیں تو ہماری مثال ایسی ہے کہ ہم سامنے کی مٹی اٹھا کر کارپٹ کے نیچے کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو گیا۔ ہم نے ہمیشہ حقائق سے چشم پوشی کی۔ ملک کے دو لخت ہونے کا عظیم سانحہ ہو یا پاک سر زمین پر امریکی میرینز کی کا رروائی ہم ہمیشہ سچ سے راہ فرار ہی اختیار کرتے آئے ہیں۔ دل کے بہلانے کیلئے کمیشن ،کمیشن کا کھیل کھیلتے ہیں، قومی سانحات اور حادثات پر کبھی حمود الرحمٰن کمیشن بنادیتے ہیں تو کبھی ایبٹ آباد کمیشن لیکن سچ کی کڑواہٹ محسوس ہونے پر ریت میں سر دے دیتے ہیں۔ ہر سال دسمبر کے آنے پر آنکھیں تو بھگوتے ہیں لیکن اتنا ظرف پیدا نہیں کر سکتے کہ ان عوامل اور کرداروں کے بارے میں نشان دہی پر مبنی حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لے آئیں۔یہ جاننے کی سعی کریں کہ پاکستانیوں کو خون کے آنسو رلانے والے اس قومی سانحے کے بارے میں تین سال کی محنت شاقہ اور 213 گواہان کے بیانات قلمبند کرنےکے بعد تیار کی گئی رپورٹ کی بارہ کاپیاں آخر کیوں ضائع کر دی گئیں ،اصل کاپی کس تہہ خانے میں چھپا دی گئی۔ مشرقی کمانڈ میں کس کے احکامات پر سرنڈر کر کے پوری قوم کو خجا لت سےدو چار کیا گیا۔عوام کے قائد کہلانے والے بھٹو نے عوام کو بے خبر رکھنے کیلئے جس حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کو ـ’’کلاسفائیڈ‘‘ ڈیکلیئر کر کے ممنوعہ دستاویز بنادیا اس سے آج تک کسی نے گرد ہٹانے کی جرات کی نہ حوصلہ ہی پیدا کیا۔ برسوں بعد اس رپورٹ کے کچھ مندرجات اگر لیک بھِی ہوئے تو وہ پاکستان دشمنی کی وجہ سے بھارتی اور بنگالی میڈیا سامنے لے کر آیا۔ قوم کو حقائق سے بے خبر رکھنے کا یہ گر پہلی بار نظر نہیں آیا تھا بلکہ اس سے دو دہائیاں قبل ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جب لیاقت باغ راولپنڈی میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا توپاکستان میں جسٹس محمد منیر کے نام سے بننے والے پہلے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو بھی ملکی مفادات کے نام پر کلاسفائیڈقرار دیکر چپ سادھ لی گئی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان میں کمیشن بنائے جاتے رہے، قوم کا پیسہ اور اعلی دماغ صرف ہوتے رہے لیکن جتنی توانائیاں ان تحقیقات پر لگائی جاتی تھیں ان سے بھی زیادہ کوششیں اپنے کرتوتوں کا بھانڈا پھوٹنے سے بچانے کیلئے کی جاتی رہیں۔ ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثہ کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس شفیق الرحمان کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا ،ملکی اور بین الاقوامی سازش کے تانے بانے سلجھانے کی کاوش کی گئی اور جب اس کے کرداروں کے چہرے پر سے نقاب ہٹانے کے لئے رپورٹ تیار ہو گئی تو مٹھیاں بھینچ لی گئیں جو آج تک نہ کھل سکیں۔
16 دسمبر 1971 ءکو سقوط ڈھاکہ کے بعد بطور خود مختار ریاست پاکستان کو جس بڑی ہزیمت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا وہ 2مئی 2011ءکو ایبٹ آباد کی سر زمین پر امریکی میرینز کا وہ آپریشن تھا جس میں انہوں نے دنیا کے انتہائی مطلوب شخص اسامہ بن لادن کو نہ صرف ہلاک کیا بلکہ اس کی لاش بھی اپنے ساتھ لے گئی اور ہم سوتے ہی رہ گئَے۔ایک بار پھر ہاہاکار مچی ، ذمہ داران کا تعین کرنے کا عزم دہرایا گیا۔ جمہوری حکومت کی درخواست پر سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمیشن بنایا گیا۔ اس کمیشن نے بھی نہایت تندہی اور ایمانداری سے دو سال کے عرصے میں 300سے زائد افراد کے بیانات لینے اور 3000 دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ تیار کرلی لیکن حسب روایت ایک بار پھر ملکی سلامتی اور قومی مفادات۔ اس وقت کے جمہوری وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے آڑے آ گئے اور کمیشن کی رپورٹ کو عام نہ کیاجاسکا۔ اس بار بھی اس رپورٹ کے کچھ مندرجات لیک ہونے سے اندازہ ہو چکا تھا کہ اگر اسے جاری کر دیا گیا تو ایسے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے کہ ہماری قومی سلامتی شاید ان کا بوجھ نہ سہار سکے لہٰذا اس رپورٹ کو بھی کلاسیفائیڈ کا ٹھپہ لگا کر کسی نئے سانحے کا انتظار کیا جانے لگا۔ جون دو ہزار گیارہ میں صحافی سلیم شہزاد کو اغواء کے بعد قتل کر کے لاش پھینک دی گئی۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں کمیشن بن گیا،ایک اور رپورٹ کلاسیفائیڈ ڈکلئیر قرار دینے کے لِے تیار ہو گئی اورعوام کو جاننے کا آئینی حق اس بار بھی نہ مل سکا۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی سے منسوب میمو نے پاکستان کی جمہوری حکومت کی چولیں تک ہلا دیں،اس بار عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کی ذمہ داری بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو سونپی گئی۔ پاکستان کے ساتھ بیرون ممالک تک بیانات قلمبند کئے گئے ،حساس اداروں کے سربراہان کی پیشیاں تک ہوئیں۔
رپورٹ بھی تیار ہوگئی لیکن اس کے اثرات کو برادشت کرنے کی ہمت ایک بار پھر پیدا نہ ہو سکی اور اسے بھی کلاسیفائیڈ والے ڈبے میں بند کردیا گیا۔اسی طرح اصغر خان کیس ہو یا بلوچ رہنما اکبر بگٹی کی ہلاکت ،ارسلان افتخار کیس ہو یا لاپتہ افراد کا معاملہ ہر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو عوام جیسی مخلوق کی پہنچ سے دور ہی رکھا گیا۔ حال ہی میں معروف سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا تو جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا گیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کمیشن کی رپورٹ کو ہر صورت میں منظر عام پر لانے کا عزم کیا لیکن آٹھ ماہ گزر گئے اس کمیشن کی رپورٹ بھی عام نہ ہوسکی۔ سانحہ ماڈل ٹائون ہوا تو عدالتی تحقیقات کو سامنے لانے کے بڑے بڑے دعوے کئے گئے لیکن رپورٹ مرتب ہوئی تو اس کی قیمت ادا نہ کر سکنے کی ہمت کی وجہ سے عوام کو ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا۔ اب ملک میں گزشتہ چار ماہ سے ایک نئے عدالتی کمیشن کے قیام کے لئے واویلا کیا جا رہا ہے، باور یہی کیا جارہا ہے کہ شاید اس عدالتی کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں پاکستان میں ہونیوالے گزشتہ عام انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں اصل حقائق سامنے آسکیں گے،یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس کمیشن کی رپورٹ ہی موجودہ جمہوری حکومت کے ساتھ ملک کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرےگی۔ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھیں تو بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ملک کا موجودہ نظام آئندہ چند دنوں میں بننے والے اس نئی عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہوگا ، کیا اس کی رپورٹ بھی ملکی مفادات کے سامنے ہیچ تو نہیں ہوجائے گی۔ ملک اور قوم کو ہیجان اور بحران سے دوچار کرنے والے ذمہ داران کو بچانے کے لئے ایک بار پھر ’’کلاسیفائیڈ‘‘ کا سہارا تو نہیں لیا جائے گا۔ کیا امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی طرح ہم بھی اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی بجائے ان کو ظاہر کرتے ہوئے اپنی اصلاح کریں گے تاکہ مستقبل میں مزید قومی سانحات اور حادثات سے بچ سکیں۔ یا درکھیں ہم نے اب بھی ’’کلاسفائیڈ‘‘ کے لیبل کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی تو پھر مستقبل کی خوفناک منظر کشی کیلئے دسمبر کی تلخ یادیں ہی کافی ہیں۔
تازہ ترین