• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے ایک بار پھر دنیا پر واضح کیا ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کے حل کے بغیر عالمی امن نا ممکن ہے۔جنرل راحیل شریف نے کمان سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر میں یوم شہداء کی تقریب میں بھی دو ٹوک انداز میںکہا تھا مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سےدوستی ناممکن ہے۔کشمیر کا تنازع انگریز حکومت کی ہند و پاک کی تقسیم کے وقت شاطرانہ چالوں کے سبب تقریباً پون صدی کا عرصہ گزر جانے کے با وجود آج بھی حل طلب ہے ۔ اِس مسئلہ کو پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قرار دادوں کے ذریعے کشمیریوں کو حق استصواب رائے دینے کا وعدہ کیا۔کشمیریوں نے انتخابات کے ذریعے مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں قرار دادیں منظورکر کے بھی دیکھ لیا مگر عالمی وعدوں کے علی الرغم بھارت نے اقوام متحدہ میں کئے گئے وعدے کی تکمیل نہ کی ۔ کشمیریوں کا یار لوگ مذاق اڑاتے تھے کہ ’’ تپ سی تے ٹُھس کَرسی ‘‘ کہ نہ کشمیریوں کی بندوق گرم ہو گی اور نہ ہی وہ مسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کرسکیں گے ۔
1989 ء کے اواخر میں دنیا نے دیکھا کہ اسکول جاتے بچوں نے مسلح جدوجہد کے ذریعے کس طرح سے ظالم و جابر بھارتی فوجوں کو ناکوں چنے چبوائے ۔ گزشتہ 25 برسوں میں کشمیری ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ہزاروں ماؤں ، بہنوں کی عصمت دری کی گئی ۔ اربوں کھربوں روپے کا کشمیریوں کا کاروبار تباہ و برباد کر دیا گیا ۔ کشمیرکی کلیاں اور پھول مسل دئیے گئے مگر کشمیرکے ہر کوچہ و بازار سے ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے کہ ’’ ہم کیا چاہتے ؟ آزادی ، آزادی اورکشمیر بنے گا پاکستان ‘‘جمہوریت کے دعویدار نیتاؤں سے لٹنے والی عصمتیں اور ہزاروں افراد کی اجتماعی قبریں سوال کرتی ہیں کہ کب تک تم جمہوریت کا ناٹک رچا کر دنیا کو بے وقوف بناتے رہو گے ؟ پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے۔ پاکستانی قوم ہمیشہ کشمیریوں کی پشت پررہی ہے۔
حکومتی سطح پر ناقص کارکردگی کے باوجود پاکستان نے کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دلوانے کےلئے دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھائی ۔ ’’ آگرہ بات چیت ‘‘ کا یہ قلمکار چشم دید گواہ ہے کہ کِس جرأت ، فہم و فراست سے پاکستانی حکمران جنرل پرویز مشرف نے جہاد اور دہشت گردی میں فرق واضح کر کے اٹل بہاری واجپائی کو ناکوں چنے چبوائے۔ بُرا ہو 9/11 کا کہ جس نے سارا منظر تبدیل کر دیا ۔ مشرف امریکہ بہادر کے چکمے میں آ گئے کہ پاکستان اگر امریکہ کی جنگ میں طالبان کے خلاف ’’ فرنٹ لائن اتحادی ‘‘ کا کردار ادا کرے تو امریکہ بہادر انہیں کشمیر پلیٹ میںرکھ کر پیش کر دیگا ۔ امریکیوں نے پاکستان کو کھلے دھوکے کا شکارکر لیا تھا ۔ مسئلہ کشمیر کے حل کی بجائے امریکی پاکستان کو بلیک میل کرنے کیلئے بھارت کی ہر محاذ پرپشت پناہی بالخصوص ان کے نیو کلیئر پروگرام کوتقویت دیتے رہے ۔ جنرل مشرف کا ’’ پھسلن کا سفر ‘‘ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔
کشمیر میں موجود بھارتی ایجنٹ عمر عبد ا ﷲ اور محبوبہ مفتی کے لئے پاکستانی سرزمین سے خیر سگالی کے پیغامات اور عمر عبد ا ﷲ کا اسلام آباد میں ’’ ریڈ کارپٹ ‘‘ استقبال کشمیری قیادت و عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا ۔ عمر عبد ا ﷲ کون ہیں ؟ جناب شیخ عبد ا ﷲ کے پوتے ۔ شیخ صاحب وہ شاطر سیاستدان تھے جو ایک عرصہ تک نمک کی ڈلی ہاتھ میں لے کر کشمیریوںکو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں ، بھارتی سرکار کو خوش کرنے کے لئے شیخ خاندان مثل ’’ چندے آفتاب و چندے ماہتاب ‘‘ ہے ۔ سیکولرازم کی عملی تصویر بن کر بڑے شیخ صاحب کے فرزند ارجمند جناب فاروق عبد ا ﷲ نے بھارتی عیسائی خاتون سے بیاہ رچایا ۔ پوتے عمر عبد ا ﷲ کی زوج میں سکھ خاتون آئیں ۔ شیخ صاحب کی پوتی اور عمر عبد ا ﷲ کی بہن سارہ عبد ا ﷲ کی شادی سابق بھارتی وزیر داخلہ، کٹر ہندو راجیش پائیلٹ کے بیٹے سچن پائیلٹ سے ہوئی ۔ بھارتی سیکولرازم میں ایسی ’’ شاندار کارکردگی ‘‘ دکھا کر شیخ خاندان انوکھی اوریکتا مثال بن گیا۔اس ’’ باوقار خاندان ‘‘ کے عمر عبد ا ﷲ نے پاکستان میں اپنے استقبال کو کیش کرایا اور انتخابات جیت کر وزیر اعلی بن گیا۔ جنرل مشرف نے اس پر بس نہیں کی بلکہ چار نکاتی فارمولے کی بات کر کے پاکستان کے دیرینہ موقف یعنی اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ فوج کی کمان سنبھالنے کے بعدجنرل کیانی نے دانشمندانہ پالیسی اختیار کر کے مشرف کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کو ’’ روک ‘‘ لگائی ۔ جنرل راحیل کے جرأت مندانہ بیانات نے بھارتی نیتاؤں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔
حکومت پاکستان کو غیر معمولی سفارتی پالیسی مرتب کر کے ہر سفارت خانے میں کشمیر ڈیسک قائم کر کے دنیا کے سامنے یہ بات رکھنی چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر دنیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکے گا ۔مودی جی کے دورہ کشمیر کے موقع پر کشمیریوں نے بھرپور ہڑتال کر کے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ کشمیر کا پیر و جوان بھارت کے جابرانہ تسلط کے خلاف ہے اور وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں کشمیری گوریلوں کے بھارتی فوج پرحملے جس میں کرنل سمیت گیارہ فوجی جہنم واصل ہوئے تھے کی مذمت بھارتی وزیر اعظم مودی جی نے اپنے ٹوئیٹر پیغام کے ذریعے کی ۔ مودی جی نے کہا کہ ’’ ہم جموں و کشمیر میں حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ایسے مایوسانہ اقدامات بھارتی انتخابات جن میں بڑا ٹرن آؤٹ سامنے آیا ہے کو سبوتاژ کرنے کے لئے کچھ عناصر کر رہے ہیں ۔ ان عناصر کا مقصد انتخابی ماحول کو ڈی ریل کرنا ہے۔
مودی جی نے کہا کہ 125کروڑ بھارتی اپنی بہادر افواج جنہوں نے جانوں کی قربانی دے کر قومی فریضہ سرانجام دیا کو کبھی نہیں بھلائے گی ۔ اس ٹوئیٹر پیغام جس میں بڑے ٹرن آؤٹ پر مودی جی نے بغلیں بجائی تھیں پر اس قلم کار نے سوال کیا تھا کہ جناب مودی اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹرن آؤٹ حقیقی ہے تو آپ کشمیریوں کو استصواب کے لئے حق رائے دینے سے خوفزدہ کیوں ہیں ؟مودی جی یا ان کی سرکار کے کسی ترجمان نے اس سوال کا جواب دیا اور نہ ہی وہ دیں گے ۔ جعل سازی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کیلئے صندوقچے ہمیشہ ووٹوں سے بھرے جاتے رہے ہیں یہ عمل ایک بار پھر دہرایا جا رہا ہے ۔کشمیریوں کے حقیقی رہنما جناب سید علی گیلانی ، جناب میر واعظ عمر فاروق ، جناب یٰسین ملک اور جناب شبیر شاہ نے دو ٹوک انداز میں اپنے موقف کو دہرایا ہے کہ انتخابی عمل کا تنازع کشمیر سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ استصواب رائے کا متبادل ہیں ۔
ان رہنماوں نے کہا کہ کشمیر نہ کبھی بھارت کا حصہ رہا ہے اور نہ ہی بنے گا ، فوج کے استعمال سے بھارت کب تک کشمیریوں کو غلام رکھے گا ؟ اسکاٹ لینڈ کی قیادت کا دعویٰ تھا کہ ان کی اکثریت برطانیہ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی مگربرطانوی حکومت کی جانب سے کرائے گئے ریفرنڈم میں علیحدگی پسند اکثریت ثابت نہ کر سکے ۔ بھارتی نیتا پرانی پالیسیوں اور جابرانہ تسلط کی پالیسی کو ترک کر کے کشمیریوں کو ریفرنڈم کا حق دے کر دودھ اور پانی میں فرق دیکھ سکتے ہیں ۔ مودی جی بھارت کو پر امن اور ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیںکشمیر کا مسئلہ حل کرنا پڑے گا بصورت دیگر ان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا ۔
تازہ ترین