• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1954میں بھارتی وزیراعظم مشہور ایٹمی سائنسدان نیلز بوہر سے ملنے کوپن ہیگن گئے تھے۔وطن واپسی پر بھارتی وزیراعظم نے "ہومی بھا بھا"کی سربراہی میں نیو کلیائی تحقیقاتی پروگرام شروع کیا۔اسی ایٹمی پروگرام کے جواب میں 1965کی ایک دوپہر کو پاکستان کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے مانچسٹر گارجین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ "اگر ہندوستان ایٹم بم بناتا ہے تو ہم گھاس کھائیں گے،بھوکے رہ لیں گے لیکن اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے،اس کے علاوہ ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے"۔اس کے بعد ذوا لفقار علی بھٹو کو اقتدار نصیب ہوا اور انہوں نے 1972 ملتان میں ایٹمی سائنسدانوں کا اہم اجلاس بلایا۔بھٹو صاحب نے منیر احمد خان کو ویانا سے بلاکر پاکستان اٹامک انرجی کا نیا چیئرمین مقرر کیا اور انہیں ہدف دیا کہ پاکستان کو جلد از جلد ایٹمی طاقت بنایا جائے۔پاکستان اٹامک انرجی کے نئے سربراہ نے ابھی اپنے نئے منصوبے کا آغاز کیا ہی تھا کہ ہندوستان نے Buddha Smilesکے نام سے 1974میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کردئیے۔جس کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤسے متعلق بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستانی ایٹمی سائنسدان دن رات اپنے مقصد کی تکمیل میں لگ گئے۔بھٹو صاحب کے بعد آنے والے تمام ادوار میں ایٹمی ہتھیاروں پر کام ہوتا رہا مگر منزل کافی دور نظر آرہی تھی۔پھر 11مئی1998کا دن آیا ۔جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تین نیوکلیائی ٹیسٹ کرنے کا اعلان کیا۔بھارتی وزیراعظم نے دنیا کو حیران تب کیا جب انہوں نے اگلے روز مزید دو ٹیسٹ کر نے کا عندیہ دے دیا۔بھارتی وزیراعظم کی پریس کانفرنس کے جواب میں پاکستان کے وزیرخارجہ گوہر ایوب نے بیان دیا کہ ہم ہندوستان کو جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔بھارت کی جانب سے دھماکے کرنے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف پر عوامی دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔15مئی 1998کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ڈاکٹر اشفاق صاحب کی غیر موجودگی کے باعث تمام ذمہ داری ڈاکٹر ثمر مبارک کے کندھوں پر آن پڑی۔ڈاکٹر ثمر مبارک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ گیارہ مئی کو ہندوستان کا صرف ایک دھماکا کامیاب ہوا ہے۔اگر حکومت نے فیصلہ کرلیا تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن دس دنوں میں دھماکے کرنے کے لئے تیار ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کے آر ایل نے بھی حکومت کو گرین سگنل دے دیا۔پھر 16مئی کو پاکستانی وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ پاکستان کی طرف سے دھماکے یقینی ہیں مگر وقت کا فیصلہ ہونا ہے۔پھر 27مئی 1998کا بھی دن آگیا۔جب امریکی صدر بل کلنٹن نے نوازشریف کو 25منٹ کی طویل فون کال کی۔بل کلنٹن نے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے پاکستان کو بیش بہا امداد دینے کا وعدہ کیا۔مگر اس وقت تک نوازشریف 28مئی کی سہ پہر تین بجے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
وطن عزیز کو ایٹمی طاقت بنانا اور ایٹمی دھماکے کرنا مختلف اداروں اور سیاسی جماعتوں کی خواہش رہی۔مگر کسی کے لئے بھی فیصلہ کن اعلان کرنا بہت مشکل تھا۔اس کٹھن فیصلے کی قیمت بھی د و وزرائے اعظم کو چکانا پڑی ۔ایٹمی ہتھیاروں کی بنیاد رکھنے والے وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا جبکہ تمام تر دباؤ مسترد کرکے ایٹمی دھماکے کرنے والے وزیراعظم کو غیر آئینی طریقے سے اقتدار سے بے دخل کرکے پابندسلاسل رکھا گیا۔
بہر حال 18سال قبل نوازشریف نے کٹھن فیصلہ لیا اور عوام امنگوں کی ترجمانی کی ۔آج عوام ان سے ایک بار پھر انہی جذبات کا تقاضا کررہے ہیں۔کشمیر کے حوالے سے بھارت نے جو ریاستی دہشت گردی شروع کررکھی ہے۔اس پر موثر آواز اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران حکومت پاکستان نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ قابل تعریف ہے مگر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔نوازشریف کی خوبی ہے کہ جب بھی ان پر کوئی بیرونی یا اندرونی قوتوں کا دباؤ آتا ہے ۔وہ عوام کی طرف جاتے ہیں۔حالیہ جلسوں میں بھی جب انہوںنے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا اور کشمیر پر دوٹوک موقف اپنایا تو اسے عوام میں خاصی پذیرائی ملی۔وزیراعظم نوازشریف نے اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر میں بھارتی دخل اندازی اور ریاستی دہشت گردی پر مدلل انداز میں پاکستان کا مقدمہ پیش کردیا تو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔آج جس طرح عوام سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر ذوالفقار علی بھٹو کے تاریخی خطاب کو سن کر رشک کرتے ہیں۔آج ہمیں ایک مرتبہ پھر ایسے ہی خطاب کی ضرورت ہے۔کیونکہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہو ،کوئی بھی ادارہ ہو۔سب کشمیر کے معاملے پر متحد ہیں۔آج اللہ نے وزیراعظم نوازشریف کو سنہری موقع دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جیسے عظیم فورم پر جاکرتقریبا 200کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔کشمیر صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند کا مسئلہ ہے۔ہمسائیوں سے اچھے تعلقات ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے مگر آپ کسی بھی طور پر اپنے بنیادی مسائل سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔مجھ سمیت بیشتر پاکستانی ہمسایہ ملک بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہشمند ہیں مگر ان اچھے تعلقات کی قیمت ہم کشمیر کی صورت میں ادا نہیں کرسکتے۔کشمیر کل بھی پاکستان کا اٹوٹ انگ تھااور آج بھی پاکستانیوں کے دل کشمیری بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔اگر وزیراعظم نوازشریف ایک قابل وکیل کی طرح پاکستان کا مقدمہ اقوام متحدہ میں پیش کردیتے ہیںتو اس کے مثبت اثرات برسوں محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ایک اچھا موقع ہے جب بھارتی وزیراعظم مودی بھی کشمیر کے معاملے پر عالمی دنیا کا سامنا کرتے ہوئے گھبرا رہے ہیں اور بھارت کی ترجمانی کے لئے وزیرخارجہ کو بھیج رہے ہیں۔ایسی صورتحال میں نوازشریف بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آپکے ہمسائے اچھے ہوں یا برے آپ اپنے ہمسائیوں کو بدل نہیں سکتے ہیں۔حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپکو انہی سے گزارا کرنا ہوتا ہے۔جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔کئی دہائیوں تک جنگیں لڑنے والے یورپی ممالک بھی اس پر اتفاق کرچکے ہیں کہ امن اور مذاکرات مسائل کا واحد حل ہیں۔ہمیں بھی چاہئےکہ ہم کور ایشوز پر اپنے موقف کو قائم رکھتے ہوئے تمام ہمسائیوں سے بہتر تعلقات قائم رکھیں۔ہماری بدقسمتی ہے کہ آج چین کے علاوہ کسی ہمسایہ ملک سے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔افغانستان جو ہمارا دایاں بازو تصور کیا جاتا تھا آج ہم پر گولیاں برسارہا ہے۔کیا کبھی کسی نے سوچا تھا کہ افغان بھائی بھی ہمیں آنکھیں دکھائیں گے۔جس قوم کومیرے ملک نے اپنی آغوش میں پناہ دی ۔آج وہی ہم سے لاتعلقی کرچکی ہے۔خلیجی ممالک کی بات کریں تو اس سے بڑا امتحان کیا ہوگا کہ ہمارے قریبی برادر ملک نے مودی جیسے شخص کو اپنے ملک کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا۔ایک اور خلیجی ملک کی بات کریں تو بھارت اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری اس ملک میں لگانے کا اعلان کرچکا ہے۔ایران سے تعلقات کو سب جانتے ہیں۔جو ہم نے ان کے سربراہ کے ساتھ پاکستان بلاکر سلوک کیا،شاید ہی دنیا کی سفارتی تاریخ میں اس کی کوئی مثال ہو۔آخر یہ سب کس نے کیا ہے؟کیا یہ قوم تاریخ کی بدترین خارجہ پالیسی پر سوال کرسکتی ہے۔نہیں چاہتا کہ تلخ گوشو ں کی نشاندہی کروں، کسی ایک حکومت یا ادارے کو ذمہ دار ٹھہرانا مقصد نہیں ہے مگر سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کا ذمہ دا رکون ہے اور خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے۔خدارا اب بھی وقت ہے کہ ہم سب متحد ہوکر بنیادی مسائل پر ضرور آواز بلند کریں مگر ہمسائیوں سے بہتر تعلقات کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ اب یہ ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے۔


.
تازہ ترین