• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں رئیل اسٹیٹ اور پراپرٹی سیکٹر میں غیر ظاہر شدہ سرمایہ کاری 6 سے 7 ہزار ارب روپے ہے لیکن اس شعبے سے اس سال صرف 4 ارب روپے کے ٹیکس وصول کئے گئے جو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI)، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (ABAD)، چارٹرڈ اکائونٹینٹ اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹس ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کے ساتھ مل کر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 68میں ترمیم کی ہے جس کے تحت جائیداد کی منتقلی پر کیپٹل گین ٹیکس (CGT)، CVT اور دیگر نئے ٹیکسز نافذ کئے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے 21 بڑے شہروں میں جائیدادوں کی منتقلی پر قیمتوں کے تعین کیلئے نئے DC ریٹس کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس سے غیر دستاویزی معیشت میں کسی حد تک کمی آجائے گی کیونکہ اس وقت ملک میں کالے دھن کو چھپانے کا سب سے آسان طریقہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری ہے جس کی وجہ سے ملکی اقتصادی ترقی کے انجن صنعتی و تجارتی سیکٹرز میں مطلوبہ سرمایہ کاری نہیں ہورہی۔ حکومت نے اس سلسلے میں نرم موقف اختیار کرتے ہوئے جائیدادوں کی قیمتوں کو مرحلہ وار تعین کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پہلے سال پراپرٹی کی منتقلی کے وقت اسکے ڈیکلیئرڈ ریٹ اور اصل مارکیٹ ریٹ کے درمیانی ریٹ کو DC ریٹ تسلیم کیا گیا ہے۔ اسلام آباد چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (ICCI) کے قائم مقام صدر شیخ پرویز احمد اور ملک کے ممتاز چارٹرڈ اکائونٹینٹ اشفاق تولہ نے بھی غیر ظاہر شدہ جائیدادوں کی ریگولرائزیشن کے سلسلے میں ون ٹائم ایمنسٹی اسکیم کیلئے ایف بی آر کو سفارشات بھیجی ہیں جس سے ملکی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا۔ تاہم رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا اصرار ہے کہ حکومت 30جون 2016ء سے پہلے کی جائیدادوں کی منتقلی پر پوچھ گچھ نہ کرے اور ماضی کے بجائے 30 جون2016ء کے بعد ہونیوالی ٹرانزیکشن پر نئے ایمنسٹی قوانین کے تحت عملدرآمد کیا جائے۔ مخصوص مدت کیلئے زیر غور ایمنسٹی اسکیم کے تحت ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے گزشتہ 10سال اور ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے گزشتہ 5 سال کا کالا دھن 3 سے 5فیصد فکس ٹیکس ادائیگی پر سفید کرسکیں گے جو جائیداد کی ظاہر شدہ اور اصل قیمت کے درمیانی فرق پر عائد کیا جائے گا۔
میرے دوست ایف بی آر کے چیئرمین نثار محمد خان گزشتہ ہفتے پاکستان کارپوریٹ گروپ کی میٹنگ میں شرکت کیلئے کراچی آئے جس میں انہوں نے کراچی کے 50 ممتاز کارپوریٹ سیکٹر کے سربراہان، آباد، چارٹرڈ اکائونٹینٹ، انکم ٹیکس ایڈوائزرز اور میڈیا کے مالکان سے اہم ملاقات کی۔ اس اہم میٹنگ میں جائیداد کی منتقلی کی نئی قیمتوں کا موضوع خصوصی طور پر زیر بحث رہا اور شرکاء کی گفتگو سے یہ بات سامنے آئی کہ جائیداد کی نئی اضافی DC ویلیو کیلئے سرمایہ کاروں کو سفید دھن ظاہر کرنے کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم کی ضرورت ہے۔ تقریب میں پاکستان کارپوریٹ گروپ کے روح رواں اظفر احسن اور میرے علاوہ ایف بی آر (LTU) کے چیف کمشنرز ایاز محمود، نوشین امجد اور کراچی میں تعینات انکم ٹیکس کمشنرز نے بھی شرکت کی۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ حکومت ہر سال پراپرٹی کی DC ویلیو میں 10% اضافہ کرکے چند سالوں میں پراپرٹی کی قیمتوں کو مارکیٹ ویلیو کے برابر لے آئے گی اور اس طرح رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کالے دھن کی سرمایہ کاری کافی حد تک ختم کی جاسکے گی۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ یہ ایف بی آر کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ ادارے نے گزشتہ سال 3114 ارب روپے کا ریکارڈ ریونیو ہدف حاصل کیا جس میں ایک ہزار ارب سے زیادہ کراچی کے دو لارج ٹیکس پیئرز یونٹس (LTUs) نے وصول کئے جس کا کریڈٹ ایف بی آر کے چیئرمین اور ان کی باصلاحیت ٹیم کو جاتا ہے لیکن ملک میں اونچی جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنے کیلئے حکومت کو بلاواسطہ (Indirect) ٹیکسوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ریونیو وصولی کے بجائے ریونیو پیدا کرنے والی پالیسیاں بنانی چاہئیں جس سے صنعتکاری کا عمل فروغ پائے اور ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں۔
پاکستان میں ایمنسٹی اسکیموں کا جائزہ لیا جائے تو ملک کی پہلی کامیاب ایمنسٹی اسکیم جنرل ایوب خان کے دور میں پیش کی گئی جس سے جی ڈی پی کا 7% اضافی ریونیو وصول کیا گیا۔ ایف بی آر کے ڈیٹا کے مطابق اس اسکیم کے تحت 71,289 افراد ٹیکس نیٹ میں لائے گئے۔ دوسری ایمنسٹی اسکیم 1969ء میں جنرل یحییٰ خان کے دور میں متعارف کرائی گئی جس سے جی ڈی پی کا صرف 1.52% ریونیو حاصل ہوا اور صرف 19,600 افراد ٹیکس نیٹ میں داخل کئے گئے۔ تیسری ایمنسٹی اسکیم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیش کی گئی جس سے جی ڈی پی کا 2.2% ریونیو حاصل ہوا۔ چوتھی ایمنسٹی اسکیم 1986ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں متعارف کرائی گئی جس کے مصدقہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہوسکے۔ پانچویں ایمنسٹی اسکیم کا اعلان 1997ء میں نواز دور حکومت میں کیا گیا جس سے صرف 141 ملین روپے کا ٹیکس ریونیو حاصل ہوا۔ چھٹی ایمنسٹی اسکیم جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے دور میں متعارف کرائی گئی جس میں 10% کی شرح سے سب سے زیادہ 11.5ارب روپے ریونیو وصول کیا گیا اور 88,000 افراد ٹیکس نیٹ میں شامل کئے گئے۔ 2008ء میں ساتویں ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2% کی شرح سے 2.8 ارب روپے کا ریونیو وصول کیا گیا۔ اس کے علاوہ پی پی حکومت نے اپنے دور کے آخری ایام میں اسمگل شدہ گاڑیوں کیلئے بھی ایک ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی تھی جس کے تحت کسٹم ڈیوٹی ادا نہ کئے جانے والی گاڑیوں کے مالکان معمولی ٹیکس کی ادائیگی سے گاڑیاں ریگولرائز کرواسکتے تھے لیکن گزشتہ سال جون میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے مذکورہ اسکیم غیر قانونی قرار دے کر ایف بی آر کو اس اسکیم کے تحت ریگولرائز کی جانے والی تمام گاڑیاں ضبط کرنے کا حکم دیا۔ وفاقی محتسب شعیب سڈل کے بقول اس اسکیم کے ذریعے چوری شدہ گاڑیاں بھی غیر قانونی ریگولرائز کروائی گئی تھیں لیکن بعد میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 17,000 غیر قانونی گاڑیوں کو ریگولرائز کردیا۔ 2012ء میں حکومت نے انہی خطوط پر اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے رقوم کے حصول کے ذرائع بتانے کی چھوٹ دی تھی۔ 2013ء میں مقامی سرمایہ کاروں کیلئے نواز حکومت نے نویں ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جبکہ رواں سال یکم جنوری کو نواز شریف نے دسویں ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا جو صرف تاجروں کیلئے تھی۔ اس کا اطلاق کارپوریٹ، سروس، صنعتی سیکٹرز، ملازمت پیشہ طبقے، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز، منی لانڈرنگ سے حاصل ہونے والی غیر قانونی دولت پر نہیں تھا۔ مذکورہ اسکیم کے تحت 5 کروڑ روپے تک کی غیر ظاہر شدہ رقوم کو صرف 1% ٹیکس دے کر آفیشل کیا جاسکتاہے مگر اس اسکیم میں پراپرٹی، رئیل اسٹیٹ اور گاڑیاں شامل نہیں کی گئی ہیں اور حکومت کا زیادہ تر فوکس ٹیکس نادہندگان کے بینک اکائونٹس ہیں۔ بدقسمتی سے یہ اسکیم صرف تاجروں تک محدود ہونے کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔
یہ بات صحیح ہے کہ متواتر ایمنسٹی اسکیموں کے آنے سے ٹیکس چوروں کا خوف ختم ہوجاتا ہے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ آئندہ آنے والی اسکیموں کے ذریعے اپنے کالے دھن کو سفید کرالیں گے لہٰذا ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہونے کے بعد ٹیکس چوروں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جانا نہایت ضروری ہے تاکہ انہیں یہ پیغام دیا جاسکے کہ اب ان کیلئے کالا دھن رکھنا آسان نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں کالے دھن کو روکنے کیلئے سخت قوانین بنائے جائیں کیونکہ یہ المیہ ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت ٹیکس نادہندگان، ایماندار ٹیکس دہندگان کے مقابلے میں نہایت کم ٹیکس ادا کرکے اپنے اثاثے اور آمدنی کو قانونی شکل دے دیتے ہیں جس سے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن میرے دوست اور بزنس کمیونٹی کے لیڈرز ایس ایم منیر، رئوف عالم، زبیر طفیل، خالد تواب جو ایف بی آر سے اس سلسلے میں مسلسل رابطے میں ہیں، سے مشاورت کے بعد میری وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو ہارون اختر اور چیئرمین ایف بی آر نثار محمد خان سے درخواست ہے کہ وہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ملک و بیرون ملک رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کالے دھن کی سرمایہ کاری کو دستاویزی شکل دینے اور پراپرٹی کی ظاہر شدہ اور مارکیٹ ویلیو کے فرق کو ختم کرنے کیلئے ون ٹائم ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کریں تاکہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ریگولرائز کرنے کی حکومتی کوششوں پر عملدرآمد کیا جاسکے۔


.
تازہ ترین