• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو ہر فرد اور قوم کی زندگی میں اتار چڑھائو اور بحران آتے رہتے ہیں لیکن مسائل اور بحرانوں کی زد میں جسطرح پاکستان رہا ہے ۔ اسکی مثال ملنا مشکل ہے۔ شائد ہی دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسرا ایسا ملک ہے جو اپنے قیام کے صرف چوبیس برس بعد ہی ٹوٹ گیا اور بقیہ ملک بھی بُری طرح ہچکولے کھا رہا ہو۔ جہاں کے عوام نے چار بڑی جنگیں بھگتیں جن کے نتیجے میں وہ خطّے میں سب سے زیادہ پسماندہ رہ گئے ۔ یہاں تک کہ اس سے علیحدہ ہونے والا بنگلہ دیش بھی ترقی کی دوڑ میں اس سے کہیں آگے نکل گیا۔ جسکی وجہ سے دوسری علیحدگی پسند طاقتوں کو بھی تقویت مل رہی ہے۔ جو بظاہر تو ایٹمی طاقت ہے لیکن جہاں آدھی سے زیادہ آبادی غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جہاں ہر وقت جنگی تیاریاں جاری رہتی ہیں لیکن اسکی معیشت جنگ کا بوجھ چند ہفتے برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں ۔ جہاں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ہر وقت جان و مال قربان کرنے کی نوید دی جاتی ہے لیکن پاکستان کے مسلمانوں کو انتہائی بے دردری سے خون میں نہلا دیا جاتا ہے۔ جہاں انتہا پسند قوتیں مساجد، امام بارگاہوں اور اسکول کے معصوم بچوں تک کو انتہائی سفاکی سے قتل کر دیتی ہیں جہاں بزعم ِ خود اپنے آپ کو دنیا کی بہترین قوم قرار دیکر دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لیکن سوئی سے لے کر ہوائی جہاز انہی اقوام سے درآمد کیا جاتا ہے۔ جہاںاپنے گناہوں اور بد اعمالیوں کو دوسرے ممالک کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ جہاں انسانوں کو معاشی ، معاشرتی اخلاقی اور روحانی لحاظ سے عدم تحفظ اور نا آسودگی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا…یہ کیسا ملک ہے۔ یہ کیسی قوم ہے ۔ جس کی دنیا میں شناخت تاریک دورِ آمریت و بربریت ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ اسی ملک کے ڈاکٹر ، انجینئر اور سائنسدان ترقی یافتہ ممالک میں جاکر وہ کار ہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن یہاں کا ماحول علم اور انسان دشمنی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جہاں اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑا دیا جاتا ہے اور معصوم طالب علموں کو علم حاصل کرنے کی سزا گولیوں سے بھون کر دی جاتی ہے۔ جہاں صرف جہالت کے اندھیرے ہی نہیں بجلی ، گیس اور پانی جیسی روز مرہ کی ضروریات ِ زندگی بھی میسّر نہیں۔ کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ یہ سب مصائب آخر ہمارا ہی مقدر کیوں ہیں؟ کیا ہماری بنیادوں میں کوئی سنگین نقص ہے کہ ہماری قومی عمارت بننے سے پہلے ہی گرِ جاتی ہے۔۔ آخر کہیں کوئی تو خامی ہوگی۔جسے ہم جان بوجھ کر یا سہواََ نظر انداز کررہے ہیں؟
پشاور میں معصوم بچوں کے اندوہناک قتل عام نے ہماری ریاست کی سب سے بڑی خامی کو ایک مرتبہ پھر شدّت کے ساتھ اجاگر کردیاہے ۔ جسے نجانے کس مصلحت کے تحت ہم چھپانا چاہتے ہیں۔۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم نے اپنی ریاست کی بنیادیں اُن مفروضوں اور نظریات پر رکھی ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم نے نجانے کن مصلحتوں کے تحت یہ باور کرلیا ہے کہ ہم دنیا سے کوئی الگ مخلوق ہیں۔ جن پر آفاقی سچائیوں اور حقائق کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ دنیا میں ہر ریاست عوام کے معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے کے لئے وجود میں آتی ہے۔ جس کے لئے عوام کی امورِ حکومت میں شمولیت کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنانے کے لئے ہر سطح پر جمہوریت کو متعارف کرایا جاتا ہے اور اسے پختگی اور بلوغت کے مقام تک لے جانے کے لئے مستقل مزاجی کے ساتھ رواں دواں رکھا جاتا ہے ۔ لیکن ہم نے اپنے خود ساختہ نظریہ پاکستان کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی کا ایک ایسا پنڈورا بکس کھول رکھاّ ہے ۔ جس میں ہر اس نظام کو متروک اور غیر مذہبی قرار دے دیا جاتا ہے جس پر چل کر باقی اقوام ِ عالم نے قابل ِ رشک ترقی کی ہے۔ کبھی ہم فوجی آمریت کو اپنے مسائل کا حل سمجھ کر اداروں کی شکست دریخت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب طویل فوجی آمریت کیوجہ سے ملک ٹوٹ جاتا ہے تو پھر جمہوریت کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔ جب بادل نخواستہ جمہوریت بحال کی جاتی ہے تو اقتدار پر ست غیر جمہوری حلقے ، اس پر اتنی پابندیاں عائد کردیتے ہیں کہ وہ جمہوریت مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل کا سبب دکھائی دینے لگتی ہے۔ پھر غیر جمہوری طاقتیں اپنے ہمدرد دانشوروں کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے لگتی ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل جمہوریت میں ہرگز نہیں۔
چند سالوں کے بعد پھر جمہوریت کو اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور ایک نئی آمریت اسکی جگہ لے لیتی ہے جسے مذہبی اشرافیہ ، جاگیردار اور افسر شاہی قوم کی نجات دہندہ قرار دیکر عوام کے سروں پر مسلط ہوجاتی ہے۔ مذہبی استحصال کا یہ عالم ہے کہ معصوم بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کا بیدردی سے خون بہانے والے اپنی ان وحشیانہ کارروائیوں کو مذہب کے نام پر جائز قرار دیتے ہیں اور اگر کوئی مظلوم احتجاج کرتا ہے کہ ان غیرانسانی حرکتوں کو روکنے اور مذہب کو بدنام ہونے سے بچانے کے لئے مذہب اور سیاست کو علیحدہ کر دیا جائے تو اس پر فتوے لگا کر اس کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ اقتدار پرست حلقے جو خود کو ’’ عقل ِ کل‘‘ سمجھتے ہیں اپنے طور پر کبھی قوم کو ’جہاد‘‘ کی دلدل میں پھینک دیتے ہیں اور کبھی ’’مجاہدین‘‘ کی پرورش کرنے لگتے ہیں۔ جب اس سے ملک میں مزید تباہی پھیلتی ہے تو خود ہی مسیحا بن کر انکی بیخ کنی میں مصروف ہوجا تے ہیں۔
ان سب طبقوں نے پاکستانی معاشرے کو ایک ایسے ’’گورکھ دھندے‘‘ کی شکل دے دی ہے جو روز بروز الجھتا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس کا ایک ہی سیدھا سادا حل ہے کہ ہم بھی دنیا کے دیگر انسانوں کی طرح ہیں۔ ہماری بقا بھی ایک رائج الوقت جمہوری نظام کے ساتھ وابستہ ہونے میں ہے۔ جس کے تسلسل کو کسی بھی صورت میں ختم نہ کیا جائے۔ اور نہ ہی نت نئے نظاموں کے تجربے کیے جائیں ۔ تمام ادارے جو حکمران طبقوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ وہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں سمٹ جائیں اور جمہوری نظام میں مداخلت نہ کریں ۔ یاد رکھیے کسی بھی قوم کی بائنڈنگ فورس صرف اور صرف اس کے جمہوری ادارے ہوتے ہیں جب یہ مضبوط ہوجاتے ہیں تو انتہا پسندی سمیت تمام مسائل آہستہ آہستہ حل ہونے لگتے ہیں۔ ورنہ ریاست مسائل میں تحلیل ہوجاتی ہے ۔ یہی قانون ِ فطرت ہے جس سے مفرممکن نہیں۔
تازہ ترین