• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عجیب روایت ہے اور یقیناً آپ نے بھی اس روایت کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ اگر دن کی روشنی میں آپ کی گاڑی یا موٹرسائیکل کی ہیڈ لائٹس خرابی کی وجہ سے یا غلطی سے روشن ہوجائیں تو سامنے سے آنے والا چاہے پیدل ہو یا سائیکل چلا رہاہو، موٹرسائیکل پر ہویا گدھا گاڑی پر، کار پر ہو یا کسی اور سواری پر آپکو ہاتھ کی پچکاری بناتے ہوئے اشارے سے یہ ضرور باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ آپ کی لائٹس آن ہیں، لیکن آپ کے موٹرسائیکل ، آپ کی گاڑی یا کسی بھی سواری کی یہی ہیڈ لائٹس رات کے اندھیرے میں چلتے ہوئے غلطی سے یا خرابی کی وجہ سے بند ہوں تو کوئی شریف انسان آپ کو یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کرے گا کہ آپ کی لائٹس آف ہے اور آپ کیوں یہ موت یا مصیبت کا سامان لئے پھرتے ہیں بلکہ پولیس والے بھی صرف نظر کردیتے ہیں اسی طرح ٹریفک کی کچھ دیگر روایات بھی ہیں کہ اگر سائیکل سوار کسی پیدل چلتے ہوئے شخص کو سائیکل کی ٹکر ماردے تو بھلے غلطی پیدل چلنے والے کی ہو وہاں موجود راہگیر سائیکل والے کو ہی لتھاڑتے ہیں، اسی طرح اگرموٹرسائیکل سوار سائیکل سوار یا پیدل سے ٹکرا جائے تو شامت موٹرسائیکل سوار کی ہی آئے گی اور جناب یہی روایت کار سے یا بڑی گاڑی سے بھی اسی طرح چلتی ہے، بھلے قصور موٹرسائیکل سوار ، سائیکل سوار یا پیدل چلنے والے کا ہولوگ برا بھلا کار یا بڑی گاڑی والے کو ہی کہیں گے، اور ایسے ایسے فقرے سنیں گے کہ راہ گیروں کے ہاتھوں میں خوامخواہ کھجلی ہونے لگتی ہے اور وہ گاڑی سمیت ڈرائیور کی درگت بنانا شروع کردیتے ہیں، بلکہ کئی مرتبہ تو یہ جانے بغیر کہ قصور کس کا تھا گاڑی کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے اسے نذر آتش کردیتے ہیں بلکہ اس ساخت کی یا کوئی بھی گاڑی ادھر سے مزید گزرے اس کے ساتھ بھی یہی ’’حسن سلوک‘‘ کیاجاتا ہے ، اسی سلوک کے ڈر سے عموماً حادثے کا موجب بننے والا ڈرائیور بجائے گاڑی روک کر کسی کی مدد کرے یا زخمی کو ہسپتال پہنچائے وہ عوام کی اس خاطر مدارت سے بچنے کیلئے راہ فرار اختیار کرتاہے ، ہماری ٹریفک میں کچھ مزید بیماریاں بھی ہیں جس کا علاج ٹریفک پولیس سے زیادہ خود ہمارے پاس ہے، مثلاً گاڑیوں کو لہرا لہرا کر چلنا، نہ جان نہ پہچان پاس سے اوورٹیک کرنے والی گاڑی سے خار کھا کر اس سے ریس لگا لینا اور اسی شاہراہ پرچلنے والی ساری ٹریفک کو خطرے سے دو چار کردینا، موبائل سنتے ہوئے گفتگو میں ایسے غرق ہونا کہ پیچھے سے آنے والی ٹریفک کے بہائو میں رکاوٹ پیدا کردینا، اگلی گاڑی کو اوورٹیک کرنے کیلئے پچھلی گاڑی کا ڈپر مارنا یا خوا مخواہ ہارن بجانا حالانکہ اس گاڑی کی بائیں جانب دوسری لین کی ٹریفک کی وجہ سے اتنی جگہ نہ ہوکہ وہ راستہ دے سکے، ٹریفک سگنلز کی بتی زرد اور پھر سرخ ہوجانے کے باوجود جلدی جلدی گزرنے کی کوشش میں ٹریفک کو بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ خطرے سے بھی دو چار کردینا، دو گاڑیوں کے درمیانی فاصلے میں خوا مخواہ اپنی گاڑی کی ’’چونچ‘‘ گھسا دینا، ٹریفک کے اس سارے ماحول سے خطرات اور حادثات تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن ایسے ماحول میں گاڑی چلا کر آپ چڑچڑے پن کا ایسا شکار ہوتے ہیں کہ ہر جگہ غصے سے شوں شوں کرتے نظر آتے ہیں گھروں، دفاتر ، اور دیگر جگہوں کا ماحول متاثر ہوتا ہے، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ٹریفک کی بہتری سے نہ صرف وقت اور ایندھن کی بچت ہوتی ہے بلکہ نظم و ضبط سے ماحول خوشگوار اور انسانی رویے بھی بہتر ہوتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے ہمیں منصوبہ بندی کرنا چاہیے، خاص طور پر تعلیمی اداروں میں ٹریفک کے اصولوں سے آگاہی کیلئے کم از کم ہفتے میں ایک پیریڈ لازمی مختص کیا جائے،یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر طالبعلم یا شخص نے ڈرائیونگ لازمی کرنا ہوتی ہے لیکن ٹریفک کے اصولوں میں پیدل چلنے والوں کی رہنمائی بھی ٹریفک کی بہتری میں معاون ہوتی ہے، ٹریفک کی بہتری کیلئے لگائے گئے نشانات کے بارے میں ہر کسی کو معلومات ہونا ضروری ہیں، لیکن یہ شرطیہ کہتا ہوں کہ لائسنس ہولڈرز کو بھی ٹریفک کے نشانات کا علم نہیں ہوتا، اور نہ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہراہوں پر جو نشانات اور لائنز لگی ہوتی ہیں ان کے مقاصد یا اصول کیا ہیں، موٹرسائیکل والے ان شاہراہوں پر بھی عین وسط میں ڈرائیو کررہے ہوتے ہیں جہاں ان کیلئے ایک لائن مختص ہوتی ہے ، پنجاب حکومت کے بعد سندھ میں بھی موٹرسائیکل سواروں کو ’’خرمستیوں‘‘ سے روکنے کیلئے سختی کا آغاز ہوا ہے، جس سے کچھ بہتری آئی ہے لیکن ان قوانین پر سختی سے عمل کرانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ ٹریفک کی بدنظمی اور جلد بازی ہمارے ہر معاشرے کے ہر شعبہ میں یوں ہی بھدہ پن پیدا کرتی رہے گی اور موٹروے والے جھگڑے ہمارے لئے کف افسوس ہوںگے۔اگر میں یہ کہوں کہ ہمارے رویوں میں تشدداور بات بات پر الجھنے کی عادت کی ایک وجہ ٹریفک بھی ہے تو غلط نہ ہو گا،رویوں کی درستگی اور قیمتی جانو ںکے لئے ٹر یفک کو نظم و ضبط میںلانا ہم سب کے لئے ضروری ہے اور اسی سے ٹر کو ں کے پیچھے لکھی ہو ئی اس با ت کو تقویت ملے گی کہ ’’ تو ں لنگ جا سا ڈی خیر اے‘‘


.
تازہ ترین