• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جب 2008ء کے عام انتخابات سے قبل شہید بینظیر بھٹو صاحبہ نے قومی اسمبلی کے امیدواروں کے لندن میں ہونے والے اجلاس میں مجھے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’این اے 250 بلاول ہائوس کا حلقہ ہے اور میری خواہش ہے کہ آپ یہ نشست ضرور جیتیں۔‘‘ کچھ روز بعد بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ وہ قومی اسمبلی کی کسی ایک نشست پر مشترکہ امیدوار کھڑا کریں گے جس سے دنیا کو یہ مثبت پیغام ملے گا کہ جمہوریت کی جدوجہد میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ایک ساتھ ہیں۔ اس فیصلے کے بعد بینظیر بھٹو نے جب مجھ سے کہا کہ انہوں نے مشترکہ امیدوار کیلئے آپ کا انتخاب کیا ہے تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ میاں نواز شریف نے میرے حلقے سے اپنی پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار سلیم ضیاء کو میرے حق میں دستبردار کروایا اور انہوں نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ PS-113 میں مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا۔ 2008ء کے انتخابات میں ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میرے انتخابی سائن بورڈز پر تیر کے ساتھ شیر کا نشان بھی موجود تھا۔ پارٹی کی انتخابی مہم جاری تھی کہ 27 دسمبر 2007ء کی دوپہر بینظیر بھٹو صاحبہ نے مجھے اپنے بلیک بیری سے پیغام بھیجا۔
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
جس کے جواب میں، میں نے انہیں کہا کہ ’’بی بی! بلاول ہائوس کے حلقے کی یہ نشست جیت کر آپ کو تحفہ دوں گا۔‘‘
شام کو میرے قریبی دوست فرخ مظہر نے اپنی رہائش گاہ پر انتخابی جلسے کا انعقاد کر رکھا تھا۔ صوبائی امیدواروں کے خطاب کے بعد جب میں نے اپنی تقریر شروع کی تو تھوڑی ہی دیر بعد آغا خان اسپتال کے ڈاکٹر مختار بھٹو جو پیپلزپارٹی کے سرگرم کارکن ہیں، تیزی سے بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور بتایا کہ بینظیر بھٹو راولپنڈی میں نامعلوم افراد کے حملے میں شدید زخمی ہوگئی ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی میں اپنے دوست فرخ مظہر کیساتھ ان کے ڈرائنگ روم پہنچا جہاں ٹی وی پر ہمیں یہ اندوہناک خبر سننے کو ملی کہ بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا ہے۔ یہ دلخراش خبر سنتے ہی میں سیدھا بلاول ہائوس پہنچا جہاں پیپلزپارٹی کے سینیٹرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار بڑی تعداد میں جمع تھے اور اپنے عظیم لیڈر سے بچھڑ جانے پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ رات گئے جب میں بلاول ہائوس سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر جگہ جگہ آگ لگاکر اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔
اسی رات میں نے نوڈیرو جانے کیلئے دبئی اور مختلف جگہوں سے چارٹر فلائٹ کیلئے رابطے کئے۔ اس دوران ہمیں پیغام ملا کہ بینظیر بھٹو کی بہن صنم بھٹو اگلی صبح کراچی پہنچ رہی ہیں جو پارٹی کے سینئر رہنمائوں کیساتھ نوڈیرو جائیں گی لیکن لندن سے آنے والی پرواز میں تاخیر کے باعث وہ ہمارے ساتھ نہ جاسکیں تاہم بعد میں وہ گورنر سندھ کے خصوصی طیارے میں نوڈیرو پہنچیں۔ طیارے میں میرے ساتھ مخدوم امین فہیم، رضاربانی، شیری رحمن، فاروق ایچ نائیک اور پارٹی کے دیگر رہنما موجود تھے جنہیں یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ بینظیر بھٹو انہیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئی ہیں۔ میں شہید بینظیر بھٹو کا جسد خاکی نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش تک لے جانے کا وہ سفر کبھی نہیں بھول سکتا جس کے دوران مجھے کچھ ایسے ملک دشمن نعرے بھی سننے کو ملے جنہیں سن کر بہت افسوس ہوا لیکن پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگاکر لوگوں کے جذبات کو کنٹرول کرنا تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ لاکھوں افراد کی آہوں اور سسکیوں کیساتھ شہید بینظیر بھٹو کی تدفین کے بعد میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور مجھے یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ بلیک بیری سے بھیجا گیا بینظیر بھٹو کا پیغام اور اس کا جواب اپنی قائد سے آخری گفتگو ہوگی۔
شہید بینظیر بھٹو کے سوئم میں میاں نواز شریف اور ان کے قریبی رفقاء سمیت ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لیڈر آصف زرداری سے تعزیت کیلئے نوڈیرو پہنچے جنہیں گڑھی خدا بخش لے جانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ گڑھی خدا بخش میں فاتحہ خوانی کے بعد میاں نواز شریف نے مجھ سے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے حلقہ این اے 250کراچی کی نشست پر قومی اسمبلی کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے آپ کو کھڑا کرنے کی اپنی بہن بینظیر بھٹو کی درخواست مان لی تھی۔ان کے یہ الفاظ سنتے ہی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں سوچنے لگا کہ شہید بینظیر بھٹو مجھے کتنی عزت و احترام دیتی تھیں۔ کچھ روز بعد 17جنوری 2008ء کو شہید بینظیر بھٹو کی ذاتی ای میل سے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے شہید بینظیر بھٹو کے بلیک بیری سے بھیجے گئے آخری پیغامات کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اُن کا بلیک بیری گم ہوگیا تھا لیکن چند روز قبل ہی یہ بلیک بیری، بینظیر بھٹو کی گاڑی سے ملا ہے جس میں موجود پیغامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اُن شخصیات میں شامل ہیں جن سے بینظیر بھٹو اپنے بلیک بیری کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہتی تھیں لیکن آج انہوں نے جمہوریت کےلئے جدوجہد کرتے ہوئے وطن کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا، اس لئے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے میری بھی یہ خواہش ہے کہ میں مستقبل میں آپ کی مخلصانہ رائے سے مستفید ہوتا رہوں۔ آپ کا مخلص آصف علی زرداری۔‘‘
بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کے دیگر انتخابی امیدواروں کی طرح میرا دل بھی سیاست سے بیزار ہوگیا تھا لیکن شہید بی بی سے کئے گئے وعدے کو نبھاتے ہوئے میں نے 2008ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے بھرپور حصہ لیا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں 2008ء کے انتخابات میں پورے پاکستان میں قومی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا وہ واحد مشترکہ امیدوار تھا جسے اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک سمیت دیگر جماعتوں کی مکمل حمایت حاصل تھی اور میرا براہ راست مقابلہ صرف متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار سے تھا۔ انتخابی پولنگ میں، میں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کئے لیکن رات گئے انتخابی نتائج کو تبدیل کرکے عوامی مینڈیٹ کا جو مذاق اڑایا گیا وہ دنیا کے سامنے تھا لیکن ہائیکورٹ میں میری انتخابی پٹیشن پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مرحلے پر مجھے پارٹی ڈسپلن اور مفاہمت کے تحت پارٹی کے شریک چیئرمین کی ہدایت پر اپنا کیس واپس لینا پڑا جس کا مجھے دلی افسوس ہے۔
شہید بینظیر بھٹو کیساتھ میری کئی یادیں وابستہ ہیں جنہیں میں نے اپنی سوانح عمری "A Limitless Pakistani" میں بھی شامل کیا ہے جس کی رونمائی انشاء اللہ 30دسمبر 2014ء کو کراچی میں ہوگی۔ تقریب میں شرکت کیلئے معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور خصوصی طور پر کراچی تشریف لارہے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے میں اپنی سوانح عمری کے چند اہم اقتسابات آئندہ کالموں میں شیئر کروں گا۔
تازہ ترین