• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک اور شکست سے دوچار ہوگیا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی چاہتے تھے کہ 87رکنی کٹھ پتلی اسمبلی میں کسی نہ کسی طرح 44نشستیں حاصل کرلیں تاکہ بھارتی آئین کی دفعہ370میں ترمیم کی قراردادمنظور کراکے مقبوضہ ریاست کو بھارت کا صوبہ بنادیں لیکن کشمیری عوام نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مسترد کرکے ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی۔ سری نگر اسمبلی کے انتخابات میں جنہیں اکثر غیرملکی ذرائع ابلاغ نے ایک طرح کا ملٹری ایکشن قراردیاہے۔ بی جے پی کو صرف25نشستیں مل سکیں۔
تحریک آزادی کی علمبردار حریت کانفرنس اور دوسری پارٹیوں کے لیڈروں نے جن میں سید علی گیلانی، میرواعظ عمرفاروق، سید شبیرشاہ، یٰسین ملک، عبدالغنی بھٹ اور آسیہ اندرابی کے نام نمایاں ہیں انتخابات کے نام پررچائے جانے والے ڈرامے کا مکمل بائیکاٹ کردیاجس کے بعد میدان میں صرف بی جے پی اور بھارتی کانگریس کے علاوہ بھارت نواز پیپلزڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل کانفرنس رہ گئیں۔ نریندرمودی نے اپنی پارٹی کو اکثریت دلانے کیلئے سری نگر اور جموں کے کئی دورے کئے اور ایک رپورٹ کے مطابق3ارب روپے اپنی انتخابی مہم پرخرچ کر دیئے۔فرقہ پرست راشٹریہ سیوک سنگھ نے انکی بھرپور مدد کی۔ اسکے چالیس مرکزی لیڈر مقبوضہ کشمیر پہنچے اور چالیس حلقوں میں دھن دھونس اور دھاندلی کے تمام حربے آزمائے لیکن ہندو اکثریت کے حلقوں کے سوا انہیں کہیں بھی کامیابی نہ ملی۔ اس کے ساتھ ہی کشمیری عوام کی مقبول قیادت کو گرفتار اور نظربند کرکے اسے عوام تک براہ راست بائیکاٹ کاپیغام پہنچانے سے روک دیاگیا۔ اس پر پورے مقبوضہ کشمیر میں ہڑتالیں، شٹرڈائون اور احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ انہیں کچلنے کیلئے فوج پولیس اور دوسری مسلح فورسز کا بے رحمانہ استعمال کیا گیا۔ احتجاجی جلوسوں پر لاٹھی چارج اورآنسو گیس کے استعمال آتش زنی اور فائرنگ کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے۔ کئی مقامات پربار بار کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ پولنگ کے ہر مرحلے میں فوج کے ذریعے ووٹ ڈلوائے گئے اور جعلی ووٹ بھگتانے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ یہ سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود غیرریاستی بی جے پی کو 25اور کانگریس کو12سیٹیں ملیں۔ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ ایک حلقے سے خود بھی ہارے اور انکی حکمران نیشنل کانفرنس صرف15نشستیں جیت سکی۔ انکے مقابلے میں ریاستی تشخص کی حامی لیکن بھارت نواز پی ڈی پی 28نشستیں جیت کر اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ سات نشستیں کمیونسٹوں اور دوسرے گروپوں کو ملیں۔ کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی۔ بی جے پی نے حکومت سازی کے لئے پی ڈی پی کو حمایت کی غیرمشروط پیش کش کی ہے۔ لیکن پی ڈی پی نے حکومت سازی کے لئے چند کڑی شرائط رکھی ہیں۔ ان میں سکیورٹی فورسز کو شورش زدہ علاقوں میں مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ اور سزائیں دینے کے خصوصی اختیارات دینے والے کالے قوانین کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ ان شرائط پر دونوں پارٹیوں میں بات چیت ہورہی ہے۔ تاہم توقع ہے کہ اتحاد کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا جائے گا یہ پی ڈی پی کی مجبوری ہے کیونکہ نئی دہلی کی اشیرباد کے بغیروہ حکومت بنا بھی لے تو چلانہیں سکتی۔ پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی ہیں۔ اصولاً انہیں وزیراعلیٰ ہونا چاہیے۔ لیکن وہ بھارتی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوچکی ہیں اس لئے ان کے والد اور پارٹی کے سرپرست مفتی محمد سعید خود ہی وزیراعلیٰ بنیں گے۔ وہ اس عہدے پرپہلے بھی متمکن رہ چکے ہیں۔ان کا یہ کہنا قابل توجہ ہے کہ 1947سے تما م حکومتوں نے کشمیر کے تشخص کو برباد کرنے کی کوشش کی۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، نہ ہی کوئی جنگ ہونے دیں گے۔پی ڈی پی ، بی جے پی کولیشن میں بالادست قوت اگرچہ نریندر مودی ہی ہوں گے لیکن پی ڈی پی ان کے اصل عزائم میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔
مودی بھارتی پارلیمنٹ سے دفعہ370میں ترمیم کی اس وقت تک منظوری نہیں لے سکتے جب تک سری نگر اسمبلی سے سفارش نہ کرالیں اور پی ڈی پی ایسا نہیں ہونے دے گی۔ اس نے کولیشن قائم کرنے کے لئے بی جے پی کو اس مہم سے دستبردار ہونے کی شرط بھی رکھی ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ تین سال کیلئے وزیراعلی پی ڈی پی سے ہواور تین سال کیلئے بی جے پی سے پی ڈی پی نے یہ مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ نریندر مودی سری نگر اسمبلی سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ بنانے کی قرارداد منظور کراکے بھارت کے اس پرانےمئوقف کو دنیا سے منوانا چاہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات ہی رائے شماری ہیں جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روح کے سراسر منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حریت رہنما سید علی گیلانی نے8لاکھ بھارتی فوج کے خوف کے سائے میں ہونے والے انتخابات کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی اور جمہوری حقوق کی صریح خلاف ورزی اور کھلافوجی آپریشن قراردیاہے اور کہا ہے کہ انتخابات کشمیری عوام کی خواہشات کی عکاسی کرتے ہیں نہ رائے شماری کا نعم البدل ہیں۔ یہی بات شکست خوردہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے انتخابات تنازعہ کشمیر کا حل ہیں نہ ان سے اقوام متحدہ کی قراردادیںغیرموثر ہوسکتی ہیں۔ دوسرے حریت پسند کشمیری رہنمائوں کا موقف بھی یہی ہے ان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد انتخابات کشمیر کی متنازع حیثیت کو تبدیل کرسکتے ہیں نہ رائے شماری کا متبادل ہیں۔
نریندر مودی اس غیرمنطقی سوچ کے علاوہ بھی مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کی کئی دوسری تدابیر پر سرگرمی سے کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک مقبوضہ ریاست کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کے ہرحصے کو وادی کشمیر سے الگ حیثیت دیناہے تاکہ اس عظیم ہمالیائی ریاست کااسلامی تشخص ختم کیاجاسکے۔ اس سلسلے میں جموں اور لداخ کو الگ الگ ریاستوں کا درجہ دینے کا منصوبہ توپراناہے۔ اب وادی کے پنڈتوں کو بھی جن کے مسلمانوں سے ہمیشہ دوستی اور مروت کے رشتے رہے ہیں۔ اکسا کر ان کیلئے الگ انتظامی یونٹ قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ ہندو اور بودھ اکثریت کے حلقوں پر مشتمل نام نہاد اسمبلیوں سے قراردادیں منظور کرا کے ان علاقوں کو بھارت میں شامل کر لیا جائے اور وادی کشمیر کی آواز کو دبا دیا جائے یہ جموں و کشمیر کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی منصوبہ بندی ہے جسے کشمیری عوام کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
تازہ ترین