• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صبح پانچ بجے کے قریب آنکھ کھلی اور گیلری کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو ہوٹل کے قدموں میں بچھے سمندر میں سوئی کشتیوں کی بتیاں ابھی جاگ رہی تھیں۔ دور ایک جزیرہ بھی دکھائی دیتا تھا جس کی روشنیاں اس پر موجود آبادی کا پتا دیتی تھیں۔ میں ترکی کے ساحلی شہر کوشاداسہ میں تھا اور اتنا قریب دکھائی دینے والا وہ جزیرہ ترکی کی نہیں، یونان کی ملکیت تھا۔وہاں سے اس جزیرے کو دیکھ کر دل میں تڑپ اٹھتی ہے کہ ابھی نیچے سوئی ہوئی کسی کشتی میں بیٹھیے اور اس جزیرے میں چلے جائیے۔ اس جزیرے کا نام ’ساموس‘ ہے اور کوشاداسہ آنے والے سیاح اگر چاہتے ہیں تو یہاں سے فیری میں بیٹھ کر ساموس جا سکتے ہیں۔ یونانی حکام جھٹ ان کے پاسپورٹ پر ویزا لگاتے ہیں اور سیاح ایک نئی دنیا دیکھنے نکل جاتے ہیں۔ میں نہیں جا سکتا، کیونکہ میرے پاس ان کے جیسا پاسپورٹ نہیں۔
شاید میں وہیں اس آرام دہ کرسی پر کچھ دیر کے لیے اونگھ گیا کیونکہ جب میرے اوسان بحال ہوئے تو سات بجے کا عمل تھا۔ ہوٹل کے نچلے حصے میں ناشتہ لگ چکا تھا اور ناشتہ کرتے ہوئے بھی آپ اس سمندر کا نظارہ کر سکتے تھے کیونکہ آپ کے دائیں جانب پتھروں کے بجائے شیشے کی دیوار تھی۔ یہ بحیرہ ء ایجین تھا۔ وہی ایجین جس میں کبھی اخی لیوس اور اوڈیسئس کشتیوں میں سوار ادھر سے ادھر گھومتے تھے اور جس کے راستے انھوں نے ٹرائے پر حملہ کیا تھا تاکہ ہیلن کو بازیاب کرا سکیں۔
سمندر اور ہوٹل کے درمیان میں نے دو افراد کو دیکھا جو ایک دوسرے کی تصویریں بنا رہے تھے۔ اپنے کمرے کی گیلری سے ایک اچھی سیلفی بنانے کی میری تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں اس لیے میں ناشتے کے بعد ان کے پاس چلا آیا تاکہ ان میں سے کسی ایک کو سمندر کے پس منظر میںاپنی تصویر بنانے کا کہہ سکوں۔ ان میں سے ایک نے میرے موبائل سے میری تصویریں لیں۔ وہ سری لنکا سے تھے۔ انھوں نے مجھ سے میرا وطن پوچھا تو میں نے کہا: پاکستان۔ اس پر ان دونوں کے چہرے اتر گئے۔ ایک بولا:
’’کل دہشت گردوں نے پشاور میں حملہ کیا ہے۔‘‘
’’جی جی۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس دہشت گردی پر قابو پا لیں‘‘، میں نے موضوع بدلنے کے لیے کہا۔
’’ایک اسکول میں ایک سو تیس بچے قتل کر دیے گئے‘‘، وہی شخص بولا اور اس کے بعد میں تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔
ترکی آنے کے بعد میں کوشش کرتا رہا تھا کہ انٹرنیٹ سے دور رہوں تاکہ عمران خان کے بے معنی احتجاج کی کوئی اپ ڈیٹ مجھے نہ مل سکے۔ لیکن اب جو خبر ملی تھی اس کی تفصیلات جانے بغیر چارہ نہیں تھا۔ اپنے موبائل پر گوگل سرچ کیا تو پہلی تصاویر دیکھ کر ہی ہمت نہ رہی کہ مزید تفصیلات پڑھ سکوں۔
ہمیں اس صبح کوشاداسہ کے قریب افیسس کے کھنڈرات دیکھنے تھے اور بی بی مریم کا گھر بھی جو ایک پہاڑی کی چوٹی پر ابھی کچھ ہی برس پہلے دریافت کیا گیا تھا۔ گاڑی میں ملائشیا کا ایک پورا گروپ سوار تھا جس کے نوجوان ایک بدیسی زبان میں زور زور سے باتیں کر رہے اور قہقہے لگا رہے تھے۔ آسٹریلیا کا ایک شہری اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ گاڑی میں تھا۔میاں بیوی خاموش تھے اور ان کے دونوں بچے آپس میں بہت آہستگی سے بات کرتے تھے۔ ایشیائی لوگ بہت بولتے ہیں، جیسا کہ ملائشیا کا وہ گروپ، میں نے سوچا۔ میں خود بھی خاموش تھا، لیکن اس کی وجہ کچھ اور تھی۔
اگلے روز ہمیں کوشاداسہ سے ہی پامک قلعہ جانا تھا، جہاں گرم پانی کا ایک حیرت انگیز چشمہ ہے۔ پامک قلعہ کی سیر کے لیے ایک اور ترک گائیڈ ہمارے ہمراہ تھا۔ ترکی میں سیاحت کے فروغ کے ساتھ ہر طرف انگریزی کا بھی دور دورہ ہے۔ تمام گائیڈ فرفر انگریزی بولتے ہیں۔ اس بار ایک انڈونیشی بزرگ ساتھ تھے۔ ہم دونوں نے ترک گائیڈ سے بات چیت شروع کر دی۔
’’تم کہاں سے ہو؟‘
’’میں پاکستان سے ہوں‘‘
’’پاکستان میں پرسوں ایک سو چالیس بچے قتل کر دیے گئے‘‘
پامک قلعہ کی سیر کے بعد میں ڈینزلی پہنچا جہاں سے مجھے ہوٹل والوں نے ٹیکسی کے ذریعے سلجوق پہنچانا تھا اور سلجوق سے مجھے ایک گاڑی میں سڑک کے ذریعے استنبول جانا تھا۔ ٹیکسی والے کی انگریزی گائیڈ جیسی تو نہیں تھی لیکن وہ میری بات سمجھ بھی لیتا تھا اور اپنی سمجھا بھی لیتا تھا۔ پھر اسے باتوں کا شوق بھی تھا۔ پشاور میں بچوں کے قتل کے اندوہ ناک واقعے کا اسے بھی علم تھا۔ میں نے قدرے بے بسی سے اس سے کہا کہ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ دہشت گردی پر قابو پا لیں۔ اس نے میرے اداس لہجے کو محسوس کر لیا اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
’’برادر کم ٹو ٹرکی۔ اوپن اے ہوٹل۔ گڈ منی۔ نو بلڈ۔‘‘
میں نے اس کی یہ پیش کش شکریے کے ساتھ نامنظور کی اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جہاں رات اپنا پہرا جمانے لگی تھی۔
استنبول پہنچنے کے بعد میں اس کے ایشیائی حصے سے ایک فیری پر بیٹھا اور دس منٹ میں یورپی حصے میں پہنچ گیا۔ اس کے بعد ایک ٹیکسی لی۔ ٹیکسی والے نے پوچھا:
’’وچ کنٹری؟‘‘
’’پاکستان‘‘
’’پاکستان چلڈرن کل۔ ون ہنڈرڈ فورٹی۔ آئی نو۔ رادیو۔ دِس دِس‘‘ وہ ٹیکسی میں لگے اپنے ریڈیو پر ہاتھ مار مار کر کہنے لگا۔
اس کے بعد میں مزید چار دن استنبول میں رہا۔ اب کوئی مجھ سے میرا حدود اربعہ دریافت کرتا تو مکالمہ کچھ یوں ہوتا:
’’وچ کنٹری؟‘‘
’’فارنر‘‘
’’بٹ وچ کنٹری‘‘
’’نو انگلش۔ سوری۔ نو انگلش‘‘
تازہ ترین