• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر بڑا سانحہ، حادثہ یا دہشت گردی کا واقعہ کچھ بڑے سوالات کوجنم دیتا ہے ۔ سمجھدار لوگ ان سوالات کا جواب تلاش کرتے ہیں تاکہ ان خامیوں اور غلطیوں کا پتہ چلے جن کے باعث حادثہ ہوا اور آئندہ مزید نقصان نہ ہو ۔ اس کے ذہن میں بھی کچھ ایسے ہی سوالات کا شور تھا۔ وہ ایک ذمہ دار صحافی کی حیثیت سے ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن اسے کہا گیا کہ وہ ملکی مفاد میں ان سوالات کو نظرانداز کر دے ۔ اس مشورے پر وہ تلملا اٹھا۔ اس نے کہا کہ ان سوالات کو اٹھانا عوامی مفاد میں ہے اور وہ یہ سوالات ضرور اٹھائے گا۔ بھارت کے ایک بڑے ٹی وی چینل کیلئے کام کرنے والے اس مشہور صحافی کے ذہن میں اوڑی کے علاقے میں بھارتی فوج کے ایک مرکز پر حملے کے سلسلے میں بڑے سادہ سے سوالات پیدا ہوئے ۔ پہلا سوال یہ تھا کہ بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر آہنی باڑ لگا رکھی ہے، اوڑی کی طرف آنے جانے والے تمام اہم راستوں پر فوج کے ناکے ہیں، سیٹلائٹ سسٹم سے اس علاقے کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے، دو ماہ سے یہاں کرفیو نافذ ہے پھر چار عسکریت پسند بھاری اسلحے کے ساتھ اوڑی میں بھارتی فوج کے مرکز میں کیسے گھس گئے ؟ ان عسکریت پسندوں نے چار گھنٹے تک سینکڑوں فوجیوں کا کیسے مقابلہ کیا اور بھارتی فوج کی کن کمزوریوں کا فائدہ اٹھایا ؟ دوسرا سوال اوڑی حملے کی ٹائمنگ کے متعلق تھا ؟اس حملے کا فائدہ کسے اور نقصان کسے ہوا ؟ تیسرا سوال یہ تھا کہ اگر اوڑی حملے کے باعث بھارت اور پاکستان میں جنگ شروع ہوتی ہے تو زیادہ نقصان کس کا ہو گا ؟ بھارتی صحافی نے یہ تینوں سوالات میرے سامنے رکھے اور کہا کہ میں اس کے ٹی وی پروگرام میں ان سوالات پر بات کروں۔ میں کافی عرصے سے بھارتی ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں شرکت سے گریز کرتا ہوں کیونکہ ان پروگراموں میں ایک دوسرے پر چیخنے چلانے کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کی جاتی ہے لیکن اس پروگرام میں شرکت کیلئے میں نے حامی بھرلی ۔ پروگرام کے آغاز سے آدھ گھنٹہ قبل مذکورہ بھارتی صحافی نے مجھ سے پہلے واٹس اپ اور پھر اسکائپ پر رابطہ کیا اور کہا کہ اس کے چینل کے مالکان نے اسے ان سوالات پر پر وگرام کرنے سے روک دیا ہے اور کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گفتگو کروں لہٰذا میں آپ سے معذرت خواہ ہوں ۔ اس صحافی نے مایوسی کے عالم میں کہا کہ وہ پچھلے کافی عرصے سے اس قسم کی غیر اعلانیہ سنسر شپ کا سامنا کر رہا ہے جس میں حکومت اور سیکورٹی ادارے خود سامنے نہیں آتے بلکہ مینجمنٹ کے ذریعہ اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کراتے ہیں۔ یہ بھارتی صحافی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سنسر شپ کے نت نئے طریقوں پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں وہ یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد کون سے اخبار اور کون سے ٹی وی چینل سے کس کس کو کیسے ہٹایا گیا اور کیسے سرکاری ایجنڈے پر چلایا گیا اور اس غیر اعلانیہ سنسر شپ نے بھارت کو کیسے مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کر دیا ہے؟میں نے پوچھا کہ تمہاری کتاب بھارت میں کون سا پبلشر شائع کرے گا ۔اس نے کہا کہ یہ کتاب بھارت میں نہیں برطانیہ میں شائع ہو گی، ہو سکتا ہے کہ کتاب شائع ہونے کے بعد وہ بھی برطانیہ منتقل ہو جائے تاکہ زندگی کے کچھ آخری سال جھوٹ بولے بغیر گزر جائیں۔
ایک بھارتی صحافی کی مجبوریوں اور فرسٹریشن کا ذکر پڑھتے ہوئے آپ کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ کھیل رہی ہو گی اور آپ سوچ رہے ہونگے کہ بھارت میں سنسر شپ کا ذکر کر دیا پاکستان کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ۔ جناب مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی شرم نہیں کہ پاکستانی میڈیا کو بھی اکثر ملکی مفاد کے نام پر سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ آج کے دور میں اچھی جمہوریت اور اچھی صحافت لازم و ملزوم ہیں ۔ دنیا کے جن ممالک میں صحافت اور عدلیہ آزاد ہے وہاں صاف ستھری جمہوریت نے عام آدمی کے معیار زندگی کو بہتر بنایا ہے لیکن جہاں جہاں صحافت پر پابندیاں وہاں جمہوریت بھی بدنام ہے اور ایسی ریاستیں اندر سےکمزور ہوتی جا رہی ہیں ۔ کسی بھی سانحے، بڑے حادثے یا دہشت گردی کے واقعہ کے بعد سیکورٹی اداروں اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کی کارکردگی کے متعلق سوالات اٹھانے کا مقصد ان اداروں کی تضحیک کا حوصلہ شکنی نہیں ہوتا بلکہ ایسے سوالات پر بحث سے ان اداروں کی مدد کی جاتی ہے لیکن عام طور پر بھارت اور پاکستان میں ایسے سوالات اٹھانے والے صحافیوں اور سیاست دانوں کو وطن دشمن قرار دیکر انہیں خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس غیر اعلانیہ سنسر شپ کا فائدہ وہ عناصر اٹھاتے ہیں جو انتہا پسندانہ نظریات اور جنگی جنون کی گرد اڑا کر سب کو اندھا کر دیتے ہیں ۔بھارت اور پاکستان میں حب الوطنی کے نام پر شروع کی گئی غیر اعلانیہ سنسرشپ کے بطن سے صرف اور صرف جنگی جنون جنم لے رہا ہے ۔ یہ جنگی جنون دونوں ممالک کے عوام کی اکثریت کیلئے موت کا پیغام ہے تاہم چند افراد اس جنگی جنون سے ذاتی فائدہ ضرور اٹھا سکتے ہیں ۔ اوڑی میں بھارتی فوج کے مرکز پر حملے سے وہ لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو پچھلے دو ڈھائی ماہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں شروع ہونے والی ایک سیاسی تحریک کے بعد پس منظر میں چلے گئے تھے ۔ اوڑی حملے نے جس جنگی جنون کو جنم دیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے براہمداغ بگٹی میدان میں آ چکے ہیں۔ دوسری طرف خالصتان کے حامی کچھ سکھ رہنما پاکستان سے یہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ اگر بھارت براہمداغ بگٹی کی سرپرستی کرتا ہے تو پاکستان بھی کھلم کھلا خالصتان کی حمایت شروع کر دے۔ اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کشمیریوں کے حق میں ایک بھرپور تقریر کے بعد بھارت کی طرف سے جنگی جنون کو مزید ہوا دی جائے گی اور اس جنگی جنون کا ردعمل پاکستان میں بھی ہو گا۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو سوچنا ہو گا کہ بھارت کے ساتھ جنگ کی صورت میں کون ہمارے ساتھ اور کون ہمارے خلاف کھڑا ہو گا؟کیا پاکستان کے ساتھ دوستی کا دم بھرنے والے تمام ممالک جنگ کی صورت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے؟ یہ طے ہے کہ امریکہ ہمارے نہیں بھارت کےساتھ کھڑا ہو گا ۔چین پاکستان کا دوست ہے لیکن 1971ء کی جنگ میں چین نے پاکستان کی فوجی مدد کرنے سے معذرت کرلی تھی ۔ آئندہ چین کیا کرے گا ؟ کیا ہمارے پاس کوئی ضمانت ہے ۔
پاکستان کو سفارتی میدان میں بھارت کا مقابلہ کرنے کیلئے جارحانہ خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے ۔ بھارت کے مقابلے کیلئے اہم ترین ضرورت قومی اتحاد کی ہے اور قومی اتحاد کیلئے ایک مضبوط اور طاقتور میڈیا کا کردار انتہائی اہم ہے ۔ کیا پاکستان کا میڈیا قوم کو متحد کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے ؟ جو میڈیا اپنی آزادی کیلئے خود متحد نہیں وہ قوم کو کیا متحد کرے گا؟ جب تک پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق میڈیا کو آزادی نہیں ملتی اور اسے سنسر شپ کے نت نئے طریقوں سے نجات نہیں ملتی یہ میڈیا جنگ کی صورت میں کوئی موثر کردار نہیں کر سکتا۔ میڈیا کا کام ریاست کے کسی ایک ادارے کا دفاع نہیں بلکہ عوامی مفاد کا دفاع ہے ۔ عوام کی مدد اور حمایت کے بغیر کوئی ریاست اور کوئی ادارہ کسی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا اگر آپ میڈیا کی جنگ میں بھارت پر بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر پاکستانی میڈیا کو غیر اعلانیہ سنسر شپ سے آزاد کر دیں ۔ یہ آزادی ریاست اور عوام کے مابین رشتوں کو مضبوط کریگی اور پاکستان کے خلاف دشمنوں کی سازشوںکو ناکام بنا دے گی۔


.
تازہ ترین