• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الحمد للہ !عوام الناس اور تمام صاحب الرائے متفق ہیں کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔ ہم نے بھی ہاتھ سے کنگن کو آرسی کیا،وطن عزیز میں سارے تجربات کرکے دیکھ لئے مگر گزشتہ 70سالوں میں جمہوریت کا نعم البدل نہیں مل سکا۔ چار آمروں کے دور آئے مگر پاکستان کو غربت،مایوسی اور بدحالی کے سوا کچھ نہیں ملا۔صد شکر آئین و قانون، آزاد عدلیہ، آزاد میڈیا اور صاحب فکر پاکستانی سب بیدار ہیں۔ عمرانی مسائل اور ان کا تقابل ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھی شہری آبادی کے مروجہ مسائل سے نمٹنے کی ذمہ داری صرف مقامی حکومت ادا کر سکتی ہے۔ سابق صدر ایوب خان نے بی ڈی ممبر کا نظام متعارف کرایا۔ پھر جنرل (ر) ضیا الحق کا دور آیا توا نہوں نے اپنا کونسلرز کا نظام متعارف کرا دیا۔ آمر حکمرانوں کے تجربات کا سلسلہ چلتا رہا اور پرویز مشرف نے بھی اپنے اسلاف کا سہارا لیتے ہوئے ایک نیا ہی نظام متعارف کرا دیا۔ اس نظام نے کیا کھویا کیا پایا سب آج تاریخ کا حصہ ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس نظام میں داد پائی تو بہت سوں نے زر نقد معلوم نہیں کہاں گنوا دیا۔ آج مسائل کا انبار عفریت کی طرح منہ کھولے دکھائی دیتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گلیاں، ابلتے ہوئے سیوریج کس کو دہائی دیں۔ یاد رکھیں کہ یہ مسائل صرف مقامی سطح پر منتخب بلدیاتی نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں۔ جو اپنے پڑوس میں رہنے والوں کو جواب دہی اور کارگزاری کا حساب دینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ سرکاری افسران اپنے کام میں بھلے جتنے ہی اچھے ہوں مگر وہ مقامی نمائندوں جیسا درد محسوس نہیں کرسکتے۔ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں آج گزشتہ تقریباً دس سالوں سے بلدیاتی ادارے ہی موجود نہیں ہیں۔ عدالتی احکامات پر بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ تو کرا دیا گیا مگر دوسرا مرحلہ گزشتہ ایک سال سے ارباب و اختیار کی ہاں کا منتظر ہے۔
پنجاب میں 5دسمبر 2015کو بلدیاتی انتخابات کا تیسرا اور آخری فیز مکمل ہوا تھا۔ جس کے بعد حکومت نے مخصوص سیٹوں کا شیڈول جاری کرکے اداروں کے سربراہان کا انتخاب کرانا تھا۔ مگر پہلے چند ماہ نئے آرڈیننس اور آئینی ترامیم کی نذر ہوگئے۔ کچھ قوانین حکومت کو پسند نہیں تھے تو کچھ پر اپوزیشن راضی نہیں تھی۔جس پر دونوں فریقین مطمئن ہوئے تو کوئی تیسرا اٹھا اور عدالت سے حکم امتناعی لے آیا۔ آئینی ترامیم اور مختلف آرڈیننس متعارف کراکر معاملے کو مزید پیچیدہ کیا گیا۔ حکومت کی پہلی ترمیم میں مخصوص سیٹوں کی تعداد بڑھائی گئی تھی،کئی دہائیوں سے طے ٹیکنو کریٹ نشست کی قابلیت اور تجربے کو تبدیل کیا گیا ۔خواتین کی مخصوص سیٹوں پر انتخاب کے لئے الیکشن کے بعد ترجیحی فہرستیں فراہم کی گئیں۔جس پر حکومت کا الیکشن کمیشن سے ہی تنازع ہوگیا۔ حکومت کا موقف تھا کہ جب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پرائیرٹی(ترجیحی) فہرستیں فراہم کی جاتی ہیں تو بلدیاتی انتخابات میں ایسا کیو ں نہیں ہے؟ جب کہ الیکشن کمیشن نے جائز اعتراض لگایا کہ اگر یہ ترجیحی فہرستیں فراہم کرنا تھیں اور یہی طریقہ کار اختیار کیا جانا تھا تو یہ سب کچھ انتخابات سے پہلے کیا جاتا۔ اگر الیکشن کمیشن اب یہ سب کچھ کرے گا تو عمومی تاثر ابھرے گا کہ الیکشن کمیشن کسی ایک صوبے میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لئے اختیارات سے تجاوز کررہا ہے۔حکومت اس معاملے پر ہائیکورٹ چلی گئی ۔جس پر الیکشن کا آخری مرحلہ پھر تاخیر کا شکار ہوگیا۔وزیراعظم نوازشریف نے چند ہفتے قبل معاملے کا نوٹس لیا اور پنجاب حکومت کو ہائیکورٹ میں زیر التوا تمام درخواستیں واپس لینے کی ہدایت کی۔جس کے بعد حکومت نے درخواستیں واپس لے لیں او ر پرانی ترمیم بحال کردی۔ جب پرانی ترمیم ہی بحال کرنی تھی تو پھر 8ماہ سے زائد کی بلاوجہ مشقت کیوں کی گئی۔ جب حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو آخری مرحلے کا شیڈول جاری کرنے کے لئے لکھ دیا گیا اور شیڈول جاری ہوگیا تو چند روز بعد دیگر جماعتیں عدالت میں چلی گئیں کہ جب آئینی ترمیم واپس ہوگئی ہے اور مخصوص سیٹیں کم ہوکر ٹیکنو کریٹ کی تعلیمی قابلیت سابقہ کردی گئی ہے تو پھر تمام امیدواروں کو نئی شرائط کے مطابق نئے کاغذات جمع کرانے کے لئے وقت دیا جائے اور شیڈول منسوخ کیا جائے۔ ہائیکورٹ نے فریقین کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو شیڈول منسوخ کرنے کا حکم دے دیا ۔اب حکومت ایک بار پھر پرانے کاغذات پر ہی مخصوص سیٹوں کے انتخابات کرانے کا فیصلہ کر چکی ہے۔اس میں ایک بار پھر لوگ عدالتوں میں جائیں گے اور معاملہ مزید تاخیر کا شکار ہوگا۔
آج حکمران جماعت پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرا بھی دے تو یاد رکھیں کہ اب مسلم لیگ ن پورے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے کلین سوئپ کا کریڈٹ کھو چکی ہے۔ بلا سبب تاخیر سے ارباب و اختیار نے اپنی فتح کو شکست میں بدل دیا ہے۔ منتخب نمائندے اپنی ہی جماعت سے بددل ہوچکے ہیں، مایوسی کا یہ عالم ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں کئی درجن منتخب چیئرمینز مستعفی ہوکر گھر بیٹھ جائیں گے۔کیونکہ ان کا موقف ہے کہ بے اختیار چیئرمین سے تو گھر بیٹھنا بہتر ہے۔ ایسے کم ازکم لوگ تو ناراض نہیں ہونگے کہ منتخب چیئرمین ہمارے کام نہیں کرتا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ ہر یونین کونسل کو25لاکھ دئیے جائیں گے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ مخدوم احمد محمد جیسے سیاسی مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ حکومت ابھی مزید کچھ عرصہ بلدیاتی انتخابات کرانے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ پرانی یونین کونسلز کو ایک لاکھ جبکہ نئی یونین کونسلز کو 5لاکھ دئیے جائیں گے۔اس وقت پنجاب میں 623نئی یونین کونسلز بنی ہیں۔ مشکل ہوگا کہ نئے مالیاتی سال سے قبل تمام یونین کونسلز کو پیسے دے دئیے جائیں۔ابھی تمام 623یونین کونسلز میں سیکرٹری کی تعیناتی ہونا باقی ہے۔یاد رہے کہ سیکرٹری یونین کونسل کے بغیر نیا اکاؤنٹ نہیں کھولا جاسکتا،کرائے پر عمارت حاصل کرنے کے لئے سیکرٹری کے دستخط درکار ہوتے ہیں۔ابھی آپ نے ایک سیکرٹری کو چار ،چار یونین کونسلز کا چارج دیا ہوا ہے۔نہ وہ اپنی یونین کونسل سنبھال سکتا ہے اور نہ دیگر چار۔ برتھ سرٹیفکیٹ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ سمیت سارے کام رکے ہوئے ہیں۔ عوام شدید اذیت کا شکا ر ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت تمام اقدامات کو عملی جامہ پہنائے۔اگر امریکہ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے تو ہمیں یاد ہوناچاہئے کہ ریاست ہائے امریکہ میں 435ایوان نمائندگان،100سینیٹرز، گورنرز، قانون ساز اسمبلیوں کے ارکان، سینکڑوں شہروں کے میئر سمیت لاکھوں افراد عوام سے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ان منتخب افراد کی تعداد تقریباً12لاکھ ہے اور میرے ملک کی قومی اسمبلی ،چاروں صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ کو ملاکر یہ تعداد صرف 1200بنتی ہے۔جب جمہوریت سے وابستہ لوگوں کی تعداد ہی چند سو ہوگی تو پھر ادارے مضبوط کیسے ہونگے۔اگر ملک میں مارشل لا او ر غیر آئینی اقدامات کا راستہ روکنا ہے تو خدارا ان لاکھوں منتخب بلدیاتی نمائندوں کو سسٹم میں شامل کریں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ پنجاب کے تمام اضلاع میں آپکی جماعت کی اکثریت ہے۔ تمام سربراہان آپکی پارٹی کے لوگ ہونگے۔براہ کرم بلدیاتی اداروں کے سربراہان کو بااختیار بنائیں اور جلد از جلد سسٹم میں شامل کریں۔ جب جمہوریت سے مستفید ہونے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہوگی تو پھر امپائر کی انگلی سمیت تمام خطرات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قصہ پارینہ ہوجائیں گے اور اگر یونہی جمہوریت کے ساتھ مذاق کیا جاتا رہا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب جمہوریت ہم سب کے ساتھ ایسا مذاق کرے گی کہ تاریخ یاد رکھے گی۔


.
تازہ ترین