• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2015ء میں کہا ہے (الف) گزشتہ 16؍برسوں میں نیب نے مجموعی طور پر 274؍ ارب روپے کی وصولی کی ہے اور (ب) اس مدت میں نیب نے مجموعی طور پر قومی خزانے میں 10.6؍ارب روپے جمع کرائے ہیں جبکہ اسی مدت میں اس کے مجموعی اخراجات 2.9؍ارب روپے رہے۔ اس امر میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ نیب کا 274؍ ارب روپے کی وصولی کا دعویٰ غلط اور مبالغہ آمیز ہے۔ نیب نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ 274؍ ارب روپے کے اس حجم میں بینکوں کے قرضوں کی وصولی کے 181.367؍ارب روپے بھی شامل ہیں جس کی تفصیل یہ بتلائی گئی ہے۔
iنیب کی جانب سے پھنسے ہوئے قرضوں کی وصولی 10.766ارب روپے
ii اسٹیٹ بینک کے مطابق نیب کی جانب سے قرضوں کی وصولی110.892 ارب روپے
iiiقرضوں کی ری شیڈولنگ59.709ارب روپے
نیب کی مجموعی وصولی 181.367ارب روپے
یہ بات تو عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ بینکوں کے قرضوں کی ری شیڈولنگ اور ری اسٹرکچرنگ کو وصولی کہا ہی نہیں جاسکتا۔ دراصل ان قرضوں کی ری شیڈولنگ وغیرہ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں ہوئی تھیں اور بعد میں ان میں سے بہت سے قرضوں کو معاف بھی کرنا پڑا تھا۔ نیب نے 2014ء کی اپنی سالانہ رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ اس کے مالیاتی جرائم کے تحقیقاتی شعبے نے بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کی مد میں اب تک 121.658؍ ارب روپے کی وصولی کی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی متعدد رپورٹوں سے نیب کے اس دعوے کی تردید ہوتی ہے۔ اسی ضمن میں چند حقائق پیش ہیں۔
(1) نیب نے 2002ء میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کی مد میں 80؍ارب روپے کی وصولی کی ہے جبکہ اس نے 55.73؍ ارب روپے کے قرضوں کی ری شیڈولنگ اور ری اسٹرکچرنگ میں مدد دی ہے۔ اس کے بعد اسٹیٹ بینک کے گورنر نے اکتوبر 2002ء میں کہا تھا کہ گزشتہ 3برسوں میں نیب کی مدد سے بینکوں کے قرضوں کی وصولی اور ری شیڈولنگ کا مجموعی حجم 17.5؍ ارب روپے ہے جبکہ نیب کا دعویٰ 135.73؍ارب روپے کا تھا۔ (اسٹیٹ بینک کی مطبوعہ دستاویز ’’پاکستان کی معیشت کے بڑھتے مسائل‘‘ صفحہ 233)
(2) ہم نے اپنی کتاب ’’پاکستان اور امریکہ، دہشت گردی، سیاست و معیشت ‘‘ میں اس وقت کے وزیر قانون کی سینیٹ میں کی گئی تقریر کا حوالے دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ نیب نے 225؍ ارب روپے کی وصولی کا دعویٰ کیا ہے جبکہ نقد وصولی صرف 9؍ ارب روپے ہے۔
یہ بات حیرت سے پڑھی جائے گی کہ ستمبر 2000ء سے اب تک نیب میں 7چیئرمین تعینات ہوئے جن میں دو حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل ،ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل، سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج ، ایک ریٹائرڈ ایڈمرل اور دو ریٹائرڈ بیوروکریٹ شامل ہیں۔ یہ سب صاحبان نیب کی جانب سے کی جانے والی وصولی کے اعدادوشمار بڑھا چڑھا کہ پیش کرتے رہے ہیں۔ ہم ان ہی کالموں میں ان اعداد و شمار کو غلط اور نیب کے اقدامات کو متنازع ، غیرشفاف اور مایوس کن قرار دیتے رہے ہیں (جنگ 18؍نومبر 2003، 9؍ مارچ 2004ء ، 30؍جولائی 2015ء اور 25؍فروری 2016ء)
وطن عزیز میں کرپشن ، بدانتظامی ، نااہلی اور مختلف وجوہات بشمول ٹیکسوں کی استعداد سے کم وصولی کی وجہ سے قومی خزانے کو آٹھ ہزار ارب روپے سالانہ یعنی 22؍ ارب روپے روزانہ کا نقصان ہورہا ہے جس سے معیشت اور عام آدمی پر تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نیب گزشتہ چندبرسوں سے خصوصی طور پر تنقید کی زد میں رہا ہے مگر ایسا نظر آتا ہے کہ اس تنقید کا مقصد نیب کو مزید کمزور کرنا ہے تاکہ وہ میگا کرپشن کے معاملات کو پس پشت ڈالے رکھے یا طاقتور افراد کو قواعد سے انحراف کرکے بری کردے۔ نیب کی لوٹی ہوئی دولت کی رضاکارانہ اسکیم نہ صرف کرپشن کے فروغ کا باعث بن رہی ہے بلکہ نیب کے 1999ء کے آرڈیننس کی شق 25(الف) آئین پاکستان سے بھی ہم آہنگ نظر نہیں آتی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس شق کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ اس سےقبل سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے مختلف مقدمات میں نیب پر زبردست تنقید کی تھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سپریم کورٹ ستمبر 2016ء میں نیب کی اس شق کا جائزہ لینے کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحباں کی گزارشات اور فیصلوں کی روشنی میں نیب کی کارکردگی کا جائزہ لے اور مندرجہ ذیل معاملات پر بھی غور کرے تاکہ تادیبی کارروائیاں کی جاسکیں۔
(1) نیب کے بورڈ سے منظور شدہ سالانہ رپورٹ 2014ء میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیب کے مالیاتی جرائم کے تحقیقاتی شعبے نے بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کی مد میں 121.658؍ ارب روپے کی وصولی کی ہے۔ واضح رہے کہ بینکوں کے نان پرفارمنگ قرضوں کا بڑا حصہ مالیاتی جرائم کے دائرے میں نہیں آتا اور نیب صرف ان معاملات کو دیکھتا ہے جو اسٹیٹ بینک اسے بھیجتا ہے ۔ نیب کا یہ دعویٰ قطعی غلط ہے۔
(2) نیب کے 274؍ارب روپے کی وصولی کے غیرحقیقت پسندانہ دعوئوں کی اصلیت۔
(3) گزشتہ 15برسوں یا اس سے زائد عرصے سے نیب کے پاس پڑے ہوئے ایسے بڑی بڑی رقوم کے معاملات جہاں جرائم کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے کہا تھا کہ ’’نیب میگا اسکینڈلز کو نظر انداز کررہا ہے (جنگ 2؍جولائی 2015ء) اور ’’نیب میں اندھیر نگری چوپٹ راج کی سی کیفیت ہے ‘‘۔ (جنگ 19؍فروری 2015ء)
ہم یہ بھی عرض کریں گے کہ بینکوں کے قرضوں کی غلط طریقوں سے معافی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں 2007ء سے زیر سماعت ہے۔ اسی طرح پارٹنر شپ ایکٹ اور قانون و انصاف کے تقاضوں سے متصادم اسٹیٹ بینک کے قرضوں کی معافی کے اکتوبر 2002ء کے سرکلر 29کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں 2009ء سے زیر التوا ہے۔ اگر ان مقدمات کا جلد فیصلہ نہ کیا گیا تو غلط طریقوں سے معاف کئے گئے قرضوں کی بمع مارک اپ عدم وصولی سےکئی سو ارب روپے کا نقصان ہوگا۔ اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ کرپشن پر قابو پانے کے لئے موثر اور شفاف احتساب کا نظام نہایت ضروری ہے۔ اس ضمن میں بشمول مندرجہ بالا معاملات میں اعلیٰ عدلیہ انتہا ئی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ اب سے 14ماہ قبل سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے کہا تھا کہ ’’نیب نے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہے، اسے بدعنوانی سے کون پاک کرے گا؟‘‘ (جنگ 25؍جولائی 2015ء)


.
تازہ ترین