• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے اونٹ کی ہڈی کی تلاش تھی اور یہ ہڈی عید قربان کے موقع پر ہی مل سکتی تھی ۔ اونٹ کی ہڈی کیلئے مجھے گزشتہ ڈیڑھ سال سے میرے ایک پاکستانی دوست نے کہہ رکھا تھا جو آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں مقیم ہے ، گزشتہ سال عید قربان پر میں بھول گیا اور اونٹ کی ہڈی حاصل نہ کرسکا اور اس سال عید قربان سے پہلے ہی میرے آسٹریلیا میں رہنے والے پاکستانی دوست نے یاد دلانا شروع کردیا تھا کہ اس عید قربان پر میں لازمی طور پر اس کے لئے اونٹ کی ہڈی بھجوائوں سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس عید قربان پر بھی بھول گیا تھا لیکن عین عید والے دن میرے دوست کی کال نے جو اس نے مجھے عید مبارک کہنے کیلئے کی تھی اور ساتھ مجھے یہ بھی یاد کروایا کہ اس مرتبہ اسے اونٹ کی ہڈی ضرور بھجوائوں اس کا خیال تھا کہ عید پر قربانی کے دوران بہت سارے لوگ اونٹ بھی قربان کرتے ہیں اس لئے پاکستان میں اونٹ کی ہڈی کو حاصل کرنا کوئی زیادہ بڑا مشکل کام نہیں ہے لیکن یہ ایک مشکل کام تھا میرے جاننے والوں اور اردگرد نظر دوڑانے پر مجھے یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ اونٹ کی ہڈی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے، کئی دوستوں کو کالز کیں کہ اگر ان کے کسی جاننے والے نے اونٹ کی قربانی کی ہے تو اونٹ کی ہڈی کے حصول میں میری مدد کریں، لیکن میں نے جتنے بھی دوستوں کو اونٹ کی ہڈی کیلئے کال کی انہوںنے پہلا سوال یہ کیا کہ اونٹ کی ہڈی کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی کچھ نے یہ تک کہا کہ کیا کوئی جادو ٹونہ کرنا ہے ، البتہ ایک دوست نے الٹایہ کہا کہ اگر اونٹ کی ہڈی مل گئی تو مجھے بھی چاہیے بلکہ اس نے یہ فرمائش بھی کردی کہ اونٹ کے گوشت کا قیمہ کمر کیلئے بہت اچھا ہوتا ہے اس لئے اگر گوشت یا قیمہ بھی مل جائے تو میں بہت مشکور ہونگا، ایک دوست نے بتایا کہ چکوال میں اس کے کسی جاننے والے نے اونٹ کی قربانی کی ہے اس لئے وہ کوشش کرکے دیکھ لیتا ہے ، تاہم اس کی کوشش سے پہلے ہی مجھے معلوم ہوا کہ بحریہ ٹاؤن، اسلام آباد میں اس کے کسی جاننے والے نے اونٹ قربان کیا ہے وہ اونٹ کی ہڈی نہیں بلکہ دو چار ہڈیاں حاصل کرکے دے دیگا، میں نے سکھ کا سانس لیا اور بار بار یاد دہانی کی کالز کرنے کے بعد بالآخر اونٹ کی ہڈیاں میرے پاس پہنچ گئی ، اب میں نے وہ کس طرح آسٹریلیا کے شہر ملبورن روانہ کیں یہ خود ایک طویل کہانی ہے لیکن میں نے ایساکردکھایا اور میرے مقامی دوست سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن سے اونٹ کی ہڈیاں حاصل کی ہیں وہاں بہت سارے لوگوں نے عید سے پہلے ہی ہڈیاں حاصل کرنے کیلئے رابطے شروع کردیئے تھے ، اب آپ سوچ رہے ہوںگے کہ آخر اونٹ کی ہڈی میں ایسا کیا کمال ہے کہ ہر کوئی اس ہڈی کی تلاش میں ہے ، آسٹریلیا کے کچھ شہروں میں ایک مکڑی سمیت کچھ ایسے خطرناک کیڑے مکوڑے پائے جاتے ہیں جو انسانی زندگی کیلئے خطرناک ہوتے ہیں میرے کسی دوست کو کسی نے یہ بتایا تھا کہ آپ جس گھر میں رہتے ہوں اگر اس کی زمین میں اونٹ کی ہڈی دفن کردیں تو وہاں دیمک سمیت ایسے کیڑے مکوڑے نہیں آتے اس بات میں کتنی صداقت ہے یا اس ٹوٹکے میں کتنی حقیقت ہے یہ تو شاید آپا زبیدہ ہی بتاسکیں ، لیکن مجھے اونٹ کی ہڈی کی تلاش میں عید کے روز قصائی کی تلاش سے بھی زیادہ سرگرداں ہونا پڑا، عید قربان ہمارا مذہبی تہوار ہے جو ہر سال آتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عید الاضحی پر پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد جانور اللہ کی راہ میں قربان کئے جاتے ہیں جو ملک کی ایک بہت بڑی معاشی ایکٹویٹی ہے ، میں نے چھریاں بیچنے والے ایک چھوٹے سے دکاندار سے پوچھا کہ اس نے عید پر کتنی چھریاں یا ٹوکے بیچے ہیں تو اس نے کہاکہ تقریباًپانچ سو یہ صرف ملک کے ایک شہر کی ایک دکان کی فروخت ہے آپ اگر پورے ملک کے اعدادو شمار حاصل کریں تو جانوروں کی نقل و حمل کیلئے گاڑی مالکان کی آمدنی، کھالوں کی آمدنی ، جانوروں کے بیوپاریوں کا کاروبار، قصائیوں کی چاندی، باربی کیو کیلئے سیخوں اور انگھٹیوںکا کاروبار، فریج اور ڈیپ فریزر کی لاکھوں میں فروخت اور پھر کھالوں کو اکٹھا کرکے چیرٹی اداروں کی آمدنی اور غریب لوگوں کے علاج اور فلاح کیلئے کئے جانے والے اخراجات کیلئے مالی وسائل کی دستیابی، اس عید قربان کے اتنے فوائد ہیں کہ گنے نہ جاسکیں ، لیکن ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے ایسی کوئی پالیسی نہ سناسکیں کہ بیوپاریوں کو سہولیات سے مزین جگہیں فراہم کی جائیں اور قربانی کے ذریعے حاصل ہونے والے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کیاجاسکے ، اور قربانی کی آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی کی بجائے عید کے بعد کی بھاگ دوڑ سے کوئی فائدہ نہیں، اونٹ کی ہڈ ی کی تلاش کے معمولی کام سے لے کر، اس معاشی ایکٹویٹی اور مذہبی تہوا ر کو اچھے طریقے سے منانے کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔تاکہ آئندہ سال بھی عوام اپنی ناک دباتے اور حکمران منہ چھپاتے نہ پھر یں۔


.
تازہ ترین