• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان کا نام ہندوستان ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ہندوؤں کی سرزمین ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ اس علاقے کا یہ نام کبھی بھی نہ تھا۔ شمال کی طرف سے دریائے سندھ پار کر کے آنے والوں نے شاید سندھ کی مناسبت سے اس خطّے کو ہند کہا، اسی تعلق سے یہاں کے باشندے ہندو کہلائے اور یہاں کی بولی کو ہندی کا نام دیا گیا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لفظ ہندو اور ہندی دراصل فارسی لفظ ہیں۔ فارسی میں کالی رنگت والوںکو یہاں تک کہ چہرے کے کالے تل کو بھی ہندو کہتے ہیں۔ اس کا کسی مذہب، مسلک یا عقیدے سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔یہ بات برسوں سے کہے جارہا ہوں، کوئی دھیان نہ دے تومجھے کیا۔ ہمارے بہت ہی باکمال مورّخ احمد حسن دانی مرحوم بتایا کرتے تھے کہ شمال سے آنے والے قافلے خیبر پختون خوا کے مقام ہنڈ سے دریا ئے سندھ پار کیا کرتے تھے۔ یہ جگہ چھوٹے لہور کے قریب موجود ہے۔ اُس مقام سے دریا کا جو دوسرا کنارا نظر آتا تھا وہ اُس زمانے میں اوہند کہلاتا تھا،سادہ لفظوں میں ’وہ ہند‘۔ تو طے یہ پایا کہ شمال سے آنے والوں نے اس سرزمین کا نام ہند رکھا اور یہاں کے باشندے ہندو کہلائے۔ یہ عقیدہ بہت پیچھے تک جاتا ہے ،اتنا پیچھے کہ ایک زمانے میں اس کے ماننے والے گائے کا گوشت شوق سے کھاتے تھے بلکہ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ جب کبھی کوئی خاص ضیافت ہوتی تو گائے کا گوشت بڑے اہتمام سے پیش کیا جاتا تھا۔ہندو مذہب میں چکر کو بڑا دخل ہے اور یقین ہے کہ ہندوؤں نے بہت پہلے مان لیا تھا کہ ہماری زمین گولے کی طرح چکر کھارہی ہے اور گائے کے ایک سینگ پر ٹکی ہوئی ہے۔چنانچہ ہماری دھرتی ماں کو یوں سنبھالنے والی ہم سب کی ماتا ہوئی اور جب کبھی گئو ماتا دھرتی کو ایک سینگ پر اٹھائے اٹھائے تھک جاتی ہے توزمین کو دوسرے سینگ پر لے لیتی ہے، بس اُس وقت بھونچال آتا ہے ۔ تاریخ کی اسی ادھیڑ بُن میں کسی مرحلے پر گائے مقدس ٹھہری اورنہ صرف اس کی ہلاکت بلکہ اس کا گوشت کھایا جانا بھی گناہ قرار پایا۔
سات آٹھ سو سال کا اسلامی دور جس کے بعد انگریزوں کا زمانہ، گائے ذبح کرنے پر کو ئی پابندی نہیں لگی۔ بیچ میں پنجاب میں سکھا شاہی آئی تو کہنے کو رنجیت سنگھ نے پنجاب کو خوشحال گڑھ بنا دیا مگر موصوف نے دو کام اور بھی کئے۔ مسجدوں میں اذانیں بند کرائیں اور گائے ذبح کرنا ممنوع ہوا۔ آخر جب سکھوں کا دور ختم ہوا اور سرکار انگلیشہ کا چلن ہوا تو تین اہم فیصلے ہوئے۔ ایک یہ کہ مسجدیں کھول دی جائیں اور پانچ وقت کی اذان بحال ہو۔ دوسرے مدرسوں میں تعلیم اردو زبان میں ہو اور تیسرے مویشی شوق سے ذبح کئے جائیں۔ اذان دینے والے تو بہتیرے تھے، اردو کا یہ ہوا کہ وہ جو فارسی کے استاد تھے اور بہت تھے،وہ سب اردو پڑھانے لگے لیکن پورے پنجاب میں گائے بکر ی اور بھیڑ کو ذبح کرنے والا کوئی نہ تھا، آخر میرٹھ اور دلّی سے قصاب منگائے گئے تب کہیں سبزی خوری بالجبر کا خاتمہ ہوا۔
پھر وقت بدلا، ہم نے کسی کو کہتے سنا کہ ہزار سال بعد پہلی بار کوئی ہندو حکمراں سنگھا سن پر بیٹھا ہے۔پنڈت نہرو او ران کے سیکولر نظام کا چلن ہوا لیکن مذہب کا وہ زور نہیں ہوا جو نصف صدی بعد گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد ہوا۔ ہندو عقیدے کا ڈنکا بجا اور ہندو مت کی جے جے کار ہوئی اور آج یہ صورت ہے کہ ایک روز شہر میں دھوم مچی کہ فلاں گھرانے میں گائے کا گوشت کھایا گیا ہے۔ لوگ گھرانے پر لٹھ لے کر دوڑے ۔ خیال تھا کہ گھر والوں کو قے کروا کر گائے کے گوشت کو پیٹ کی نرکھ سے رہائی دلائیں گے لیکن جو کچھ ہوا وہ بھارت ہی میں ہو سکتا ہے۔ مجمع نے گھر کے دو مردوں کو ہلاک کیا اور ایک خاتون اور ایک نوعمر لڑکی کو مجمع نے مل کے اپنی وحشت اور درندگی کا نشانہ بنایا۔اس طرح اس چرند کا نام اونچا ہواجسے گئو ماتا کہتے ہیں۔
شمالی بھارت سے خبریں آرہی ہیں کہ وہاں بلوہ پولیس کی طرح گوشت پولیس بھی قائم ہوگئی ہے۔ کہیں بھی خبر ملے کہ بریانی پک رہی ہے، اس پولیس کے دستے وہاں چھاپہ مارتے ہیں او رگوشت کے نمونے لے جاتے ہیں۔ پھر غالباً لیبارٹری والے بریانی کی چھان پھٹک کرکے بتاتے ہیں کہ اس میں کس مخلوق کی بوٹیاں ڈالی گئی ہیں۔اخباروں نے تو نہیں لکھا لیکن یقین ہے کہ بریانی کی دیگ ہر مرحلے پر چکھی جاتی ہوگی اور لیبارٹری پہنچنے تک نیچے لگی ہوئی کھرچن ہی بچ رہتی ہوگی۔ سچ ہے دینے والا کسی بھی بہانے سے دے، رزق سب کو پہنچاتا ہے۔
گوشت پولیس سب سے زیادہ سرگرم ریاست ہریانہ میں ہے جہاں کٹّر ہندو جماعت بی جے پی کی سرکار ہے۔ وہاں گائو رکھشا کے بڑے ہی سخت قانون لاگو ہیں۔ لٹھ بند دستوں کا وہاں بھی زور ہے جو ڈنڈ تو نہیں پیلتے لیکن گاؤں گاؤں گشت کرتے ہیں اور کڑی نگاہ رکھتے ہیں کہ کہیں کسی مقام پر گائے کا گوشت تو نہیں پک رہا یا چپکے چپکے فروخت تو نہیں ہو رہا ہے۔ وہاں بہت سے گاؤں مسلمانوں کے ہیں جہاں لوگوں کو خبر دار کیا جارہا ہے کہ وہ بریانی پکانے سے باز رہیں۔ غریب بریانی فروشوں کے تو فاقے ہوگئے ہیں اور سڑکو ں کے کنارے ان کے ڈھابے ویران پڑے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بھارت میں آٹھ کروڑ افراد گائے یا بھینس کا گوشت کھاتے ہیں، یعنی ملک کی کل آبادی میں ہر تیرہ میں سے ایک شخص بڑا گوشت کھاتا ہے ۔ ان میں زیادہ تر مسلمان ہیں لیکن ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ ہندو بھی گوشت کھاتے ہیں۔ تاریخ پر نگاہ رکھنے والے کہتے ہیںکہ بھارت میں گائے متبرک نہیں، سیاسی جانور بن کر رہ گیا ہے۔ بعض ریاستیں اتنی سخت نہیں لیکن بعض علاقوں کے اعصاب پر گائے سوار ہے۔ایک بڑا مسئلہ غریبوں کا ہے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا دلت، وہ یہ کہ بکری، مرغی او رمچھلی کے مقابلے میں بڑے جانور کا گوشت سب سے سستا ہے جو غریبوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔(کیسی عجیب بات ہے کہ یہاں برطانیہ میں سب سے مہنگا گائے کا گوشت اور سب سے سستا مرغی کا گوشت ہوتا ہے، اتنا سستا کہ اسے دعوتوں میں پیش کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اب رہ گیا گائے کا گوشت، برطانیہ میں تو وہ کسی گراں نعمت سے کم نہیں او رخاص خاص موقعوں پر پیش کیا جاتا ہے)۔بھارت میں پڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ اب کھانے پینے پر چھاپے پڑنے لگے ہیں۔ یہ عوام کو تنگ کرنے کا نیا حربہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی بڑی آبادی میں ہر ایک کے کھانے پینے کے ڈھنگ جدا ہیں۔ مثال کے طور پر آسام کے علاقے میں کوئی بیس قبیلے آباد ہیں، سب کی غذا اور خوراک جدا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سارے اعلیٰ ذات کے ہندو سبزی خو ر نہیں اسی طرح سارے مسلمان روز روز گوشت پر اصرار نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک پورے بھارت کو سبزی خور قرار دینا تن آسانی اور کم فہمی کے سوا کچھ اور نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وقت کے ساتھ کھانے کی عادتیں بدل رہی ہیں۔ ابھی پندرہ سال پہلے تک نوڈل کھانے پر ایسے اعتراض کئے جاتے تھے جنہیں سن کر ہنسی آتی تھی۔مثال کے طور پر ہریانہ کی ایک پنچایت نے یہ بات اڑا دی کہ نوڈل کھانے والے مردوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔مگر پھر کیا ہوا۔ یہی پڑھے لکھے لوگ بتاتے ہیں کہ آج کے نوجوان ان بڈھوں ُٹھڈّوں کی ایک نہیں سنتے، آج سارا بھارت صبح شام نوڈل کھا رہا ہے ۔
پتے کی بات سمجھ دار لوگوں نے کہہ دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کھانے والے کسی سے پوچھ کر نہیں کھاتے۔ وہ اپنی پسند کا کھانا کھانے کا طریقہ جیسے بھی بنے ، نکال لیں گے۔ آج نہیںتو کل، بریانی کی خفیہ دکانیں کھل جائیں گی، ذرا تاریک دکانوں میں زرد اور سفید چاولوں کی اس چھوٹی سے ڈھیری کے عین اوپر نہایت نفیس بوٹیاں دھری ہوں گی اور مہکتی ہوئی بھاپیں اٹھ کر وہ جملہ دہرائیں گی جو مجھ سے رام پور کے ایک جوشیلے نوجوان نے کہا تھا کہ یاد رکھئے، ہم گائے سے ہیں اور گائے ہم سے۔


.
تازہ ترین