• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اکثر لوگوں کو یقین ہے کہ گزشتہ اتوار کو ہونے والے اوڑی میں حملے کے بعد بھارت پاکستان کے خلاف بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی نہ کوئی بہت بڑی شرارت ضرور کرے گا۔ پاکستان کی حکومت، عوام اور تمام ادارے چوکنا ہیں کہ انہیں کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ ایک دن کے لئے شمالی علاقہ جات میں پی آئی اے کی پروازوں کی منسوخی اور اسلام آباد اور پشاور کے درمیان پاکستان موٹروے کی بندش کا مقصد ہی تیاری کرنا تھا کہ بھارت کی طرف سے پیدا کی گئی کسی بھی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کیا جاسکے۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ بھارت ماضی کی طرح افغانستان کے ذریعے پاکستان میں کوئی بڑی دہشت گردی کی کارروائی کرائے گا ۔ اب افغانستان مکمل طور پر بھارت کی گود میں ہے اور صدر اشرف غنی وہی زبان بول رہے ہیں جو کہ بھارت چاہتا ہے۔پاکستان میں بہت سے لوگ اس الزام کو کہ براہمداغ بگٹی بھارتی ایجنٹ ہے ، شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں مگر اب انہیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ براہمداغ نے باقاعدہ طور پر بھارت میں سیاسی پناہ لینے اور بھارتی شہریت کے لئے درخواست دے دی ہے۔اس کے ذریعے بھی بھارت ماضی کی طرح بلوچستان میں مزید دہشتگردی کرانے کی کوشش کرے گا اگرچہ براہمداغ کی بلوچستان کے عوام میں کچھ زیادہ پذیرائی نہیں ہے۔اب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو گیا ہے اور براہمداغ کے بارے میں تمام کنفیوژن دور ہو گیا ہے کیونکہ وہ اب پاکستان کے دشمن ملک کا ساتھی ہے اور وہ وہی کچھ کرے گا جو اسے بھارت کہے گا۔اگر کسی قسم کی سیاست کبھی بھی براہمداغ نے پاکستان میں کرنی تھی تو اس کے دروازے اس نے خود ہی بند کردیئے ہیں۔ ایسے وقت میں جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بلوچستان میں مداخلت کا اعلان کر دیا ہے،پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو اور کشمکش انتہا پر ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ بھارت پاکستان پر ڈائریکٹ حملے کی جرات نہیں کرے گا کیونکہ اسے پاکستان کی طاقت کا بخوبی علم ہے ۔
جب سے پاکستان نے چین کے ساتھ سی پیک کے تحت 46بلین ڈالر کے منصوبے فائنل کئے ہیں اور ان پر تیز رفتاری سے کام ہو رہاہے اس کے خلاف سازشیں عروج پر پہنچ گئی ہیں کیونکہ اس کے دشمنوں کو علم ہے کہ اگر یہ منصوبے مکمل ہو گئے تو پاکستان کا نقشہ بدل جائے گا اور یہ خطے میں ایک بڑی اقتصادی طاقت بن کر ابھرے گا۔امریکہ سی پیک سے نالاں ہے اور اس کوہر صورت سبوتاژ کرنا چاہتا ہے،برطانیہ کی بھی یہی دلی خواہش ہے اور بھارت نے تو واویلا مچا رکھا ہے کہ سی پیک کو منسوخ کیا جائے۔ بھارتی وزیراعظم نے کئی بار اہم چینی رہنمائوں سے سی پیک کے خلاف احتجاج کیا ہے مگر چینیوں نے ان کی کسی بات کو اہمیت نہیں دی اور زور شور سے ان منصوبوں کو مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور چین کے مصمم ارادے دیکھ کر سی پیک کے تمام مخالف ممالک سازشوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس ’’گیم چینجر‘‘ کو منسوخ کرایا جائے جو کہ ناممکن ہے۔ان کو اصل تکلیف ان منصوبوں سے ہو رہی ہے کیونکہ ان سے نہ صرف پاکستان میں معاشی ترقی و خوشحالی آئے گی بلکہ پاکستان اور چین کے تعلقات ایک نئی نہج پر پہنچ جائیں گے۔ چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ نے اپنے پاکستانی ہم منصب نوازشریف سے نیویارک میں ہونے والی ملاقات میں صاف کہہ دیا کہ پاکستان کے ساتھ ہیں اور رہیں گے اور ہم پاکستان کی حمایت میں ہمیشہ آواز بلند کرتے رہیں گے۔ اس سے قبل صرف خصوصاً چین کی وجہ سے ہی ممکن ہوا کہ بھارت نیو کلیئر سپلائرز گروپ کا ممبر نہ بن سکا ورنہ امریکہ اور اس کے بہت سے ہمنوا تو ہر صورت چاہتے تھے کہ بھارت اس کلب میں شامل ہو جائے۔اس کے علاوہ جب بھی بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی ہونے کی بات ہوتی ہے تو چین کھل کر اس کی مخالفت میں آجاتا ہے۔ یہ سپورٹ نہ تو بھارت، نہ ہی امریکہ یا برطانیہ کو بھاتی ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ ان پر ہی انحصار کرتا رہے۔ اوڑی واقعہ کے بعد بھارت پاکستان کے خلاف جو بھی ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ کارروائی کرنے کی جسارت کرے گا اس کا مقصد سی پیک کو ہی نشانہ بنانا ہو گا ۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے بہت سے اختلافات اور لڑائیوں کے باوجود اور تمام اہم ادارے ایک صفحے پر ہیںکہ ہر صورت سی پیک کے خلاف سازشوں کو ناکام بنانا ہے اور ان منصوبوں کو مکمل کرنا ہے۔
ایسے نازک موڑ پر کہ جب بھارت پاکستان کے خلاف بڑے جارحانہ عزائم کی تکمیل کا ارادہ رکھتا ہے کچھ عناصر خواہ مخواہ سیاسی ہلے گلے میں پڑے ہوئے ہیں ۔ چاہے حالات کیسے بھی ہوں عمران خان بضد ہیں کہ انہوں نے 30 ستمبر کو ہر صورت ’’رائے ونڈ مارچ‘‘ کرنا ہے۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو مگر بھارت اور پاکستان کے دوسرے اندرونی و بیرونی دشمن اس طرح کے احتجاج میں بہت بڑی خونی خرابی پیدا کرسکتے ہیں جس سے پاکستان بہت زیادہ عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔سنگین حالات کے پیش نظر بہتر یہی ہے کہ عمران خان فی الحال اس مارچ کو منسوخ کریں اور جب پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ جنگ جیسی صورتحال ختم ہو تو پھر دوبارہ اس سے بھی بھر پور احتجاج ضرور کریں۔ دیکھا دیکھی پیپلزپارٹی نے بھی 28اور 30ستمبر کو لاہور میںکسان ریلی منعقد کرنے اور فیصل آباد سے چنیوٹ تک جلوس نکالنے کا اعلان کیا ہے جن کا مقصد احتجاج نہیں بلکہ عوام سے رابطہ مہم ہے تاکہ پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرسکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ 30ستمبر کو جماعت اسلامی بھی اپنا ایک جلسہ عام منعقد کر رہی ہے ۔یہ تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ محرم شروع ہونے سے پہلے کچھ بھرپور سرگرمیاں کر لی جائیں مگر مناسب یہی ہے کہ فی الحال یہ ان کو ملکی حالات کے پیش نظر پس پشت ڈال دیں۔ اس شور و غوغے میں ایم کیو ایم بھی اب واضح طور پر 2دھڑوں یا علیحدہ جماعتوں میں تقسیم ہو گئی ہے جس کی وجہ لندن گروپ جس کے ممبرز کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ تعلقات ہیں کے ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف انتہائی اقدامات ہیں ۔ یہ چند افراد کا ٹولہ ہے جس نے الطاف حسین کوگھیرا ہوا ہے ۔ اس کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ اب کراچی اور حیدر آباد میں پرتشدد کارروائیاں کرائے مگر اس کا کامیاب ہونا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور نظر آرہاہے۔جب لندن میں موجود ایم کیو ایم کے کنوینر ندیم نصرت نے کہاکہ ایم کیو ایم الطاف حسین ہے اور الطاف حسین ایم کیو ایم ہے اور وہ کسی مائنس ون فارمولے کو نہیں مانتے تو ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے ندیم نصرت اور تین دوسرے اہم رہنما جو لندن میں موجود ہیں کو رابطہ کمیٹی سے نکال دیا ۔ اس کے جواب میں ندیم نصرت نے پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے اور شعبہ جات تحلیل کردیئے جس کو فاروق ستار نے یکسر مسترد کردیا اور کہہ دیا کہ وہ اپنے 23اگست کے اعلان جس میں انہوں نے آزادانہ فیصلے کرنے کا اعلان کیا تھا پر قائم ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان لگا تار الطاف حسین کو اذیت پراذیت پہنچا رہی ہے ۔گزشتہ روز سندھ اسمبلی نے تین قراردادیں جن کی حمایت ایم کیو ایم نے بھی کی منظور کیں جن میں مطالبہ کیا گیا کہ الطاف حسین کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جائے اور انہیں سزائے موت دی جائے۔ اب ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان لڑائی بڑھتی جائے گی جس میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنمائوں کی جان کو بڑے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم لندن اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اب کراچی اور حیدر آباد کو بند کراسکے۔


.
تازہ ترین