• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جرات مندانہ خطاب کرکے در حقیقت پوری پاکستانی قوم کے جذبات کی حقیقی ترجمانی کی ہے۔ انہوںنے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر کے دوران نہ صرف بھارت کو آڑے ہاتھوںلیا بلکہ جموں و کشمیر کا مقدمہ بھی احسن انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔وزیر اعظم نواز شریف کا یہ کہنا تھا کہ’’ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غیر قانونی ہے اور مقبوضہ کشمیر سے ہندوستانی فوج کو نکالا جائے۔ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر خطے کا امن نا ممکن ہے۔ ‘‘
مئی 2013ء میں جب نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے تو وہ بھار ت سے دوستی اور تجارت کا ایجنڈا لے کر آئے تھے مگر پاکستانی عوام نےمسئلہ کشمیر کے حل تک اس پالیسی کو قبول نہیں کیا ۔ بالآخر نواز شریف حکومت کو عوامی امنگوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ گزشتہ تین چار ماہ سے مسلم لیگ ن کی حکومت کی سوچ میں کشمیر کے معاملے پر واضح تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ایک نیک شگون اور خوش آئند امر ہے۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر بر ہان مظفر وانی کی شہادت کا ذکر وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران کیا اور انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آزادی کشمیر کے لئے ایک عظیم مثال قرار دیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کشمیر میں نئی جان پڑگئی ہے اور بھارتی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ گزشتہ ڈھائی ماہ سے جاری اس تحریک میں 100سے زائد کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ مغربی میڈیا نے بھی کشمیریوں پر بھارتی ظلم و تشدد اور حالیہ احتجاجی تحریک کے حوالے سے بحث زور و شور سے جاری ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر پر ہٹ دھرمی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے اور ہندوستان میں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ تو بس یونہی خود بخود جموں و کشمیر میں انقلاب شروع ہوگیا ہے۔ کوئی کسی کی نہیں سن رہا۔ تاہم اوسط عمر کے کشمیری نوجوان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ بس یہ آخری جنگ ہے ۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ فنانشل ٹائمز مزید لکھتا ہے کہ کشمیر میں کرفیو کی وجہ سے مسلمان اس مرتبہ عید الاضحی ہیں مناسکے۔ پہلی بار عید پر کرفیو لگایا گیا اور ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ مسلمانوں کو اجتماعی فرض نماز ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔اسی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ میںاپنے خطاب سے سوئے ہوئے عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے امریکہ اور یورپی ملکوں سمیت عالمی برادری کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ جموں وکشمیر کے حل کے لئے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔ اب دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ کیا امریکہ اور یورپی ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیتے ہیں یا پھر معاملہ جوں کا توں رہے گا؟ بھارت نے پاکستانی پرائم منسٹر کے خطاب سے چند روز قبل اوڑی سیکٹر میں حملے کا ڈرامہ رچا کر مقبوضہ کشمیر سے دنیا کی نظروں کو ہٹانے کی بھونڈی کوشش کی تھی جوکہ ناکام ہوگئی ۔ وزیراعظم نواز شریف نے کشمیر کے معاملے کو پھر سے ایک عالمی مسئلہ بنادیا ہے۔ کشمیر ایشو پر تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا دو ٹوک موقف ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں میں سراہا جارہا ہے مگر دوسری طرف بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے معاملے کا وزیر اعظم کی تقریر میں ذکر نہ ہونا حیران کن ہے۔ حالانکہ یہ ایک اچھا موقع تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم کھل کر بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور را کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر بات کرتے۔ ایک اور قومی معاملہ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکی قید سے رہائی کا ہے۔ اس اہم مسئلے پر بھی وزیر اعظم نواز شریف کو امریکی حکام سے بات کرنی چاہئے ۔ ابھی وہ امریکی دور ے پر ہی ہیں۔6سال قبل آج 23ستمبر کے دن ہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جرم بے گناہی میں امریکی عدالت نے 86سال کی ظالمانہ او ر سفاکانہ سزا سنائی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی شہری ہیں۔ ان کوامریکہ کی قید سے رہائی اور پاکستان واپس لانے کا وعدہ وزیر اعظم نواز شریف نے کیا تھا۔ اب اس وعدے کو بھی تقریباً ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں لیکن یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوسکا۔المیہ یہ ہے کہ ملکی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والوں کے اہل خانہ تو بازیاب ہوگئے ہیں مگر عافیہ صدیقی کی رہائی تاحال ممکن نہیں ہوسکی۔ اگر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا بیٹا بازیاب ہوسکتا ہے اور اسی طرح چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کا بیٹا بھی رہا ہوسکتا ہے تو پھر آخر کیوں عالمہ ، پی ایچ ڈی ، حافظہ قرآن اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی رہا نہیں ہوسکتی۔ ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ پاکستان سے لے جاسکتا ہے تو ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان کیوں نہیں لایا جاسکتا ؟ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس سلسلہ میں ایک خط مجھے بھجوایا ہے جس کو پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ قارئین کرام آپ بھی اس خط کو ملاحظہ فرمائیں۔
’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔ شایدآپ کو محسوس ہو کہ یہ کوئی بے وقت کی راگنی ہے جسے میں نے چھیڑدیا۔لیکن ایسانہیں ہے۔ جوقومیں اپنی بیٹیوں کیلئے زندگی وقف کردیتی ہیں وہ زندہ رہتی ہیں اور جو بیٹی کوبھول جائیں تاریخ انہیں بھلادیتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں 23ستمبرایک ایسا دن ہے جو بڑی آسانی سے گزار دیاجاتاہے۔ یہ وہی تاریک دن تھا جب 2010 میں امریکہ کی ایک جعلی عدالت نے پاکستان کی عفت ماب بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو ناکردہ گناہ پر86برس کی سزاسنائی تھی۔ اس کے بعدپاکستان میں ایک ہنگامہ اٹھا عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ حکمرانوں نے وعدے وعید کئے لیکن عافیہ کونہیں لاسکے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بگرام جیل میں عافیہ کی موجودگی کاانکشاف ایک غیرملکی صحافی نومسلمہ ایووان ریڈلے نے کیا اور امریکی حکومت کاجھوٹ بے نقاب کیا ۔اب ایک بارپھر ایووان ریڈلے نے لندن میں لارڈ نذیرکے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ عافیہ صدیقی کو کسی بھی وقت پاکستان لایاجاسکتاہے۔ اسکی سزامعاف کرانے کیلئے اپیلوں کے بجائے حکومت پاکستان اپنی شہری کووطن واپس بھیجنے کامطالبہ کرسکتی ہے۔ ریڈلے نے کہاہے کہ عافیہ کی وطن واپسی میں رکاوٹ امریکہ میں نہیں پاکستان میں ہے۔ لارڈنذیزنے یہ بھی کہا کہ نوازشریف صاحب اپنے وعدے پورے کریں جو کہتے تھے کہ عافیہ میری بیٹی ہے۔ممتازقانون دان نسیم باجوہ نے کہاکہ امریکہ ریمنڈڈیوس کولے جاسکتاہے توپاکستان عافیہ کوکیوں نہیں لاسکتا۔وہ کہتے ہیں کہ عافیہ کو شکیل آفریدی کے بدلے واپس لائیں۔ حیرت انگیز طور پر ان ہی دنوں ایرانی کے نجی ٹی وی چینل پر آغاموسوی کا انٹرویو نشر ہواجوبگرام جیل میں رہے۔ انہوں نے بھی تصدیق کی کہ ہمارے سامنے ایک عورت پر تشددہوتاتھا وہ چیختی تھی،اسے بے حجاب کیاجاتاتھا ۔آغاموسوی کہتے ہیں کہ مسلمان تو عفت وعزت کے معاملے میں بڑے حساس ہوتے ہیں۔ میں اپنی تکلیفیں بھول گیا اس قید کی سب سے کربناک بات اس عورت پر تشددتھا اورمیں نے رہائی کے بعد انٹرنیٹ پر تصویردیکھی توپتاچلا کر وہ پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی ہے۔ آج بھی پاکستان کی بیٹی کیلئے باہر سے آواز اٹھ رہی ہے۔ ہمیں اپنی بیٹی کیلئے خودبھی کچھ کرناہے۔ اس قوم کے غیرت مند نوجوانوں نے86برس کی سزاکی مناسبت سے 86روزکی بھوک ہڑتال کافیصلہ کیاہے۔وزیراعظم امریکہ میں ہیں، ان کو وعدہ یاد دلائیں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنی قوم کی بیٹی کو وطن واپس لائیں۔ ان سے سوال کیاجاسکتاہے آپ اپنی ایک بیٹی کو واپس نہیں لاسکتے توکشمیر کی ہزاروں بیٹیوں کو کس طرح انصاف دلائیں گے ۔ والسلام ۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی‘‘
ڈاکٹر فوزیہ کی یہ بات درست ہے کہ اگر حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس نہیں لاسکتی تو آخر کیسے مقبوضہ کشمیر کی ہزاروں خواتین کو انصاف دلاسکتی ہے۔ ہمارے ارباب اختیار کو اس جانب فوری متوجہ ہونا چاہئے۔


.
تازہ ترین