• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دشمن کا الزام بے بنیادسہی ، مگر اپنا محاسبہ ضروری

حب الوطنی اور انتہائی وطن پرستی(jingoism) کے درمیان ہمیشہ ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے جسے کمزور ریاستوں کے رہنما اکثر عبور کرتے رہتے ہیں۔ جوشیلے الفاظ کے استعمال اور جذبات سے کھیلتے ہوئے جنگی ماحول پیدا کرکے وطن کی فضا شعلہ بار کی جاسکتی ہے ، لیکن افسوس، اس سے دیرینہ مسائل حل نہیں ہوتے ۔ نام نہاد جنگی جنون ریاستوں کو طاقتور نہیں بنادیتا، لیکن جب ایک مرتبہ آپ عوامی جذبات بھڑکا کر دشمن سے انتقام لیناتمام مسائل کا حل قرا ردیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے محاسبے اور احتساب کے مطالبہ کو قبل از وقت ہی دبا دیتے ہیں تو یادرکھیں، ریاستی پالیسی کو عوام کی جارحانہ توقعات کے تابع کردینے کے ناقابل ِ تصور نتائج ہوتے ہیں۔
اس وقت مودی کا انڈیا اسی راہ پرچل رہا ہے ۔ اس نے اُڑی حملے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پاکستان کو اس حملے پر ذمہ دار قرا ر دے دیا۔ ایسا کرتے ہوئے سوچ سمجھ رکھنے والے بھارتیوں کو سیکورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھانے کا موقع نہ دیا، جو پوچھ سکتے تھے کہ دہشت گرد، چاہے اُن کی کوئی بھی شناخت یا محرکات ہوں، اپنے مقصد میں کیونکر کامیاب ہوئے اور اٹھارہ فوجیوں کو ہلاک کردیا؟ اس سے قطع نظر کہ کیا وہ حملہ کسی طے شدہ منصوبے کا نتیجہ تھا اور اس کا ارتکاب کرنیوالے بھارتی غیر ریاستی عناصر تھے یا اُن کا تعلق سرحد کی ہماری سائیڈ سے تھا، یہ بات تسلیم کرنا پڑیگی کہ اس حملے کی ٹائمنگ بھارت کے حق میں گئی ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان الفاظ کی جنگ میں شد ت آگئی۔ ہوسکتاہے کہ انڈیا میں اجیت دوول کے ڈاکٹرائن کا کچھ اور مطلب لیا گیا ہو، لیکن پاکستان میں اس کا مطلب یہی سمجھا اور مانا گیا کہ بھارت پراکسی گروہوں اور علیحدگی پسندوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی رکھتا ہے ۔ اگر ہم ایک لمحے کے لئے کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری کوریاستوں کی طرف سے جاسوس استعمال کرنے کا الزام قرار دے دیں تو بھی بھارتی وزیر ِاعظم کے اپنے یوم ِ آزادی کے خطاب میں بلوچستان اور گلگت بلتستان کے کچھ علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ جس کسی نے بھی اڑی حملے کی منصوبہ بندی کی، اُس نے پاکستان کے حق میں اچھا نہیں کیا۔ بھارتی تجزیہ کار بہت سے مفروضوں کو کھنگالتے ہوئے اُڑی حملے کی ٹائمنگ پاکستان کے حق میں ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں، لیکن وہ معقولیت سے دور ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے تجزیے یک طرفہ ہیں۔ اس وقت ، جبکہ کشمیر ی اپنی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں اور پاکستان اُن کی اخلاقی حمایت کرتا ہے ، تو اس وقت پاکستان بھارت میںکوئی دہشت گردی کی کارروائی کیسے کرا سکتا ہے ، جو بھارت کو عالمی برادری کے سامنے یہ جواز رکھنے کا موقع فراہم کردے کہ مسئلہ کشمیرآبادی کو حقوق سے محرومی کا ایشو نہیں، بلکہ یہ پاکستان ہے جو دہشت گرد وں کو استعمال کرتے ہوئے اس کے لئے مسائل بڑھا رہا ہے ۔ یہ فرض کئے بغیر کہ کیا بھارتی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے یہ حملہ خود ہی کرایا ہے تاکہ پاکستان پر دبائو بڑھایا جاسکے کیااس حملے نے اس کی اپنی سیکورٹی کی ناکامی کو اجاگر نہیں کردیا؟کیا یہ پاکستان پر الزام لگانے کے مقابلے میں بھاری قیمت نہیں؟یا کیایہ پاکستان کے غیر ریاستی عناصر تھے جنہوں نے اپنے تئیں کشمیریوں کی تحریک میں معاونت کرنے کے لئے یہ حملہ کردیا؟اگر ان میں سے کوئی ایک بھی توجیہہ درست ہے تو اس کی وجہ سے پاکستان کو کس قسم کے بحران کا سامنا ہے ؟جب کوئٹہ میں ہونے والے ایک تباہ کن حملے نے صوبے کے وکلا کی پوری ایک نسل ہی ختم کردی تو ہمارے انتہائی حب الوطن حلقوں نے فوراً ہی بھارت پر الزام لگادیا۔ جن افراد نے کہا کہ بہتر ہے کہ اس الزام کا ثبوت دیا جائے ، اُنہیں غدار قرار دیا گیا۔ دراصل کمزور ریاستوں میں نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ رہتا ہے ۔ اس صورت میں اپنا محاسبہ کرنے اور غلطیوں کا جائزہ لینے کی بجائے دشمن پر الزام لگادینا آسان کام ہوتا ہے ۔ اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ’’طاقتور کے پاس دو آپشن بچے ہیں۔ یا تو مستقل کریک ڈائون کرتے رہیں، جس کی وجہ سے داخلی طور پر مسائل پیدا ہوجائیں گے ، یا پھر بیرونی دشمنوں پر الزام لگاتے رہیں، جو جنگ کی وجہ بن سکتے ہیں۔‘‘
کشمیر کے حوالے سے نریندرمودی کا انڈیابیک وقت یہ دونوں راستے اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ تاہم انڈیا جو کچھ بھی کررہا ہے، اور اس کے مستقبل میںکیا نتائج برآمد ہوں گے، یہ بھارتیوں کا مسئلہ ہے ۔ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ اس الزام سے خود کو کیسے بچا سکتے ہیں؟پہلی بات تو یہ کہ ہمیں یہ فرض نہیں کرنا چاہئے کہ جنگ کے ماحول میں، چاہے یہ اُس کا اپنا ہی پیدا کردہ کیوں نہ ہو، بھارتی قیادت معقولیت کا ہی مظاہرہ کرے گی۔ یہ بات کرنا معقولیت نہیں۔’’اگر تم نے حملے کا سوچا توتمہیں سبق سکھادیں گے‘‘، خاص طور پر جب جنگ کے ایٹمی تصادم میں بدل جانے کا بھی خطرہ موجود ہو۔ ہم نے ماضی میں بھی غلط تزویراتی اندازے لگائے ۔ 1965 ء میں ہمارا خیال تھا کہ آپریشن جبرالٹر کے جواب میں انڈیا انٹر نیشنل بارڈ رکراس نہیں کرے گا، لیکن اس نے ایسا کردیا۔ ہمارا خیال تھا کہ مغربی بارڈر سے حملے کی دھمکی ہی مشرقی پاکستان کی سیکورٹی کے لئے کافی ہوگی، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ممبئی حملوں کے بعد سے ہم فرض کررہے ہیںکہ ایٹمی تصادم کے خطرے کے پیش نظر بھارت سرجیکل اسٹرائیک سے باز رہے گا۔ بہتر ہے کہ ہم اپنے مفروضوں کو اس حد تک آزمانے اور اُن پر تکیہ کرنے سے گریز کریں۔ Tort law classes میں جو کیس لازمی طور پر پڑھایا جاتا ہے ، وہ Rylands v. Fletcher ہے۔ فیصلے میں برطانیہ کے لارڈ چانسلر لکھتے ہیں۔’’ہمارا خیال ہے کہ قانون کی حقیقی حکمرانی یہ ہے کہ ایک شخص جواپنی زمین پر کوئی ایسی چیز لاتا ہے ، یا جمع کرتا ہے جو قابو سے باہر ہونے پرخطرہ پیدا کرسکتی ہوتو اس سے جتنا بھی نقصان ہوگا ، اگر وہ قابو سے باہر ہوجاتی ہے، وہ شخص اُس کا ذمہ دار ہوگا۔‘‘اس اصول کا اطلاق غیر ریاستی عناصر پر بھی ہوتا ہے ۔ ہمیں ساٹھ ہزار جانیں گنوانے کا تلخ تجربہ ہوچکا ۔ اس کے بعد ہمیں ملک بھر میں فوجی آپریشن کے ذریعے ان غیر ریاستی عناصر کو ختم کرنا پڑرہا ہے ۔ ہمیں فاضل چانسلر کا فیصلہ ذہن میں رکھنا چاہئے ، اور پھر ہمارا تجربہ بھی یہی کہتا ہے کہ خطرناک عناصر کو اپنی سرزمین پر رکھتے ہوئے یہ توقع کرنا غلط ہوگا کہ ان کا صرف ہمسائے کو ہی نقصان ہوگا۔ نہیں، اس کا ہمیں بھی نقصان ہوگا، چاہے یہ عناصر قابو سے باہر نہ بھی ہوں۔ اس سے قطع نظر کہ کیا یہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر ریاستی عناصر ہیں جو ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کرتے ہیں، جب تک ہم انہیں اپنے ہاں سے نکال نہیں دیتے ، یا ان کا خاتمہ نہیںکردیتے ، ہم کسی واقعہ میں ملوث ہوں یا نہ ہوں، ہم پر الزام لگتا رہے گا۔یہ بھی درست ہے کہ یہ غیر ریاستی عناصر ’’مہذب دنیا ‘‘ کے تعاون سے ہی ہمارے ہاں وجود میں آئے تھے ۔ لیکن اُن کے قدیم نظریات کی مخالفت نہ کرنے اور اُن کے وجود کو مغرب کی ساز ش کا نتیجہ قرار دینے کی منافقت کام نہیں دے گی، اور نہ ہی کوئی ہماری بات سنے گا۔ دنیا سرد جنگ سے بہت آگے جاچکی ، اب دنیا کو غیر ریاستی عناصر کی ضرورت باقی نہیں۔ پھر غیر ریاستی عناصر نے ہمارے کسی دشمن کاکچھ نہیں بگاڑ ا ، انھوں نے ہمارا ہی خون بہایا ہے ۔ چنانچہ وقت آگیا ہے جب ہمیں اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے پرعزم فیصلہ کرنا ہوگا۔ انڈیا نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ پاکستان میں کچھ طبقوں کی ہمدردی حاصل کرے گاتاکہ علیحدگی کے جذبات پیدا کرسکے ۔ چنانچہ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم ان کے مسائل کا تدارک کریں۔ انڈیا ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، ہم اُس کی سوچ کو تبدیل یا کنٹرول نہیں کرسکتے، لیکن اپنی کمزوریوں کو تو دور کرسکتے ہیں۔


.
تازہ ترین