• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امید یا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ’’انفارمیشن ٹیکنالوجی ‘‘ کے انقلاب کے بعد بدنما چہروں اور حقائق کو چھپانا مشکل ہو جائے گا اور بڑے بڑے راز طشت ازبام ہونے لگیں گے چنانچہ پانامہ لیکس کے بہت سے سروں پر منڈلاتے خطروں کے ساتھ بہاما لیکس کا سکینڈل بھی منظرعام پر لایا گیا ہے جس میں 2.23ارب ڈالرز یعنی دو کھرب 23ارب ڈالروں کی مالیت کے سرمایہ کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ سمندری ساحلوں سے محفوظ فاصلوں پر کھاتوں میں پاکستانی سیاست دانوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ایک نام جماعت اسلامی کے معروف لیڈر پروفیسر خورشید کا بھی بتایا جاتا ہے ۔ بہاما لیکس کے 13لاکھ دستاویزات سامنے آچکی ہیں جن میں ایک سو پچاس پاکستانی کمپنیوں کے نام بھی ہیں ۔ ان میں الطاف خاقانی ، مشرف دور حکومت کے وزیر نصیر خاں کے بیٹے اور معروف بلڈر محسن شیخانی بھی ہیں ۔نگاہوں سے چھپنے کی یہ کوشش ایک طویل عرصے سے جاری ہے جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ سے پہلے پاکستان میں ’’سمگلرگردی ‘‘ اس قدر ترقی کر چکی تھی کہ کروڑوں کی مالیت کا سمگل شدہ سامان سمندر کے نہاں خانوں میں چھپایا گیا تھا اور مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اس ڈبوئے گئے سرمائے اور سمگل شدہ اشیاء کو برآمدکرنے اور حکومتی خزانے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ مبینہ طور پر اس فیصلے پر عملدرآمد ایک غیر ملکی ادارے کے حوالے کیا گیا مگر تقریباً سارا سامان اس ادارے کے’’حوالے‘‘ ہو گیا اور بتایا جاتا ہے کہ سمندر کے راستے ہی یہ سمگل شدہ سامان ’’ری سمگل ‘‘ہو گیا ۔پاکستان کے ہاتھ شراب کی چند بوتلوں کے سوا کچھ بھی نہ آیا ۔ انگریزی محاورے کے مطابق ’’ڈیول اور گہرے سمندر کے درمیان ‘‘ یہی کچھ ہی ہو سکتا تھا جو کچھ ہوا۔پانامہ لیکس اور اب امریکی ریاست میامی کے قریب بہاما لیکس میں سینکڑوں آف شور کمپنیوں کے مصروف عمل ہونے کا عمل امریکی حکام کو تو یقینی طور پر ہو گا اور یہ جنرل ایوب خاں کے دور کے نصف صدی بعد کے جدید ترین سرمایہ دارانہ نظام کی تازہ ترین ’’کارروائی ‘‘ ہے جو قانون کی نگاہوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کر رہی ہے ۔سرمایہ داری نظام میں سرمایہ داروں کے سرمائے میں اضافے کی کسی بھی کوشش کو غیر قانونی یا غیر اخلاقی بنیاد سمجھا جاتا چنانچہ پانامہ لیکس کی طرح بہاما لیکس کے خلاف بھی کوئی موثر کارروائی نہیں ہو سکتی ۔کچھ عناصر یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ چین اپنے سابقہ نظام کو چھوڑ کر سرمایہ داری نظام کو تقریباً قبول کر چکا ہے چنانچہ پاکستان کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات کے باعث سرمایہ داری نظام کے ضابطوں کے تحت اس کی نگاہ پاکستان کے معدنی ذخائر پر بھی ہو سکتی ہے جس کو برآمد کرنے کے لئے چین اپنی خدمات پیش کر سکتا ہے اور یہ خدمات جنرل ایوب خاں کے دورحکومت کی خدمات جیسی بھی ہو سکتی ہیں جس کی سرمایہ داری نظام اجازت دیتا ہے لیکن توقع کی جا سکتی ہے کہ گزشتہ سترسالوں میں پاکستان کے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے بہت سے سبق سیکھ لئے ہوں گے چنانچہ وہ اپنے ملک کے معدنی ذخائر کی حفاظت کرسکیں گے۔پانامہ لیکس اور بہاما لیکس کے کھاتوں میں کھربوں کی مالیت کا سرمایہ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کے مطابق جائز قانونی کاروبار کرنے والے لوگوں اور کمپنیوں کے پاس کوئی خاص سرمایہ نہیں رہ گیا ہو گا اور یہ سرمایہ بھی اکیسویں صدی کے پہلو بدلنے کے ساتھ کسی نہ کسی ’’لیکس‘‘ کے پاس چلا جائے گا اور پیچھے ٹھن ٹھن گوپال رہ جائیں گے۔پانامہ اور بہاما لیکس میں اتنی طاقت اور اہلیت موجود ہے کہ جو سرمایہ داری نظام کو گہرے سمندر میں ڈبوسکتی ہیں۔


.
تازہ ترین