• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان کمیونزم کا آہنی پردہ حائل ہو گیا تو چیک ادیب میلان کنڈیرا مزاحمت کی ایک اہم آواز بن کر ابھرا۔ وہ اپنے جسم پر کسی اصطلاح کی مہر لگانے پر تیار نہیں لیکن اس کے اس دور کے ناولوں میں جبر کے جبڑے میں پھنسے سماج کی بپتا خوب بیان ہوئی ہے۔ میلان کنڈیرا کے پہلے ناول ’مذاق‘ کا ہیرو مذاق ہی مذاق میں ٹراٹسکی زندہ باد کہنے پر اپنے سماج کی طرف سے دھتکار دیا جاتا ہے۔ وہ سماج جو ان دنوں کمیونزم کی محبت میں سر تا پا ڈوبا ہوا ہے اور جسے کمیونزم کے کسی حریف کی مدح گوارا نہیں چاہے وہ ٹراٹسکی ہی کیوں نہ ہو۔ کنڈیرا کا ہیرو اسیری کے چند سال گزار کر معاشرے میں واپس آتا ہے تو اس کے دل میں یہ تمنا بھی ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اس کی زندگی برباد کی ان سے کسی نہ کسی طور بدلہ لے۔ مگر یہ پراگ کی بہار (پراگ ا سپرنگ) کا موسم ہے اور اس کے تمام دشمن اب خود کمیونزم کو گالیاں دے رہے ہیں۔ ایسے میں ہیرو صاحب کی بدلے کی مہم کسی مذاق کے سوا کچھ نہیں لگتی۔ ان دنوں میں فیس بک پر جب طالبان کے خلاف ایک سے بڑھ کر ایک بیان دیکھتا ہوں تو مجھے کنڈیرا کے اسی ناول کے وہ کردار یاد آتے ہیں جن کی ایسی قلب ماہیت ہوئی کہ انھیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ ان کا پرانا موقف کیا تھا۔ جب ملالہ پر گولی چلائی گئی تھی تو اسی سوشل میڈیا پر ان دلائل کا انبار لگا تھا جنھیں اگر سقراط اپنے کانوں سے سنتا تو منطق، سوال اور دلیل جیسے لفظوں کا پیٹ پھاڑ کر جنگل کو نکل جاتا۔ملالہ کو گولی لگی تو وہ چودہ سال کی ایک بچی تھی۔ اس پر حملے کی خبر سن کر میں لرز گیا تھا کہ علم کے دشمن کیا اس حد تک بھی گر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پہلے دو دن اس سے ہمدردی کی لہر بھی چلی تھی۔ لیکن جب اس کے زندہ ہونے کی خبر ملی تو ہماری اذیت پسند قوم کی ایک بڑی اکثریت نے اپنے ہاتھ میں پتھر تھام لئے تھے۔ ملالہ بھی پشاور کے ان ایک سو چالیس بچوں کی طرح ایک بچی ہی تھی۔ وہ اعتزاز حسن بھی ایک بچہ ہی تھا جس نے اپنے اسکول کو آرمی پبلک اسکول پشاور جیسے انجام سے بچانے کے لئے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ ان اسکولوں میں بھی بچے ہی پڑھتے تھے جنھیں طالبان آئے روز تباہ کر رہے تھے۔ آج قوم کی اکثریت ان بچوں کے قاتلوں کے خلاف پرعزم نظر آتی ہے اور یہ بات خوش آئند بھی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہونا چاہئے کہ ہم بہ حیثیت قوم اپنے آپ سے کچھ سوال بھی کر لیں۔ ان سوالوں کے نتیجے میں اگر ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ پہلے ہمارا موقف غلط تھا اور ہمارے دل میں ہمارے اپنے قاتلوں کے لئے ہم دردی موجود تھی، تو یہ ایسی کوئی بری بات نہیں ہو گی۔ طالبان کے لئے ماضی میں ہمدردی رکھنے کی کوئی سزا تو پوپا (پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس ) میں بھی موجود نہیں۔ تو پھر اپنے آپ سے کچھ سوال کر لینے میں ڈر کاہے کا؟لیکن سوال ہمیں ماضی سے متعلق ہی نہیں، مستقبل سے متعلق بھی کرلئےنے ہیں۔
پراگ کی بہار بھی عرب کی بہار جیسی ایک سیاسی تحریک تھی اور اسی جیسے انجام کا بھی شکار ہوئی۔ پراگ سپرنگ کے نتیجے میںچیکوسلواکیہ میں ایک ایسی حکومت آئی جو اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق کام کر رہی تھی۔ الیگزینڈر دوب چیک کی قیادت میں یہ بہار ساڑھے سات ماہ چلی۔ مگر سوویت یونین ابھی مشرف بہ گورباچوف نہیں ہوا تھا سو خروشیف کی فوجوں نے پیش قدمی کی اور روسی ٹینک پراگ کی سڑکوں پر گشت کرنے لگے۔کنڈیرا کا ناول ’مذاق‘ سن سڑسٹھ سے پہلے کی سرگزشت سناتا ہے اور اس کے بعد کا احوال اس کے دیگر ناولوں میں ملتا ہے۔ ہوا یوں کہ ناول ’مذاق‘ کے ہیرو کے وہ حریف جو کمیونزم کی محبت اور نفرت کے دو مرحلوں سے گزر چکے تھے، اب کمیونزم کو مزید برداشت کرنے کے مرحلے میں داخل ہو کر اپنے ہی ہم وطنوں کی جاسوسیاں کرنے لگے۔ پراگ کا شہر اگلے بائیس برسوں کے لئے پھر سے یرغمال بنا لیا گیا۔
کیا ہماری قوم پربھی طالبان سے ہمدردی کا بھوت دوبارہ سوار ہو جائے گا؟آئیے اس کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیکھئے طالبان سے ہم دردی کا ہمارا، فی الحال سابق، جذبہ ہمارے کچھ ایسے جذبات سے پھوٹا ہے جو اب بھی برقرار ہیں۔زیادہ تر لوگ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان تو ٹھیک ہیں جو غیر ملکی افواج کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں جب کہ پاکستانی طالبان غلط ہیں جو ہماری فوج اور ہماری قوم سے لڑ رہے ہیں۔ پاکستانی طالبان نے ہمیشہ افغان طالبان کے امیر ملا عمر کی اطاعت کا اعلان کیا ہے اور افغان طالبان نے انھیں کبھی اس قتل و غارت سے روکنے کی کوشش نہیں کی جس کے نتیجے میں اب تک پچاس ہزار جانیں جا چکی ہیں۔ اگر پاکستان کے زیادہ نہیں صرف دس بارہ افراد کے قتل کو ہی ملا عمر کی جگہ بھارت کے کسی تپسوی مہاراج کی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ اشیرباد حاصل ہوتی تو کیا ہم اسے بھی ملا عمر کی طرح معصوم قرار دیتے؟ دوسرے یہ کہ آج کل طالبان کے حامی مذہبی بیانیے کو ایک اور مذہبی بیانیے کے ذریعے شکست دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ مذہبی بیانیہ کہتا ہے کہ : ’’ طالبان برے ہیں کیونکہ وہ قتل و غارت گری کرتے ہیں۔ وہ خارجی ہیں، وہ تکفیری ہیں، وہ اسلام سے دور ہو چکے ہیں جب کہ دیگر ان برائیوں سے پاک ہیں۔‘‘ لیکن ہم توہین مذہب کے مقدمات میں دیگر فرقوں کا ردعمل بھی تو ملاحظہ کرتے رہے ہیں۔ جوزف کالونی بھی ہمارے ہی ملک میں ہے، دو مزدور مسیحی میاں بیوی کو بھی ہمارے ہی ملک میں زندہ اینٹوں کے بھٹے میں پھینک دیا گیا تھا اور قاتل کے گلے میں پھولوں کے ہار بھی ہمارے ہی ملک میں ڈالے گئے تھے۔ اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ کام طالبان نے نہیں کئے تھے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے درخت کی صرف اس شاخ کو کاٹ رہے ہوں جس پر زہریلے پھول نمایاں ہو چکے ہیں اور جن کی ہوش ربا بو ہمارے نتھنوں کو جلائے دیتی ہے؟
کیا انتہاپسندی کے درخت کی ایک شاخ کاٹ دینے اور دوسری شاخوں کی پرورش کرنے سے انتہا پسندی ختم ہو جائے گی؟زہر اگر جڑوں تک سرایت کر چکا ہے تو پھر انتہا پسندی کی صرف ایک شاخ کاٹنے کا کیا فائدہ؟ اور یہ شاخ کاٹ بھی دی گئی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ دوبارہ نہیں اگ آئے گی۔ زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا؟ کیا مناسب نہیں ہو گا کہ ہم اس درخت کی جڑوں کا بھی معائنہ کر لیں جس سے یہ تمام شاخیں نکلی ہیں؟
ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہم ایک سرنگ سے نکلیں اور دوسری سرنگ میں داخل ہو جائیں۔ ورنہ طالبان کے خلاف جوش و خروش پر مبنی ہماری بہار کا بھی وہی حشر نہ ہو جو عرب کی بہار اور پراگ کی بہار کا ہوا۔
تازہ ترین