• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز نیویارک میں امریکہ پاکستان بزنس کونسل اور امریکی ایوان صنعت و تجارت کی جانب سے اپنے اعزاز میں مشترکہ طور پر دیے گئے ظہرانے سے خطاب اور لندن میں میڈیا سے گفتگو میں بڑے اہم موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ نیویارک میں امریکہ کے کاروباری حلقوں کو انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ان کی حکومت نے تین سال کے اندر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے نتیجہ خیز اقدامات کیے جس کی وجہ سے آج ملک کی ایک ایک انچ پر ریاستی عمل داری پوری طرح قائم کی جاچکی ہے، قومی معیشت جو موجودہ حکومت سے پہلے بدترین زبوں حالی کا شکار تھی اب نہ صرف بحال ہوچکی ہے بلکہ دنیا کی چند سرفہرست ابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہوگئی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ امریکہ اور پاکستان میں دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لئے پاکستان کو امریکی منڈیوں تک ترجیحی تجارتی رسائی دی جائے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ امریکی ایوان تجارت اور امریکہ پاکستان بزنس کونسل دونوں ملکوں کو تجارتی روابط اور سرمایہ کاری کے حوالے سے قریب لانے اور امریکی انتظامیہ اور کانگریس کو اس کی افادیت کا قائل کرنے کی مؤثر کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف بلاشبہ ملک و قوم کی بہتری کے لئے سب سے زیادہ اہمیت معیشت کی ترقی کو دیتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر واضح اور بجا طور پر یہ ہے کہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور دہشت گردی ہی نہیں بلکہ مستحکم دفاع ، بہتر بین الاقوامی تعلقات اور عالمی سطح پر ممتاز اور باوقار مقام حاصل کرنے کے لئے بھی لازمی ہے کہ پاکستان کو دنیا کی بڑی اقتصادی طاقت بنایا جائے۔ تاہم ہموار اقتصادی ترقی کے لئے علاقائی امن بھی ایک لازمی ضرورت ہے۔لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی موجودہ حکومت خطے میں طبل جنگ بجانے پر تلی ہوئی ہے۔بھارتی لیڈر اور میڈیا سب پر جنگی جنون طاری ہے اور پاکستان پر پل پڑنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ پاکستان بھی بلاشبہ بھارتی جارحیت کی صورت میں اپنی سرزمین کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنے کے لئے تیار ہے لیکن بھارت کی طرح کسی قسم کے جارحانہ عزائم کا اظہار پاکستان میں نہ سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے کیا جارہا ہے نہ میڈیا اور عوامی حلقے ایسی کوئی بات کررہے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکوں کے درمیان تنازعات کا تصفیہ جنگ سے کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ باہمی تباہی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اس لئے صاحب بصیرت رہنما ہمیشہ جنگ کے بجائے بامقصد بات چیت کے ذریعے تنازعات کے منصفانہ حل کی تلاش کو ہوشمندی کی راہ قرار دیتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے لئے بھی یہی سلامتی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔لیکن وزیر اعظم مودی بظاہر اپنے انتہاپسندانہ نعروں کے حصار میں گھرے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنے کی ہمت نہیں کرپارہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ جو لیڈر انتہاپسندی اختیار کریں وہ خود بھی تباہی کا شکار ہوتے ہیں اور اپنی قوم اور ملک کے لئے بھی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ بھارتی قیادت اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے وعدوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادی دینے پر تیار ہوجائے تو علاقے میں مسلسل کشیدگی کا بنیادی سبب ختم ہوسکتا ہے۔ لیکن مودی حکومت یہ سیدھا راستہ اپنانے کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں بھارتی افواج کی موجودگی کے باوجود کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو دبانے میں ناکامی کا الزام پاکستان پر عائد کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے ۔ پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائی کی باتیں بھارت میں کھلے عام کی جارہی ہیں جس کی بناء پر دوایٹمی طاقتوں میں تصادم کے خدشات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان حالات میں عالمی برادری کو آگے بڑھ کر بھارت کے جنگی جنون کو لگام دینااور بھارتی قیادت کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا ، ایسا نہ کیا گیا تو محض اس خطے ہی کا نہیں پوری دنیا کا امن تہ وبالا ہوسکتا ہے۔
.
تازہ ترین