• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قاضی ماجد علی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی کتاب ملی۔ ان کے ’’مشاہدات، تجربات اور گزارشات‘‘ پر مشتمل اس کتاب کا عنوان ہے ’’ہو کیوں فطرت میں چنگیزی‘‘۔ روحانی سی کتاب ہے جس کے پہلے خالی صفحہ پر قاضی صاحب نے میرے بارے میں جو لکھا، ان کی عالی ظرفی ہے جسےمیں اپنے کالم میں ری پروڈیوس کروں تو میری کم ظرفی ہو گی کیونکہ میں خود کو اس کے قابل نہیں سمجھتا لیکن ایک بات کی وضاحت ذرا ضروری محسوس ہوتی ہے۔ قاضی صاحب بقلم خود لکھتے ہیں ’’سابق جج سپریم کورٹ فقیر محمد کھوکھر صاحب کے ذریعہ آپ کو یہ کتاب مہینوں پہلے بھجوائی تھی۔ معلوم نہیں آپ تک پہنچی یا نہیں۔ نیاز مند قاضی ماجد علی‘‘اطلاعاً عرض ہے کہ یہ کتاب مجھ تک کبھی نہیں پہنچی۔ پہنچتی تو قاضی صاحب تک اس کی رسید بھی پہنچتی۔ ممکن ہے جج صاحب کو فرصت نہ ملی ہو یا میرا ایڈریس نہ ہو۔ بہرحال بالآخر مل ہی گئی ہے۔ یوں تو ساری کتاب ہی روح پرور ہے لیکن صفحہ 80 کا تو عنوان ہی جہان خیر و برکت ہے۔’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کی نظر میں‘‘یوں تو یہ سب پہلے بھی میری نظروں سے گزر چکا بلکہ اس میں تو ہندوئوں سکھوں کا نعتیہ کلام بھی شامل ہے لیکن سچ یہ کہ پہلی بار یہ نثری شاہکار یکجا ہو کر سامنے آئے تو ان کا سحر ہی نرالا تھا۔ اللہ ماجد صاحب کو صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے۔ کمال کام کیا کہ پرنگل کینیڈی (Pringle Kennedy)، مائیکل ہارٹ (Michael Hart)، جے ایچ ڈینی سن (J.H. Denison) لیمر ٹائن (Lamartine) سرولیم میور (William Muir) تھامس کارلائل (Thomas Marlyle) جان گلب (John Glubb) ڈبلیو منٹگمری واٹ (W. Montgomery Watt) الفریڈ جولیم (Alfred Guillame) ریوباسویل سمتھ (Rev. Boswell Smith) کیرن آرمسٹرانگ (Karen Armstrong) اور پروفیسر فلپ ہٹی (P.K. Hitti) کو ایک جگہ جمع کر کے ایک ایسا گلدستہ بنا دیا جس کی خوشبو سے روح بھی مہک اٹھتی ہے۔مائیکل ہارٹ، ولیم میور، کارلائل اور کیرن آرمسٹرنگ کے ناموں تو پڑھے لکھے واقف ہی نہیں، ان کے خیالات سے بھی واقف ہیں کہ وہ ہمارے آقا  ؐ کے بارے کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہیں لیکن باقی عظیم اہل دانش سے اکثریت شاید آشنا نہ ہو تو میں یہ روشنی اور خوشبو آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔پرنگل کینیڈی اپنی کتاب ’’عرب معاشرہ محمدﷺ کے زمانہ میں‘‘ لکھتے ہیں ’’مسیحیت بہت حد تک روح سے خالی، رسوم رواج میں جکڑی ہوئی اور مادہ پرستی سے آلودہ تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ چند ہی برسوں میں سب تبدیل ہو گیا۔ 650 عیسوی تک پہنچتے پہنچتے اس دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ ایک دم مختلف دکھائی دینے لگا جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ یقیناً انسانی تاریخ کا ایک نمایاں باب ہے اور یہ حیرت انگیز تبدیلی جو بنیادی طور پر ایک پیغمبر کی زندگی سے آئی جن کا ظہور مکہ میں ہوا‘‘۔مائیکل ہارٹ کی تو بات ہی کیا کہ اس نے اپنی شہرۂ آفاق (The 100) میں حضور ؐ  کو سب سے اونچے مقام پر دیکھا اور اس کا اعتراف کیا اور آپ کو انسانی تاریخ کی عظیم ترین، سب سے متاثر کرنے والی شخصیات مانا۔جے ایچ ڈینی سن کی سنیئے، ’’عیسائیت کی نئی نئی پابندیاں قوموں میں تفریق پیدا کر رہی تھیں۔ بجائے یکجہتی کے تہذیب ایک ایسے بہت بڑے درخت کی مانند تھی جس کے پتے گلنا سڑنا شروع ہو گئے ہوں اور یہ عمل اس کی جڑوں تک پہنچ چکا ہو۔ کیا وہاں ایسی کوئی تہذیب بچی تھی جو انسان کو دوبارہ ایک کر دے اور معاشرے کو تباہی سے بچا سکے؟ یہ صرف عرب کی دنیا میں ممکن ہوا جہاں ایک ایسا شخص (محمدﷺ) پیدا ہوا جس نے آگے چل کر مشرقی اور جنوبی دنیا کو متحد کرنا تھا‘‘۔ایس پی سکاٹ لکھتا ہے ’’اگر مذہب کا مقصد اخلاقی اقدار کی ترویج اور برائیوں کا خاتمہ ہے، لوگوں کو خوشیاں دینا ہے، انسانی ذہن کی ترویج ہے اور اگر انسانوں کے اچھے اعمال کا صلہ ایک دن ملنا ہے جب سب کو جمع کیا جائے گا اور ان کی اچھائیاں برائیاں ظاہر کی جائیں گی تو یہ نہ ہی غیر متعلقہ یا غیر معقول بات ہو گی جب یہ تسلیم کیا جائے کہ محمدؐ واقعی اللہ کے پیغمبر تھے‘‘۔لیمر ٹائن ایک فرانسیسی دانشور، تاریخ دان تھا۔ اس نے بھی مائیکل ہارٹ کی طرح ہمارے نبی ؐ کو بنی نوع انسان کی تاریخ میں نمبر ون پر لکھا، "History of Turkey" کے صفحہ 276 پر لکھتا ہے۔’’فلسفی، بہترین مبلغ، بہترین ماہر جنگ، قانون ساز، اصول اور عقیدہ سے لیس، ناممکن کو ممکن بنانے والا، حقیقت پسندی کو رائج کرنے والا، بیس سلطنتوں کی بنیاد رکھنے والا اور ایک روحانی پیشوا جس کو محمدؐ کہا جاتا ہے، وہ تمام اصول جس سے انسانی شخصیت کی عظمتوں کو ناپا جا سکتا ہے، ان اصولوں کی روشنی میں کیا ہم یہ بھول سکتے ہیں کہ کوئی اور بھی محمدؐ سے بڑھ کر عظیم شخصیت ہو سکتی ہے۔ اگر معمولی وسائل کے اندر عظیم مقاصد کا حصول اور اس کے زبردست نتائج اور انسانی ذہانت کی بات ہو تو کون یہ جرأت کر سکتا ہے کہ جدید انسانی تاریخ میں کسی بھی عظیم شخصیت کا مقابلہ محمدﷺ سے کرے‘‘۔     (جاری ہے)

.
تازہ ترین