• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخر ہم وزیراعظم کی کشمیر پر اقوامِ متحدہ میں کی گئی تقریر سے چاہتے کیا تھے؟ جو کچھ میاں نواز شریف نے کشمیر پر کہہ دیا، وہ اُنھیں ’’مودی کے یار‘‘ کا طعنہ دینے والوں کے لئے چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے کے لئے کافی ہونا چاہئے تھا۔ ہماری احمقانہ خواہشوں کی تشفی تو کبھی ہونے سے رہی، البتہ جو درگت وزیراعظم کی تقریر کی بھارت میں کی جا رہی ہے، اُن کے ناقدین کو صبرجمیل دینے کو کافی ہونی چاہئے تھی۔ لیکن لڑاکو محلے داروں کو بھلا کہاں چین آنے والا۔ منہ توڑ جواب کا تقاضا کرنے والے کبھی شدت پسند لفاظی سے حریف کی بتیسی نکال باہر کرنے کے ہنر کا مظاہرہ کر کے دکھلائیں تو۔ بڑھکیں اور زبان درازی بھلا معقول وکالت کا کبھی نعم البدل ہوئے۔ لیکن ذرا سوچئے! اگر تقریروں اور یو این سیکورٹی کونسل کی بے توقیر قراردادوں سے کچھ ہونے والا ہوتا، تو کشمیر کا مسئلہ کبھی کا حل ہو چکا ہوتا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری زہریلی زبانی جنگ مقامی قوم پرستانہ جذبات کی تسکین تو کر سکتی ہے، مسئلے کا حل نہیں۔ یہ کہنا کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، برصغیر میں امن قائم ہونے والا نہیں۔ مسئلے کو سر کے بل کھڑا کرنے کا گھامڑ پن ہے۔ اس مسئلے کو حل کئے بغیر بھی وقفوں وقفوں سے امن برقرار رہا اور اس کی وجہ سے (یا اس کے بغیر بھی) جنگیں ہوتی رہیں اور اُن کے باوجود مسئلے کا حل نکلا، نہ نکلنے والا ہے۔ اور جب کشمیری خود سے نوآبادیاتی استبداد سے تنگ آ کر نہتے، گلیوں سے نکل آئے اور استبداد کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا ہوا، تو اچانک غیرریاستی عناصر یا پھر مخالف غیرمرئی قوتوں نے ایسی خوں آشامی کی کہ اُلٹا جمہوری حق مانگنے والوں کو خفت اُٹھانا پڑی۔ جب بھی کوئی کشمیر کی جمہوری مانگوں اور انتفادہ کو دہشت گردی سے گڈ مڈ کرے گا، تو سمجھئے کہ پاک بھارت سر پھٹول کو انگیخت دی گئی ہے اور کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔ اب چھرا گھونپنے والوں کا کاروبار بڑھا دیجئے یا پھر کشمیریوں کی داد رسی کر لیجئے۔ دونوں کام ساتھ چلنے والے نہیں اور نہ ہی یوں دو طرفہ مذاکرات شروع ہونے والے ہیں اور اگر ہوں بھی تو اُن کی بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں۔ ایک ہی کام کو بار بار ایک ہی طرح سے کرنے سے مختلف نتائج کی توقع کرنا حماقت پسندی نہیں تو کیا ہے؟ جی ہاں! اگر امن اور باہمی مذاکرات سے تمام مسئلوں کا حل نکالنے کی سنجیدہ اور پُرخلوص کوشش کی جائے تو کشمیر کے مسئلے کے ایک نہیں کئی حل نکل سکتے ہیں۔ کیا کارگل کی بلند چوٹیوں سے اُتر کر جنرل مشرف نے پہلے اٹل بہاری واجپائی اور پھر من موہن سنگھ کے ساتھ کشمیر کے مشکل مسئلے کا حل نہیں نکال لیا تھا؟
کیا واقعی ہمارے معتبر حکمت کار سمجھتے ہیں کہ بھارت کو زچ کرنے سے وہ مسئلے کے حل پہ مجبور ہو جائے گا۔ تو اُنھیںگزشتہ مہم جوئیوں کے ناقابلِ تلافی نقصانات ہی پر کچھ غور کر لینا چاہئے۔ غالباً، بھارتی پارلیمنٹ، ممبئی، پٹھان کوٹ اور اب اُڑی کے حملوں کے بعد بھارت جنگ آمد بجنگ آمد کی جانب مائل ہوا نظر آتا ہے۔ یقینا اُڑی کے فوجی اڈے پر حملے نے بھارت کو کامیاب سفارت کاری کے لئے مؤثر ہتھیار فراہم کر دیا ہے۔ بھلے اس میں اِدھر سے کسی کا ہاتھ ہو نہ ہو۔ عالمی برادری میں پاکستان کا تصور بد سے بدنام بُرا والا ہے اور دہشت گردی کے حوالے سے کوئی ہماری صفائی سننے والا نہیں۔ چین، ترکی اور ایک آدھ اور ملک کے علاوہ، ہماری کسی نے نہیں سننی اور ہمیں یہی کہا گیا ہے کہ ایسی تمام دہشت گردی کو ختم کرو یا پھر دہشت گردی کے لئے اپنی زمین ان لوگوں پہ تنگ کر دو جو ہمسایوں یعنی افغانستان اور بھارت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ ایک المناک مضحکہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خون بھی ہمارا سب سے زیادہ بہہ رہا ہے اور ہماری سلامتی کو ابھی بھی اس سے بڑا خطرہ ہے، پھر بھی سو پیاز اور سو جوتے کھانے کا شوق ختم ہونے والا نہیں۔ دہشت کی جو قوتیں افغان جنگ سے پیدا ہوئیں وہ اب یا کبھی بھی ہمارے خلاف استعمال ہونے کو تیار ہیں۔ ایسی بے پیندے کے تزویراتی اثاثے اُٹھا پھینکنے میں ہی عافیت ہے۔ آگ کے کھیل میں اپنے ہی ہاتھ جلتے ہیں اور ایسے انگاروں سے خلاصی ہی میں قومی بقا ہے۔
کشمیر پرپاکستان کا موقف اگر پھر سے سخت ہوا ہے تو بھارت کی ہٹ دھرمی بھی کچھ زیادہ ہی بڑھی ہے۔ اور ہر دو اطراف کے جنگجو عناصر کشمیر کی آگ میں سارے برصغیر کو لپیٹ دینا چاہتے ہیں۔ اور پاکستان ہر دو اطراف مشرق و مغرب سے گھیرے میں ہے۔ پاک بھارت ناچاقی میں بیچارے کشمیری اور ہمارے اپنے لوگ حقِ خود ارادیت کے نام پر عبرت کا نوالہ بننے جا رہے ہیں۔ یہ تو فقط بہانہ سازی ہے۔ جنگجویت اور عسکریت پسندی کے عفریت پھن پھیلائے میدان میں اُتر رہے ہیں۔ سرجیکل اسٹرائیکس سے مکمل جنگ اور پھر ایٹمی باہمی تباہ کاری پر یوں اصرار کیا جا رہا ہے جیسے کوئی جہنم کی آگ میں کودنے پر شادمانی محسوس کرے۔ جنگ کے سیاہ بادل پھر سے منڈلا رہے ہیں۔ اور ہر دو اطراف میں میڈیا یہ گمراہی پھیلا رہا ہے کہ کس طرح دوسرے کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ہتھیار صرف کسی ایک ہی کے پاس ہے۔ ایسے میں دوسرے کی یقینی تباہی کا یقین دلا کر دونوں ملکوں کے عوام کو گمراہ کرنے کے ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب ریٹنگ کی بھوکی اسکرینوں پر ہر لمحے کیا جا رہا ہے۔ اور کوئی نہیں ہے جو کہے کہ یہ باہمی تباہی کا نسخہ ہے جس سے کوئی بچنے والا نہیں۔ ایسی اجتماعی خودکشی کی وکالت کبھی اس پیمانے پر دُنیا میں کہیں نظر آئی؟
پاکستان کے تین مایہ ناز خارجہ سیکرٹریوں اور سلامتی کے ایک سابق مشیر نے ایک مشترکہ بیان میں تقاضا کیا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کے حوالے سے موجود ابہام دور کرے اور افغان طالبان کو چلتا کرے کہ یہ ہمارے کام کے نہیں، اُلٹا ہمارےلئے سوہانِ روح بننے جا رہے ہیں۔ اسی طرح اُنھوں نے زور دے کر کہا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ گڈ مڈ کرنے سے نہ صرف کشمیریوں کی جدوجہد کو نقصان ہو رہا ہے، بلکہ بھارت کو جواز مل رہا ہے کہ وہ اپنے ظلم و استبداد کو دہشت گردی کے واویلے کے پیچھے چھپا پائے۔ اور ہو بھی یہی رہا ہے۔ اُنھوں نے تقاضا کیا ہے کہ بھارت سے بات چیت کی راہ نکالی جائے۔
بھارت اس وقت مرنے مارنے کے موڈ میں ہے۔ کیا ہمیں اُس کی جنگی چال میں پھنسنا چاہئے یا پھر جیسا کہ یہ ہمارے قومی مفاد میں نہیں، با ت چیت کی کوئی راہ نکالنی چاہئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اُڑی پر حملے کی پُرزور مذمت کرتے اور اس کی تفتیش میں تعاون کی پُرزور پیشکش کرتے، لیکن ہم نے جوابی الزام بازی کرتے ہوئے خود بھارت کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر بری الذمہ ہونے کی جو کوشش کی ہے، اُسے کوئی ماننے والا نہیں۔ ہمارے ہاتھ صاف ہیں تو ہمیں پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں، بھارت کا جھوٹ ہوگا تو سامنے آ جائے گا۔ یا پھر کسی بھگوڑے غیرریاسی عنصر کی کارروائی ہوئی تو اُس سے ہمیں کیا سروکار۔ اپنی راست بازی کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس تاثر کو حقیقتاً دور کیا جائے کہ ہمارے لئے کوئی اچھا طالبان نہیں اور نہ ہی پاک سرزمین پر دہشت گردوں کی کسی کمین گاہ کو چھوڑا جائے گا۔ ضربِ عضب کا عذاب بلاتمیز سب دہشت گردوں پہ نازل ہوگا۔ بھارت میں پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک، محدود جنگ اور دہشت گردی کو فروغ دینے والے عناصر جانے احمقوں کی کونسی جنت میں رہتے ہیں۔ ایک اشتعال انگیز جارحیت پہ جواب تو دیا جائے گا ہی اور پھر یہ سلسلہ چلا تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کہاں جا کے رُکے گا یا پھر باہمی ایٹمی تباہی کا باعث نہیں بنے گا؟ احمقوں کے ہاتھ میں اُسترے آ جائیں اور وہ بھی ایٹمی تو پھر کوئی بچنے کی آشا کیسے کرے۔ دو ایٹمی طاقتیں جو دشمنی پہ تلی ہوں تو عوام کو گمراہی کا شکار ہونے کی بجائے اپنی سلامتی کے لئے باہر نکلنا چاہئے اور جنگ باز قوتوں کے ہاتھ روکنے چاہئیں۔ بقول ساحر لدھیانوی
کہو کہ آج بھی ہم سب خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلائوں سے
زمیں کی خیر نہیں، آسماں کی خیر نہیں
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی مل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
تصورات کی پرچھائیاں اُبھرتی ہیں

.
تازہ ترین