• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کردی ہے، آزادی کی جو نئی لہر برہان وانی کے شہید ہونے کے بعد شروع ہوئی تھی اس میں اب تک ایک سو سے زائد نہتے اور بے گناہ شہری شہید کئے جا چکے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہیں۔ بھارت نے اسرائیل سے درآمد جو گولیاں استعمال کی ہیں اس سے سینکڑوں کشمیریوں کی آنکھیں ضائع ہوچکی ہیں۔ اِس ریاستی دہشتگردی میں امریکہ اور اسرائیل اُسکے ساتھ نظر آتے ہیں۔ پوری تفصیل تو دستیاب نہیں کیونکہ عالمی میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے مگر پھر بھی عالمی اخبارات میں اِس ظلم و ستم کی داستانیں شہ سرخیوں کے ساتھ بیان کی جارہی ہیں، ایک بہت مشہور کالم نگار نے لکھا ہے کہ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک شخص ڈبل روٹی لینے کے لئے گھر سے نکلے اور اُسکو بھارتی فورسز مار دیں۔ بھارت کو اسرائیل نے یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسا ہی کرے جیسا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کررہا ہے کیونکہ فلسطینیوں کی دادرسی کو کوئی تیار نہیں، امریکی صدر باراک اوباما نے اقوام متحدہ میں اپنے آخری خطاب میں فلسطین کا ذکر تو کیا مگر مداوا کرنے کی بات نہیں کی ، بلکہ امریکہ اسرائیل کو کئی سو بلین ڈالر کی امداد دے رہا ہے۔ فلسطینی یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش کوئی ملک پاکستان کی طرح اُن کا پڑوسی ہوتا جو اُن کے لئے آواز اٹھاتا، چنانچہ پاکستان کے صوبوں، اُسکی پارلیمنٹ اور اب پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے 21 ستمبر 2016ء کو اپنی اقوام متحدہ کی تقریر میں اِس مسئلے کو زوروشور سے اٹھایا اور کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی عالمی قانون و اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق اور جائز ہے، کشمیریوں سے دُنیا نے جو وعدہ کیا تھا یعنی استصواب رائے کا،اس کے پورا کرنے کا وقت آگیا ہے اور اس تنازع کو حل کئے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں ہے، کشمیر سے بھارتی افواج نکالی جائیں اور اُسے غیرفوجی علاقہ قراردیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد اقوام متحدہ کو دیں گے۔ ادھر بھارت نے اسرائیلیوں کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے جن کا یہ کہنا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں سوائے اِسکے کہ تمام فلسطینیوں کو ختم کردیا جائے، کشمیر پر ظلم بڑھادیا ہے اور امریکہ کو خوش کرنے کیلئے لداخ سے ملحق چینی سرحد پر ایک سو ٹینک بھیج دیئے ہیں، جیسے کہ چین اُن پر حملہ آور ہونے والا ہو، جو بالکل درست نہیں، چین امن چاہتا ہے، دوسرے بھارت نے پورے بھارت میں جنگی ماحول پیدا کیا ہوا ہے اور اُسکے کالم نگاروں اور سفارت کاروں کے مطابق بھارتی عوام کی تین تہائی آبادی یہ سمجھتی ہے کہ بھارت کے وزیراعظم پاکستان کو زیر کرسکتے ہیں، جس پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایں خیال است و محال است و جنوں یا یہ کہ ایسا خواب جو پورا نہیں ہوسکتا۔ اگر عالمی طاقتوں کے حوالے سے بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ چین نے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے، اُس کے وزیراعظم نے پاکستانی وزیراعظم سے 21 ستمبر 2016ء کو نیویارک میں ملاقات میں کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ تھا، پاکستان کے ساتھ ہے اور پاکستان کے ساتھ رہے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی ملاقات میں کشمیر میں حالیہ تشدد پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے خصوصاً فوجی اڈہ پر اور اِس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ کشیدگی میں کمی لائی جائے گی، جان کیری نے پاکستان کی انسداد دہشتگردی کی کاوشوں کو سراہا اور افغانستان پناہ گزینوں کی 40 سال تک مہمان نوازی کرنے پر تعریف کی، اس طرح انہوں نے بھارت کی حمایت سے گریز کیا جبکہ روس نے قدرے بھارت کی طرفداری کی تاہم وہ 24 ستمبر 2016ء سے گلگت بلتستان میں پاکستان کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کررہا ہے، ان فوجی مشقوں کو روس نے نہ معطل کیا اور نہ ہی منسوخ اور بھارت کے اس موقف کو بھی تسلیم نہیں کیا کہ یہ متنازع علاقہ ہے، پاکستان کی اسلامی کانفرنس نے حمایت کی اور اقوام متحدہ کی جنیوا میں موجود انسانی حقوق کی تنظیم نے بھی کشمیر میں بھارت کے مظالم پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کے برخلاف بھارت کا میڈیا کسی غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ اپنے عوام کو حقیقت بتانے کے بجائے اُن کو جنگی جنون میں مبتلا کررہا ہے اور کئی بھارتی ریٹائرڈ جنرل یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان پر حملے کا آپشن برقرار رکھا جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی جائے، کوئی یہ بڑھک مارتا ہے کہ تعاقب کیا جائے، ایک سابق سفارتکار نے لکھا ہے کہ ہم بیوقوفوں کی جنت میں رہ رہے ہیں، یہ وہ سارے طریقے ہیں جو امریکہ استعمال کرتا ہے مگر کیا وہ روس کے خلاف یہ طریقے استعمال کرسکتا ہے، سادہ جواب یہ ہے کہ نہیں۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ جنگ چھڑ جائے گی۔ اسی طرح پاکستان پر کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں کی جاسکتی، موٹر وے کے ذریعے بھارت اپنی افواج اتارنے کی بات کررہا ہے اُسکو پاک فضائیہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جو سرجیکل اسٹرائیک کو ناکام بنا دے گا۔ پاکستان کی مسلح افواج الرٹ ہیں اور کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو استعمال کرنے کی صورت میں پاکستان اپنے محدود پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ایٹمی ہتھیار اور میزائل استعمال کرسکتا ہے یعنی اگر بھارت آٹھ مقامات سے پوری طاقت سے پاکستان میں گھسنے کی کوشش کرے تو اسکے فوجی بشمول ہتھیار تباہ ہوجائیں گے اور اگر امریکہ اُن کو منجمد کرنے کا یقین دلائے تو بھی پاکستان اُن کے کسی بھی ایسے فوجی اجتماع کو جو ہماری سرحدوں سے 160 کلومیٹر کے فاصلے تک حملہ کرنے کی پوزیشن میں آئے تو بھی محدود ایٹمی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اُن کی فضائیہ تاحال اِس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پاکستان کے ہم پلہ کہی جاسکے، اُن کی بحریہ البتہ قدرے بہتر ہے، تاہم پاکستانی بحریہ دوسرے ایٹمی حملے کی صلاحیت حاصل کرچکی ہے۔ یوں اگر بھارت جنگ کرنا ہی چاہتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ پورے برصغیر کی مکمل تباہی۔ وہ کہتا ہے کہ پاکستان نے محدود پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ہتھیار استعمال کئے تو وہ اسٹرائیک ہتھیار استعمال کرے گا۔ اگر وہ اسٹرائیک ہتھیار یعنی ایٹمی حملہ کرے گا تو سب کو معلوم ہے کہ کسی وقت بھی پاکستان نے ایسا محسوس کیا کہ بھارت ایٹمی حملہ کرنے والا ہے تو پاکستان پہلے حملہ کرنے کا ڈاکٹرائن رکھتا ہے۔ یعنی اس سے پہلے کہ بھارت حملہ کرے پاکستان حملہ کردے گا۔ اگر وہ دوسرا حملہ کرے گا تو ہم بھی ایسا کردیں گے۔ ہم بھارتی بحریہ کو تباہ کرنے کی صلاحیت اِس طرح رکھتے ہیں جو پاکستان کی 1965ء میں تھی۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہان نے واضح طور پر بھارت کو اپنی تیاریوں کے بارے میں متنبہ کردیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت پُرامن طور پر مذاکرات کریں جیسا کہ پاکستان کے وزیراعظم نے اپنی 21 ستمبر 2016ء کی اقوام متحدہ کی تقریر میں پیشکش کی ہے، وہ برصغیر پاک و ہند میں انسانیت کو تباہ کرنے کے منصوبے کو ترک کرے، جہاں تک اڑی کا واقعہ ہے تو اس کی تحقیق بھارت یا تیسری طاقت کے ساتھ مل کر کی جاسکتی ہے۔ بھارت نے یہ ڈرامہ کشمیریوں پر ظلم و ستم سے توجہ ہٹانے کیلئے رچایا ہے۔

.
تازہ ترین