• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سولہ دسمبر کے المناک سانحے کی وجہ سے تحریک انصاف نے چار ماہ سے جاری احتجاجی دھرنا ختم کیا تو حکومت نے بھی سکھ کا سانس لیا تھا اور سانس بھی اتنا طویل لے لیا کہ عوام نام کی مخلوق اب پٹرول کے حصول کے لئے بھی طویل لائنوں میں لگنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔ لیگی وزراء کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ انہیں تو کھانے کا بھی ہوش نہیں اور اپنے منشور کے مطابق مضبوط معیشت اور مضبوط پاکستان کی تکمیل کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اسلام آباد جیسے شہر میں بھی بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈ نگ ہو رہی ہے،سی این جی تو لگژری ٹھہری، گھروں کے چولہے بھی گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے بجھ چکے۔ دعوے کئے جاتے تھے کہ ہمارے پاس ماہرین کی ٹیم ہے اگر ایسے ماہرین اور ایسی منصوبہ بندی ہے تو تین سال بعد کے پاکستان کا اندازہ لگانے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ترجیحات کا عالم یہ ہے کہ وزیر پٹرولیم کو یہ تک پتہ نہیں کہ ان کی ناک کے نیچے کون سا ادارہ کب ڈیفالٹ کر رہا ہے، قومی خزانے کے سربراہ وزیر کانفرنس اٹینڈ کرنے ٹوکیو سدھار جاتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے وزیر اس وقت ٹویٹ کررہے تھے کہ انہوں نے بھی مدینہ منورہ میں وزیراعظم کو جوائن کرلیا ،ملکی ترقی اورا ستحکام کی دعا کی، ماشاء اللہ۔ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ احتجاجی دھرنا ختم ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کی کارکردگی بری سے بدترین ہوگئی ہے۔ حکومت کو راہ راست پر لانے اور عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا وعدہ پورا نہ کرنے پر وہ نئے سرے سے احتجاج شروع کر رہے ہیں۔ پچھلی مرتبہ پارلیمنٹ کے سائے میں چھپنے والی لیگی حکومت کو باور ہونا چاہئے کہ جن سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کی بقا کے لئے انہیں کندھا فراہم کیا تھا اب وہ ان کی نا اہلی کی حمایت کسی طور نہیں کریں گی۔اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ تو یہاں تک کہ چکے ہیں کہ اگر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا تنازع دونوں سیاسی جماعتوں سے حل نہیں ہوتا تو پیپلز پارٹی ثالثی کیلئے تیار ہے لیکن ان کی سنی ان سنی کر دی گئی۔ آخری کل جماعتی کانفرنس کے دوران مشاہد حسین سید نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ کپتان کو ساتھ لے کر ایک کمرے میں بیٹھ جائیں ،جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو بھی ہمراہ لے لیں اور اس وقت تک کمرے سے باہر نہ آئیں جب تک جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اونٹ کسی کروٹ بٹھا نہیں لیا جاتا لیکن میاں صاحب نے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔ احتجاجی دھرنے کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف اور حکمران جماعت کے درمیان جوڈیشل کمیشن کے قیام کے معاملے پر کئی مذاکراتی دور ہوئے تاہم حکومت نے غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہےاور عدالتی کمیشن کے قیام کے معاملے کو لٹکایا جارہا ہے۔ تفصیل کچھ یوں ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان عدالتی کمیشن کے قیام کیلئے جس مجوزہ مسودے کا دو دو بار تبادلہ ہوا ہے اسکے مجموعی طور پر نو نکات ہیں۔دونوں جماعتوں کے درمیان چھ نکات پر اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے ان میں عدالتی کمیشن کو تحقیقات کیلئے 45دن کی معیاد دینے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک سے زیادہ تحقیقاتی ٹیمیں بنانے کے نکات بھی شامل ہیں۔ جن تین نکات پر تحریک انصاف اپنی خواہش اور مسلم لیگ ن اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتی ہے ان میں جوڈیشل کمیشن کا تحقیقات کا دائرہ کار،اختیارات اور موجودہ ملکی قوانین پر ترجیح دینا شامل ہیں۔
دونوں جماعتوں کے مجوزہ مسودے کے مطابق پہلے نکتے پر یہ اختلافات ہیں کہ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ کمیشن تحقیقات کرے کہ کیا عام انتخابات 2013 غیر جانبداری،دیانت داری ،منصفانہ اور قانون کے مطابق منعقد ہوئے یا نہیں جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ کمیشن تحقیقات کرے کہ عام انتخابات 2013ءمنظم منصوبہ بندی سے غیر جانب دارانہ،منصفانہ اور قانون کے مطابق منعقد نہیں کرائے گئے۔تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن تحقیقات کرے کہ کیا عام انتخابات میں کسی نی ساز باز کی یا کوئی ان پر اثر انداز ہوا یا نہیں لیکن حکومت چاہتی ہے کہ کمیشن یہ ثابت کرے کہ منصوبہ بندی کے ذریعے کسی نے عام انتخابات میں ساز باز نہیں کی اور نہ ہی کوئی اثر انداز ہوا۔ اسی طرح تحریک انصاف تحقیقات چاہتی ہے کہ عدالتی کمیشن یہ اخذ کرے کہ کیا عام انتخابات کے نتائج ووٹرز کے حق رائے دہی کی منصفانہ اور درست عکاس ہیں لیکن حکومت کہتی ہے کہ کمیشن یہ ثابت کرے کہ کیا عام انتخابات کے نتائج ووٹرز کے حق رائے دہی کے درست اورشفاف عکاس نہیں ہیں۔ دوسرے نکتے پر اختلافات کچھ اس طرح ہیں کہ تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کو تحقیقاتی عمل کے دوران کسی بھی قانون یا آرڈیننس کے ذریعے کسی دستاویز،مواد اور شہادت کی جانچ پڑتال سے نہیں روکا جائے گا لیکن حکومت کا مؤقف ہے کہ عدالتی کمیشن کسی بھی دستاویز،مواد اور شہادت کی جانچ پڑتال آئین کے دائرے میں رہ کر ہی کر سکے گا۔ تیسرے نکتے پر یہ اختلاف ہے کہ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ سب سیکشن 2 کے تحت آرڈیننس اس صورت میں بھی نافذ العمل ہو گا جب کسی دوسرے قانون کے تحت کارروائی محدود ہوتی دکھائی دے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن سب سیکشن 2 اور 3 کے تحت کارروائی کرنے کا مجاز ہو گا جب دیگر قوانین کے تحت کارروائی محدود ہوتی دکھائی دیگی۔
اب کان کو ادھر سے پکڑیں یا ادھر سے ، آخر کیا مسئلہ ہے،آئینی ماہرین سے سمجھنے کے بعدپتہ چلا کہ یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے بلکہ حکمران جماعت ،تحریک انصاف کو آئینی پیچیدگیوں میں الجھا کر ایسا آرڈیننس پاس کرانا چاہتی ہے جس پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عدالتی کمیشن قائم کرنے سے پہلے یا تو سو بار سوچیں اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اس آرڈیننس کو کوئی بھی چیلنج کر دے جسکے بعد قائم کئے گئے کمیشن کی آئینی حیثیت پر سوال کھڑا ہو جائے اور تحریک انصاف کو ایک بار پھر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے۔آئینی ماہرین کے مطابق حکومتی مؤقف کے مطابق جب کمیشن کو یہ کہا جائیگا کہ وہ تحقیقات کرے کہ انتخابات میں بائی ڈیزائن دھاندلی ہوئی تو یہ از خود آئین کیخلاف ہو گا کیوں کہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت کسی بھی حلقے کے انتخابات کو صرف الیکشن پٹیشن کے تحت کسی الیکشن ٹریبونل میں ہی چیلنج کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح حکومتی ایماء پر اگر کمیشن کو آئین کے تابع کر کے کسی بھی ثبوت یا دستاویز کی جانچ پڑتال تک محدود کر دیا جائے تو انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کیلئے مال خانے میں پڑے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنے میں آئین ایک بار پھر کمیشن کے مانع آئیگا۔اسی طرح کمیشن چونکہ آرڈیننس کے تحت قائم ہو گا اسلئے آرڈیننس کو کبھی بھی آئین پر ترجیح حاصل نہیں ہو سکتی۔اس تمام صورتحال میں یہ نتیجہ اخذکرنا مشکل نہیں ہے کہ حکومت گزشتہ سال اگست کی طرح ایک بار پھر عمران خان کو ایزی لے رہی ہے۔
احتجاج کے اعلان کے باوجود نہ اس پر کان دھرنے کو تیار ہے اور نہ ہی نیک نیتی سے اس تنازع کو حل کرنا چاہتی ہے جس نے پورے ملک کو چار ماہ سے زائد عرصے سے یرغمال بنائے رکھا، سانحہ پشاور سے پہلے احتجاجی دھرنے کے دوران ملک میں جو ماحول تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو ترکی بہ ترکی جواب دینا حکومتی وزراءاور رہنما فرض عین سمجھتے تھے وہی طرز عمل اب ایک بار پھر شروع کر دیا گیا ہے اور تحریک انصاف کی نیوز کانفرنس کے رد عمل میں جواب آں غزل شروع کر دی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن کا المیہ یہ بھی ہے کہ اس کا طرز عمل ابھی تک اپوزیشن کی طرح ہی ہے اور وہ مخاصمت کا رویہ ترک کرنے پر تیار نہیں،اسےتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مشکور ہونا چاہئے تھا کہ وہ احتجاجی دھرنا ختم کر کے دہشت گردوں کیخلاف حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے،اظہار تشکر کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ حکومت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی اور دو قدم آگے بڑھ کر نیک نیتی کیساتھ مفاہمت کے ذریعے عدالتی کمیشن قائم کر دیتی تاکہ تحریک انصاف کے دوبارہ احتجاج کی نوبت نہ آتی لیکن شاید اسے یہ محاورہ بہت پسند ہے کہ آبیل مجھے مار۔ ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کرنیوالے لیگی دانشوروں سے گزارش ہے کہ انہیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی لاتے ہوئے عدالتی کمیشن کے قیام کے معاملے میں فوری طور پر مثبت پیش رفت کرنی چاہئے ۔انہیں یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان سمیت تحریک انصاف کے ستائیس ارکان کے چالیس دن مسلسل غیر حاضر رہنے کا اعلان کیا جا چکا ہے اور اگر کسی نے شرارتا بھی آئندہ ماہ منعقد ہونے والے اجلاس میں ان تمام ارکان کو آئین اور قومی اسمبلی قواعد کے تحت نشستوں سے محروم رکھنے کے لئے تحریک پیش کر دی تو اسپیکر اس پر رائے شماری کے پابند ہوں گے۔اس طرح اگر ایک بار تحریک انصاف پر قومی اسمبلی میں واپسی کے راستے ہی بند ہو گئے تو پھر تو دمادم مست قلندر ہی ہو گا۔خدارا تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر تو حکومت کو یہ باور ہونا چاہئیے کہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہوئی قوم میں اب اگر عدالتی کمیشن کے معاملے پر پھوٹ پڑی تو اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔ کیوں کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے دھاندلی کی ہے یا نہیں یہ فیصلہ تو ہونا باقی ہے لیکن یہ صاف ظاہر کہ عدالتی کمیشن کے قیام پر وہ ضرور دھاندلی کر رہی ہے۔
تازہ ترین