• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
minhajur.rab@janggroup.com.pk
کراچی کی سیاست اپنے اتار چڑھاؤ کے ساتھ کافی دنوںسے زیربحث ہے۔ تصویر ابھی واضح نہیں ہے ایم کیو ایم کا مستقبل کیا ہوگا۔ بظاہر ایم کیوایم اس وقت دو حصوں میں تقسیم نظرآتی ہے جس میں ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیوایم برطانیہ شامل ہے۔ایم کیوایم پاکستان نے اپنے بانی سے لاتعلقی اعلان کرتے ہوئے پارٹی کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہے تودوسری جانب ایم کیو ایم لندن کا کہنا ہے کہ بانی تحریک کے بغیر پارٹی کا وجودممکن نہیں۔ دوسری طرف ابھی تک لوگوں کو یہ یقین نہیں ہورہا ہے کہ الطاف حسین کے بغیر بھی کوئی ایم کیو ایم ہوسکتی ہے ۔ کیونکہ ان کے خیال میں ایم کیو ایم کوووٹ الطاف حسین کے نام پر ملتےتھے ناکہ پارٹی کے نام پہ ۔ یوں بانی کے بغیر پارٹی کا کوئی وجود نہیں۔ایک طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایم کیوایم پاکستان دیکھاوے کے لیے الطاف حسین سے الگ ہوئی ہے۔اصل میں اندرون خانہ ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان ایک ہی ہیں۔ زمینی حقائق کی وجہ سے بظاہر یہ علیحدگی دکھائی جارہی ہے۔ اب کس کا خیال صحیح ہے اور کس کا غلط اس کافیصلہ تو آنے والاکل ہی کرے گا۔ لیکن اس وقت کراچی کے عوام کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والی ہر جماعت میں سے عسکری ونگ کو ختم کیا جائے۔ کیونکہ یہ عسکری ونگ کراچی کے امن کے لیے خطرہ ہے رینجرز کی موجودگی اور بااختیار ہونے کی وجہ سے کراچی میں امن کی صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن اگر کل رینجرز کے اختیارات محدود ہوجائیں گےتو یہ عسکری ونگز پھر متحرک ہوسکتے ہیں ۔ پھر کراچی کے امن کی ضمانت کون دے گا؟یہ عسکری ونگز چاہے ایم کیو ایم کے ہوں یا پیپلزامن کمیٹی کے ہوں، پاسبان یا جماعت اسلامی کے ہوں، عوامی نیشنل پارٹی یاکالعدم تنظیموں کے۔ ان کا " آپریشن کلین" بہت ضروری ہے۔ سب سے پہلے ان کے پاس موجود اسلحے کے ڈھیر کو حکومتی تحویل میں لیا جائے اور پھر عسکری ونگ کےلوگوں کو تحویل میں لے کر ان کی سائیکوتھراپی کروائی جائے تاکہ ان کے دماغ سے باغیانہ سوچ نکالی جاسکےاوران کے اندر شدت پسندی کوکم کیا جاسکے۔ عسکری ونگ میں ان لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے جوفطرتاً جذباتی ہوتے ہیں۔ ہوش سے زیادہ جوش میں آکرفیصلے کرتے ہیں ہر پارٹی ایسے لڑکوں(خاص کر نئی نسل) پہ نظررکھتی ہے۔ جوکہ مزاجاً جذباتی اور جوشیلے ہوتے ہیں ذرا سا ان کو گرماؤ تومرنے مارنے پہ تل جاتے ہیں۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام پارٹیاں خاص کر کراچی کی یہ سمجھ لیں کہ اب نئی نسل کو بگاڑنے کا نہیں سنوارنے کا وقت ہے۔نئی نسل ہماری آلہ کار نہیں بلکہ ہمارے اچھے مقصد کو بہترین طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے ہے۔ لہذا ان کی قدر کی جائے اور انہیں بہترین خطوط پہ رہنمائی فراہم کی جائے۔بظاہر یہ کام مشکل لگ رہا ہے لیکن اٹل حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومت جو کام کرنا چاہتی ہے مخالفت کے باوجود ضرورکرتی ہے۔ لہذا اب حکومت کچھ وہ کام کرے جس سے نئی نسل کو فائدہ ہواور پاکستان کے مستقبل کو۔ سب سے پہلے یہ قانون بنایا جائے کہ ملک میں کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت کو عسکری ونگز بنانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اور اگر کسی نے بنایا تو اس پارٹی کوکالعدم قرار دے دیا جائے گا۔ اب واپس کراچی کے حالات پر آتے ہیں۔ اگر کراچی کی جماعتوں سے عسکری ونگز کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ یہ آپس میں لڑنا شروع کردیں۔ کیونکہ جب لیڈر ایک ہوتا ہےتو پارٹی کے اندرگروپ بندی کے باوجود اختلافات دب جاتے ہیں۔ لیکن اگر ایک لیڈر نہ ہو تو پارٹی مختلف لیڈروں اور ان کے حمایتوں کے حساب سے تقسیم ہوجاتی ہے اور پھریوں رہنماؤں کے آپس کے اختلافات سامنے آناشروع ہوتے ہیں۔ اور ان اختلافات کی بنیاد پر ان کے حمایتی آپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کردیتے ہیں۔سیاسی عمل کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک پارٹی کے جتنے بھی دھڑے ہوں ان کے لیڈران اور کارکنان اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے بھی حاصل کریں ملک کی دوبڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی بھی کئی دھڑوں میں تقسیم ہے اور وہ اپنے اختلافات مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرتی ہے ناکہ لڑائی جھگڑے کے ذریعے۔اس طرح یہ رویہ ملک میں آزاد سیاست کو فروغ دینے میں بہت اہم اور نمایاں کردار انجام دے رہا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سب دھڑوں اور جماعتوں کو بلادباؤ کام کرنے کاموقع دیا جائے۔ آنے والے دنوں میں خودواضح ہوجائے گاکراچی والے کس کی حمایت کرتے ہیںاور کون سی جماعت کراچی والوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ ذرا انتظار کیجئے۔
.
تازہ ترین