• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی(تجزیہ:مظہر عباس)متحدہ قومی موومنٹ اب تقسیم ہوچکی ،اگرچہ سیاست امکانات کاکھیل ہے تاہم اس جماعت کے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ یہ جماعت گزشتہ تین سالوں میں پاک سرزمین پارٹی، ایم کیو ایم  پاکستا ن اور ایم کیو ایم لندن میں بٹ چکی ہے۔ پارٹی میں دراڑیں2013ء کے عام انتخابات کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوئیں تاہم سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ بد قسمتی سے ایم کیو ایم لندن نےپی ایس پی اور22 اگست کے بعدکی صورتحال سے کوئی سبق نہ سیکھا ، اس لئے اسے ہی نتائج کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔ اس صورتحال میں ایم کیو ایم 6 ماہ کے دوران تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔ صاف واضح ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی لندن شاخ کچھ زمینی حقائق سے بالکل الگ تھلگ رہی ہے۔ جماعت کے سینئر رہنما ندیم نصرت درست ہوسکتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ’’الطاف ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم الطاف ہے‘‘ تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کہاں ہے جو 32 سال قبل قائم کی گئی تھی؟ وہ مکمل طور پر لاتعلق ہے اور آنے والے مہینوں میں یہ اختلافات مزیدبڑھ سکتے ہیں،نصرت کے تازہ بیان میں میئر کراچی وسیم اختر کی رہائی کے مطالبے سے نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے اور ان کے لئے مسائل بڑھ سکتے ہیں جبکہ انہیں 12 مئی کے قتل عام سمیت دیگر سنگین مقدمات کا سامنا ہے۔انہوں نے نہ صرف وسیم اختر کی رہائی بلکہ انہیں بطور میئر کام کرنے کی اجازت دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے، کیا اس طرح ایم کیو ایم لندن وسیم اور ان کے ایم کیو ایم پاکستان کے لیڈر کے درمیان کنفیوژن پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکے گی؟ وسیم اختر جنہیں چند ماہ قبل دئیے گئے بیان پر رینجرز کی طرف سے ہتک عزت کے مقدمے کا بھی سامنا ہے اور انہوں نے ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال اکبر سے ’’ بھول جائو اور معاف کردو‘‘ کی درخواست کی ہے، وہ سخت مشکل میں ہیں۔ اگر لندن شاخ   اپنا وزن وسیم اختر کے پلڑے  میں ڈالتی ہے تو اس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہی ہوسکتا ہے،آخر  ایم کیو ایم خاص طور پر ان کی رہائی کیوں چاہتی ہے ؟ کیا وہ انہیں فاروق ستار سے توڑنا اورپاکستان میں اپنا نیا لیڈر بنانا چاہتی ہے ؟ لندن شاخ کا یہ بیان قبل ازیں جاری بیان سے مکمل طور پر متصادم ہے جس میں ایم کیو ایم کے تمام ایم این ایز ، سینیٹرز اور ایم پی ایز سے استعفیٰ کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ مگر میئر، ڈپٹی میئر،چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین اور کونسلروں سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا، لگتا ہے کہ قانون سازوں اور بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کے حوالے سے صورتحال ایم کیو ایم پاکستان کے قابو میں ہے۔ لندن کے فاروق ستار کے خلاف واضح موقف کے بعد اب تک صرف ایک ایم این اے نے اپنا استعفیٰ الطاف حسین کو بھیجا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی ٹیم کی کشتی کنارے لگ گئی ہے بلکہ وہ بھی  جانتے ہیں کہ آنے والے دن مشکل ہوں گے۔سندھ اسمبلی میں پچھلی قرارداد کے متن پر اختلاف کے باوجود اب تک انہوں نے چیزوں کو اپنے قابو میں رکھا ہے۔ ایم کیو ایم لندن قانون سازوں اور بلدیاتی اداروں کے درمیان خط فاصل کھینچنے کے لئے کوشاں ہے اور ان کی ممکنہ قراردادوں سے بھی بچنا چاہتی ہے جو بلدیاتی اداروں کے آمدہ اجلاسوں خاص طور پر کراچی، حیدر آباد، سکھر اور میر پور خاص میں آسکتی ہیں۔میئر، ڈپٹی میئر کے انتخابات میں فاروق ستار اور ان کی ٹیم کو مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور انہوں نے امور کو سنبھالا  ہے ۔گزشتہ سالوں کے دوران ایم کیو ایم کے اندر اختلافات خاص طور پر لندن کے سابق پی پی پی کے صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک سے تعلقات کے معاملے پر بڑھے، ایم کیو ایم پاکستان عزیر بلوچ کے ذریعے ذوالفقار مرزا کے ’’ منی آپریشن‘‘ کے بعد حکومت میں شمولیت کے حق میں نہیں تھی جبکہ ایم کیو ایم لندن پی پی پی سے سمجھوتے کرکے اس کے بدلے میں کچھ ریلیف لینا چاہتی تھی۔ 2010ء میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد پی پی پی کے دو رہنمائوں اور ایک خفیہ ادارے کے سابق سربراہ نے تین مشکوک افراد کی گرفتاری کے بعد اپنی پیش رفت روک دی۔ اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حکومت میں شمولیت کے بارے میں ایم کیو ایم نے اپنے اندر مشاورت کیوں کی جس میں ایم کیو ایم پاکستان کی  واضح اکثریت کی طرف سے مخالفت نے ایم کیو ایم لندن کو حیرت زدہ کرکے رکھ دیا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں اس وقت اختلافات بڑھے جب پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے رپورٹ دی کہ سب کچھ قابو میں ہے اور اربن سندھ میں بھرپور کامیابی کی پیشگوئی کی مگر پولنگ کے روز اسے پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد کی طرف سے ’’سرپرائز‘‘ ملنا شروع ہوئے، سب سے بڑا دھچکا اس وقت ملا جب لندن کو یہ رپورٹ ملی کہ پارٹی عزیز آباد کے ایک پولنگ سٹیشن پر ہار گئی ہے جو ان کا سب سے بڑا گڑھ تھا۔ دوپہر کے وقت جماعت اسلامی کی طرف سے پولنگ کے بائیکاٹ کے اعلان نے نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ جماعت کے کارکنوں اور ووٹروں کو بھی اپ سیٹ کردیا۔ آج تک یہ سربستہ راز ہے کہ اس روز جماعت اسلامی کے امیراور  کراچی کی جماعت کے درمیان  کیا غلط فہمی ہوئی تھی۔ ایم کیو ایم کی واپسی تو ہوگئی اور اس نے اپنی 90فیصد سے زائد نشستیں جیت لیں مگر نتیجے نے الطاف حسین کو اپ سیٹ کردیا اور شاید پہلی بار انہوں نے پاکستان سے سیاسی انقطاع  کو محسوس کیا ہوگا، وہ 19 مئی کوجنرل باڈی اجلاس میں اپنے جذبات پر قابو پاکر پارٹی کو بچا سکتے تھے جس سے پاک سرزمین پارٹی کی بنیاد پڑی۔ الطاف حسین  آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں موجودہ آرمی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں اندازے لگانے میں بری طرح ناکام رہے ہیں جب انہوں نے تمام عسکری گروپوں کے کلین اپ فیصلہ کیا چاہے وہ کالعدم تنظیموں کے تھے یا سیاسی جماعتوں کے۔الطاف حسین کو سب سے زیادہ مایوسی اس وقت ہوئی جب پی پی پی نے سندھ اور نواز شریف نے ایم کیو ایم کے بغیر مرکز میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا، ایم کیو ایم کی تاریخ نے پہلی مرتبہ یہ بھی دیکھا کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے کسی ٹاپ لیڈر نے نائن زیرو  عزیز آباد کا دورہ تک نہ کیا۔لگتا ہے کہ اس صورتحال پر مایوسی اور پریشانی کے عالم میں الطاف  اسٹیبلشمنٹ اور کئی مرتبہ براہ راست فوج کے خلاف سخت تقریریں کیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنمائوں کی تشویش کو سننے سے انکار کردیا اور اپنے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد سے بھی روابط منقطع کرلئے۔ ایم کیو ایم لندن کو بھی ان کی تقریروں پر تشویش تھی اور ایک براہ راست خطاب میں الطاف کے گانے اور ڈانس کے بعد دونوں شاخوں نے اتفاق کیاکہ مستقبل  میں وہ کارکنوں سے براہ راست ویڈیو خطاب کی اجازت دینے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ پارٹی نے ان تقریروں کی بھاری قیمت ادا کی اور اس کے نتیجے میں صولت مرزا کے ویڈیو بیان اور عمران فاروق کے قتل تک کے واقعات سامنے آئے۔ 22 اگست کو پاکستان مخالف نعروں کے  بعدبالآخر ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے راستے جدا کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ایم کیو ایم پاکستان نے اب نائن زیرو پر اپنا دعویٰ بھی  سرنڈر کردیا ہے جو الطاف حسین کی رہائش گاہ ہے اور اسے آج تک مہاجر سیاست کا قبلہ و کعبہ  سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ اب حکومت سے چاہتی ہے کہ وہ خورشید میموریل ہال ان کے حوالے کردے  جو ان کا سیکرٹریٹ ہے ان دونوں مقامات کو رینجرز سربمہرز کرچکے ہیں تاہم اس اقدام کو قانونی تحفظ نہیں دیاگیا، فاروق ستار کو پارٹی کے انتظامی سیٹ اپ میں بھی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی رابطہ کمیٹی اپنی جگہ موجود ہے جبکہ اس کے بہت سے سیکٹر اور یونٹس سربراہ اور نائب سربراہ 22اگست اور موجودہ صورتحال سے پہلے ہی تقسیم  ہیں ، اس کے حکام نے منتظم کمیٹی خود توڑ دی جس کے آخری سربراہ عماد صدیقی تھے جو انٹیلی جنس فائلوں کے مطابق عسکری ونگ کے سربراہ تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو پارٹی کے دیگر ونگز کی تنظیم نو کے حوالے سے بھی سخت چیلنجوں کا سامنا ہے جس میں خاص طور پر لیبر ڈویژن، خدمت خلق فائونڈیشن ، ویمن اور سٹوڈنٹ ونگز سمیت محکمہ اطلاعات شامل ہیں۔ متحدہ رابطہ کونسل جو مہاجر عمائدین پر مشتمل ہے وہ بھی منجمد ہوچکی ہے۔ نظریاتی طور پر یہ لوگ الطاف حسین کو بانی وقائد مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ  وہ پارٹی کو کالعدم قرار دئیے جانے سے بچانے کیلئے فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کیلئے سب سے بڑی مایوسی یہ ہے کہ آج بھی اسٹیبلشمنٹ اسے ’’مشتبہ‘‘ سمجھتی ہے اور وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے بار بار یقین دہانیوں کے بیانات کے باوجود زمینی صورتحال ایسی نہیں کہ   انہیں کوئی ریلیف مل سکے۔ایم کیو ایم کے مبینہ عسکریت پسند بھی منقسم  ہیں جو لوگ جیلوں میں یا رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کی تحویل میں ہیں ریلیف کے منتظر ہیں چاہے وہ کسی بھی گروپ سے ملے۔ ایم کیو ایم اوورسیز بھی تقسیم ہو چکی ہے اس کا ایک گروپ اب بھی لندن کے ساتھ ہے اور دوسرا پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جہاں تک ایم کیو ایم کے بانی ارکان کا تعلق ہے ان میں سے کچھ زندہ ہیں،1978ء کے اے پی ایم ایس او سے سلیم شہزاد ، امین الحق، احمد سلیم صدیقی اور مسماۃ کشور زہرا ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ہیں جبکہ طارق جاوید کے بارے میں کچھ کنفیوژن ہے اور مسماۃ زریں مجید بیرون ملک ہیں اور انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان یا لندن میں سے کسی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ ان تمام بانی ارکان کے لئے وقت ہے کہ وہ اپنی سیاست پر نظر ثانی کریں کہ وہ اپنے بانی چیئرمین عظیم احمد طارق اور بانی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق کی قربانی دے چکے ہیں۔ یہ ایم کیو ایم کی دوسری اور تیسری کھیپ  ہے جو مکمل طور پر تین گروپوں ایم کیو ایم پاکستان، ایم کیو ایم لندن اور پاک سرزمین پارٹی میں تقسیم ہو چکی ہے اور پی ایس پی نے آفاق احمد کے بعد سب سے زیادہ پارٹی کو دھکچہ  پہنچایا ہے ۔ آفاق سب سے پہلے منحرف ہوئے تھے انہیں ابتدائی طور پر 1992ء میں سیکڑوں سیکٹرز اور یونٹ انچارجز کی حمایت ملی مگر مہاجر رائے دھندگان نے اسے مسترد کردیا حالانکہ اس کا مہاجر سیاست کے حوالے سے موقف مضبوط تھا۔حیدر آباد اور سکھر میں ایم کیو ایم کی دو مضبوط آوازیں انیس قائم خانی اور انیس ایڈووکیٹ کا تعلق بھی دوسری کھیپ سے ہے وہ رضا ہارون ، افتخار احمد، وسیم آفتاب کے ہمراہ اب سابق میئر اور پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال کے ساتھ ہیں۔ندیم نصرت ، مصطفی عزیز آبادی، واسع جلیل اور محمد انور  کا تعلق بھی دوسری کھیپ سے ہے وہ  پارٹی کے بانی الطاف حسین کے ساتھ ہیں جبکہ بیگم نسرین جلیل، حیدر عباس رضوی، فیصل سبزواری اور دیگر ان جیسے سینئر رہنما ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اس طرح یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ تنظیمی طور پر ایم کیو ایم تقسیم ہو چکی ہے اور اس کا حتمی امتحان آئندہ عام انتخابات میں ہونا باقی ہے اور اس میں جیتنے والوں کو اگر اربن سندھ کے نمائندوں کی نہیں تو مہاجروں کے حقیقی نمائندوں کی حیثیت ضرور حاصل ہوگی۔
تازہ ترین