• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی راہداری کے اندرون سند ھ پر اثرات ... خصوصی مراسلہ…ماجد صدیق نظامی

SMS: #KMC (space) message & send to 8001
ان دنوں پاکستان بھر میں سی پیک منصوبے یعنی پاک چین اقتصادی راہداری کا تذکرہ زور و شور سے جاری ہے۔گوادر سے کاشغر تک2442کلو میٹراس طویل راہداری منصوبے میں 33.8ارب ڈالر کے توانائی کے منصوبے اور11.8ارب ڈالر کے انفرااسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔51سے زائد منصوبوں پر مشتمل اس راہداری کی لاگت 46ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔ اسی لئے اس خطیر رقم سے مکمل ہونے والے منصوبوں کو ملکی ترقی میں ایک اہم سنگ میل گردانا جا رہا ہے۔ معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق اس منصوبے سے نہ صرف پاکستان کو ٹیکس کی مد میں خطیر رقم ملے گی بلکہ یہاں ایک معاشی انقلاب بھی برپا ہو گا جو تجارت کو محفوظ، آسان اور مختصر بنائے گا۔ مختلف علاقوں میں شروع ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں کئی طرح کی آراء سامنے آ رہی ہیں کوئی اسے پاکستان کے لئے ترقی اور خوشحالی کی نوید قرار دے رہا ہے تو کوئی پسماندہ علاقوں کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہے تاکہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہاتی علاقوں میں بھی اس پاک چین اقتصادی راہداری کے فوائد پہنچ سکیں۔اس راہداری کے مغربی روٹ پر تو بہت بحث ہو چکی ہے اوروہاں پائے جانے والے تحفظات کو دور کرنے کے اعلانات بھی کئے گئے ہیں۔تاہم سیاسی بیانات سے ہٹ کر اگر پاک چین اقتصادی راہداری کی جزئیات پر نظر ڈالی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ سند ھ کو اس منصوبے سے خا صا فائدہ ہو گا شاید اس کی وجہ سندھ کی جغرافیائی اہمیت ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ اس منصوبے میں بنیادی طور پر دوشعبوں میں کام جاری ہے جن میں توانائی اورمواصلات شامل ہیں۔ موا صلات میں ریلوے اور شاہرائوں پر کام ہو رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے کل 38منصوبوں میں سے 19منصوبے سندھ میں مکمل ہوں گے، اس طرح اس راہداری کے نصف فوائد صرف سندھ کو ہی پہنچ سکیں گے۔توانائی کے 35ارب ڈالر کے منصوبوں میں سے 11ارب ڈالر سندھ کے حصے میں آئے ہیں۔ سچل پاور پلانٹ میں ہوا کے ذریعے 50 میگا واٹ بجلی بنانے کے منصوبے پر بھی کام کیا جائے گا، اس کے علاوہ دائود ونڈ پاورپروجیکٹ اور جھم پیر یو ای پی پروجیکٹ سے بھی سو میگا واٹ بجلی بذریعہ ہوا حاصل کیا جائے گی۔تھر کے صحرا میں شنگھائی الیکٹرک کمپنی چھ سو میگا واٹ کے دو پاور پلانٹ لگائے گی۔جبکہ پورٹ قاسم کول فائرڈ پاور پلانٹ کے ذریعے 1300واٹ کا منصوبہ بھی مکمل کیا جائے گا۔اینگرو تھر کول کے بڑے منصوبے کو بھی اسی پاک چین اقتصادی راہداری سے منسلک کیا گیا ہے۔پاکستانی عملے کی رہنمائی اور مدد کے لئے9ہزار چینی شہری بھی موجود رہیں گے۔ ان منصوبوں کی حفاظت کے لئے 2600ریٹائرڈ فوجیوں کو رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن میں سے 700کے قریب بھرتی ہو چکے ہیں اور باقی افراد کے بھرتی کے معاملات جاری ہیں۔ان کے حوالے سے ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ یہ تمام سندھ کا ڈومیسائل رکھنے والے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایل این جی پروجیکٹ پر کا م کی صورت میں سندھ ہی سب سے زیادہ مستفید ہو گا۔نوابشاہ میں ایل این جی گوادر سے لائی جائے گی جس سے اندورن سندھ گیس کے مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔پاک چین اقتصادی راہداری کے ابھی تک کے منظرنامے میں سندھ خصوصا اندرون سندھ واقعی اس اقتصادی راہداری کے فوائد صحیح معنوں میں حا صل کر رہا ہے۔ان تمام خوابوں کی تکمیل اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ پاکستان خصوصاً سندھ میں امن امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوسکا تو سرمایہ کاری، بڑے منصوبوں اور اقتصادی ترقی کے خوابوں کی تعبیر ممکن نہ ہو پائے گی۔


.
تازہ ترین