• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُڑی حملہ کے بعد مودی سرکار اور انڈین میڈیا نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی تفتیش یا ثبوت کے فوراً ملبہ پاکستان پر ڈال دیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ذمہ دار پاکستان ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو سبق سیکھانے کی بات کرنے لگے، کہا گیا کہ سرجکل ا سٹرائیک ، ہاٹ پرسوٹ اور کولڈا سٹارٹ ڈاکٹرائین جیسی تمام تجاویز زیر غور ہیں۔ مودی سرکار کے وزراء اور انڈین میڈیا کی منہ سے جیسے آگ نکل رہی ہو۔ جنگی جنون کا سماں پیدا کیا گیا لیکن حملہ کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پاکستان کے متعلق سب جھوٹ ایک ایک کر کے سامنے آنے لگے۔ پہلے دن بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا کہ اسلحہ پاکستانی تھا لیکن بعد میں اس بیان سے پھر گئے اور بولا کہ میڈیا نے غلط رپورٹ کیا۔ حملہ والے دن بولا کہ حملہ آور پاکستان سے گئے تھے اور اُن کا تعلق ایک پاکستانی کا لعدم تنظیم سے ہے لیکن بعد میں ان الزامات کو بھی پی گئے۔ نہ حملہ آوروں جنہیں مار دینے کا دعویٰ کیا کی تصاویر دکھائیں نہ اس حملہ میں ہلاک ہونے والے ہندوستانی فوجیوں کی لاشوں کو دکھایا گیا۔ مبینہ حملہ آوروں کو واقعہ کے دوسرے ہی دن دفنا بھی دیا گیا جس پر انڈیا کے اندر بھی سوال اٹھنے لگے کہ اتنی جلدی کیا تھی۔ پٹھانکوٹ واقعہ کے حملہ آوروں کی لاشوں کو چار ماہ بعد دفنایا گیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق 2001میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کرنے والوں کو مارے جانے کے ایک ماہ بعد سپرد خاک کیا گیا تھا۔ ان حالات میں اُڑی حملہ ایک ایسا انڈین ڈرامہ لگتا ہے جس کا مقصد کشمیر میں ہندوستانی فوج کے مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کو ثبوتاژ کرنا مقصودتھا۔ لیکن اللہ کی مہربانی سے انڈیا کے ڈرامہ کو دنیا میں کسی نے سنجیدگی سے نہ لیا، کشمیر کا مسئلہ بھی خوب اجاگر ہوا۔ اب تو ہندوستان کے اندر مودی سرکار اور انڈین میڈیا کی طرف سے پاکستان کو دنیا میں اکیلا کرنے کی باتوں کا بھی خوب مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ تمام تر انڈین پروپیگنڈہ کے باوجود نہ امریکا نے اُڑی حملہ پر مودی سرکار کے پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کا ساتھ دیا اور نہ ہی کوئی دوسرا اہم ملک یا عالمی تنظیم بھارتی جھوٹ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ بلکہ ہندوستان میں موت کی سی کیفیت اُس وقت چھا گئی جب اُڑی حملہ کے چند دن بعد ہی روسی فوج کا دستہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاک فوج کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں کے لیے پاکستان آ پہنچا۔ ہندوستان نے کہا کہ اُس کے دہائیوں پرانے دوست ملک روس نے اُڑی حملہ کے بعد اپنے فوجی دستے پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا۔ لیکن روسی فوجی دستہ پروگرام کے مطابق گزشتہ ہفتہ پاکستان پہنچ گیا اور بھارت کا یہ جھوٹ بھی دنیا بھر کے سامنے آشکار ہو گیا۔ ہندوستان کے برعکس پاکستان حکومت، فوج اور میڈیا نے بلعموم ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ۔ پاکستان نے ماضی کی طرح اپنی پالیسی دہرائی کہ ہم ہندوستان کے ساتھ مسائل کا حل بات چیت سے چاہتے ہیں لیکن بھارت کو یہ واضح کر دیا کہ اگر پاکستان پر کسی بھی قسم کا حملہ کیا گیا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور اس کے لیے پاکستان کی فوج اور عوام کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہندوستان کی طرف سے ممکنہ حملہ کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے پاک فوج نے اپنی تمام تر تیاریاں مکمل کر لیں اور ان تیاریوں میں ہندوستان کی طرف سے کسی بھی سرجیکل اسٹرائیک کا جواب دینے کے لیے ہندوستان کے اندر اُن اہداف کا بھی تعین کر لیا گیا جنہیں جواباً پاکستان فوج نشانہ بنائے گی۔ پاکستان میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ہندوستان پاکستان پر کسی بھی قسم کے فوجی حملہ کی جرات نہیں کر سکتا۔ ہاں یہ خطرہ ضرور ہے کہ ہندوستان پاکستان کے کسی علاقہ خصوصاً بلوچستان میں دہشتگردی کی کوئی کارروائی کروا سکتا ہے اور اس کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان کو اکیلا کرنے کے خواہاں مودی کو حسینہ واجد اور اشرف غنی کے علاوہ کوئی اور نہیں مل رہا۔ ایرانی صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا وہ پاکستان اور ایران کی سلامتی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ایرانی صدر نے تو وزیر اعظم نواز شریف سے پاک چین اقتصادی راہداری میں بھی حصہ دار بننے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ یاد رہے کہ مودی سرکار اس منصوبہ کی سخت مخالف ہے اور اب انڈیا میں یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ ایرانی صدر اگر پاک چین اقتصادی راہداری میں حصہ دار بننا چاہتے ہیں تو پھر ہندوستان کو ایران کی چاہ بہار بندگاہ میں اربوں روپیے لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ اُڑی واقعہ کے بعد ہندوستان میں موجود پاکستانی فنکاروں کو دھمکیاں مل رہی ہیں اور انہیں بھارت چھوڑنے کا بھی کہا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے لیے بھی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ہندوستان سے کتنے ہی کشیدہ حالات ہونے کی صورت میں ایسی جنونیت نہیں پائی جاتی۔ ہمیں تو ہمارا دین یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا ہر حال میں خیال رکھیں اور اُن کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی غیر ملکی مہمان پاکستان آئے چاہے وہ ہندو مذہب کا پیروکار ہو اور اُس کا تعلق ہندوستان سے ہو ہمیں اُن کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ہمیں دہشتگرد کہنے والے ہندوستان کا یہ حال ہے کہ گجرات کے مسلمانوں کے قاتل کو انہوں نے اپنے ملک کا وزیر اعظم بنا ڈالا۔ مودی نے اپنے ملک کے شہریوں کو صرف مسلمان ہونے پر قتل کروایا اور وزیر اعظم کے عہدہ تک پہنچ گیا۔ ایک قاتل صرف نام نہاد shining India میں ہی وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ باقی رہا کہ ہم پاکستانیوں کو کیا کرنا چاہیے تو اس بارے میں سوشل میڈیا میں ایک پیغام پڑھنے کو ملا جس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پیغام کے مطابق: ’’اگر آپ کو واقعی بھارت پر غصہ ہے تو اپنی جنگ کا آغاز ابھی کریں، تمام انڈین گانے، ڈرامے، فلمیں اور انڈین رسومات کو بھی اپنی زندگی سے نکال باہر پھینک دیں۔ دشمن ہمیں ہتھیاروں سے تو شکست نہیں دے سکتا لیکن ہماری نوجوان نسل کو اپنے طریقوں پہ ڈال کر نظریاتی شکست دے رہا ہے۔‘‘


.
تازہ ترین